انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مختار ثقفی کا خروج بنی امیہ اورابن زبیرؓ کی کشمکش کے زمانہ میں بنی ثقیف کے ایک گمنام مگر عالی دماغ مختار بن ابی عبید ثقفی کو قسمت آزمائی کا حوصلہ پیدا ہوا مگر اس جیسے معمولی آدمی کا کسی سہارے کے بغیر کامیاب ہونا مشکل تھا یہ وہ زمانہ تھا جب ابن زبیرؓ کا اثر غالب تھا، اس لئے وہ شروع میں ان کے ساتھ ہوگیا اور حسن تدبیر سے ان کے مزاج میں بڑا رسوخ پیدا کرلیا (ابن سعد:۵/۷۱) لیکن چند دنوں کے بعد اس کو اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ رہ کر وہ حصول مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، تو وہ تو ابین کی تحریک یعنی حضرت امام حسینؓ کے خون کا انتقام لینے والی جماعت میں جو اسی زمانہ میں قائم ہوئی تھی شامل ہوگیا اور جب اس تحریک کے سرگروہ مختلف لڑائیوں میں کام آگئے تو خود اس کا رہنما بن گیا ؛لیکن ابن زبیرؓ سے بھی تعلق قائم رکھا اوران پر اس کو ظاہر نہ ہونے دیا اوراس تحریک کو مؤثر بنانے کے لئے حضرت امام زین العابدینؓ سے اس کی سرپرستی قبول کرنے کی درخواست کی اس سلسلہ میں اس نے بہت سے گمراہ کن عقائد اختراع کئے تھے جن کا امام موصوف کو علم تھا، اس لئے انہوں نے اس کی درخواست مسترد کردی اورمسجد نبویﷺ میں تقریر کرکے مختار کی گمراہی اور مکرو زور کا پردہ فاش کیا اور فرمایا کہ اس شخص نے محض لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اہل بیت کی دعوت کو آڑبنایا ہے ورنہ اس کو ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے مایوس ہونے کے بعد مختار حضرت امام حسینؓ کے سوتیلے بھائی محمد بن حنفیہ کے پاس پہنچا اوران سے امامت قبول کرنے کی درخواست کی امام زین العابدین نے انہی بھی روکا اورکہا کہ اہل بیت کی محبت میں اس کا ظاہر اس کے باطن سے بالکل مختلف ہے اور وہ یہ دعویٰ صِرف محبان اہل بیت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے ورنہ حقیقت میں اس کو اہل بیت کی دوستی سے کوئی تعلق نہیں؛بلکہ وہ ان کا دشمن ہے، میری طرح آپ کو بھی اس کا پردہ فاش کرنا چاہیے، محمد بن حنفیہ نے ابن عباسؓ سے رائے لی اس زمانہ میں ابن زبیرؓ ان دونوں کو بیعت کے لئے مجبور کررہے تھے اور ان کو ان کی جانب سے خطرہ تھا اس لئے مختار کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ابن عباسؓ نے محمد بن حنفیہ کو مختار کی سرپرستی قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ محبان اہل بیت کا مرکز عراق تھا،وہاں یہ تحریک زیادہ کامیاب ہوسکتی تھی،اس لئے محمد بن حنفیہ کو سرپرست بنانے کے بعد مختار نے ان سے عراق میں کام کرنے کی اجازت چاہی، انہوں نے اجازت دے دی، محمد بن حنفیہ نے محض ابن زبیرؓ کے خطرہ سے بچنے کے لئے مختار کی سرپرستی قبول کی تھی ورنہ ان کو خود اس پر اعتماد نہ تھا،اس لئے عراق میں کام کرنے کی اجازت دینے کے بعد بھی انہوں نے اپنا ایک آدمی عبداللہ بن کامل ہمدانی اس کے ساتھ کردیا اور اس کو مختار سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کردی۔ (ابن سعد:۵/۱) دوسری طرف مختار نے ابن زبیرؓ سے بھی مخفی تعلق رکھا، تاکہ اگر اس تحریک میں کامیابی نہ ہو تو ابن زبیرؓ کا دروازہ اس کے لئے کھلارہے اور ان سے اس نے کہا کہ عراق میں اس کا قیام ان کے لئے زیادہ مفید ہوگا اور وہاں جاکر وہ شیعانِ بنی ہاشم کو بنی امیہ کے مقابلہ میں ان کی امداد واعانت پر آمادہ کرے گا۔ (مروج الذہب حوالہ مذکور) ان دونوں سے الگ الگ اجازت لے کر وہ عراق پہنچا اور بڑی ہوشیاری سے اہل بیت کی تحریک کا رخ آل فاطمہ سے محمد بن حنفیہ کی طرف موڑدیا اورانہیں حضرت علیؓ کا جانشین اورمہدی موعود مشہور کرکے ان کی دعوت شروع کردی اوربہت سے گمراہ عقیدے اختراع کئے (تفصیل کے لئے دیکھو الملل والنحل شہرستانی :۱/۱۹۹) کوفہ شیعان علیؓ کا مرکز تھا،یہیں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا، اس سے پہلے توابین کی تحریک یہاں اٹھ چکی تھی ،عراقیوں کے دلوں میں عام طور پر قاتلیں حسینؓ سے انتقام لینے کا جذبہ موجود تھا ،اس لئے مختار کو اپنے مشن میں غیر معمولی کامیابی ہوئی،ہزاروں آدمی اس کے ساتھ ہوگئے،اس وقت ابن زبیرؓ کی جانب سے عبداللہ بن مطیع کوفہ کے عامل تھے،انہوں نے مختار کے پاس عوام کی آمد ورفت دیکھی تو اس کی طرف سے کھٹک گئے اورمختار سے اس کا سبب پوچھا،اس نے جواب دیا لوگ عیادت کے لئے آتے ہیں اس جواب سے وقتی طور پر معاملہ ٹل گیا، لیکن اس قسم کے حیلوں سے اس کی کوششیں زیادہ دنوں تک راز نہیں رہ سکتی تھیں اورابھی اس میں اتنی قوت نہیں پیدا ہوئی تھی کہ وہ عبداللہ بن مطیع کے مقابلہ میں علی الاعلان آجاتا اس لئے اس کو کوفہ میں کسی بااثر پشت پناہ کی ضرورت تھی، حسن اتفاق سے یہاں کے ایک مقتدراور بااثر شخص ابراہیم بن اشترنخعی حضرت علیؓ کے حامیوں میں تھے،مختار کی نظر انتخاب ان پر پڑی، اس نے محمد بن حنفیہ کی جانب سے انہیں ایک فرضی خط دے کر ان کو اپنا حامی بنالیا اورابراہیم اس کے پاس آنے جانے لگے کوفہ کے پولیس افسر ایاس بن نضار کو خبر ہوئی تو انہوں نے روک ٹوک کی ،مگرابرہیم نے اپنی قوت اوراپنے اثر کے زعم میں اس کی ایک نہ سنی ایاس نے تنبیہ بھی کی کہ تمہاری آمد و رفت سے میرا شبہ بڑھتا ہے،اس لئے آیندہ اس کا سلسلہ بند کرکے خاموشی سے گھر میں بیٹھو ،ورنہ تمہارا سر قلم کردیا جائے گا،لیکن ابراہیم کوفہ کے معزز ومقتدر آدمی تھے، وہ اس کی دھمکی کو خاطر میں نہ لائے اورمختار کو اس واقعہ کی اطلاع دے کر اس سے اس کے قتل کی اجازت مانگی،مختار نے اجازت دے دی،اجازت ملنے کے بعد ابراہیم نے نہایت جرات اوردلیری کے ساتھ اس کو قتل کردیا۔