انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن سہیلؓ نام، نسب عبداللہ نام، ابوسہیل کنیت ،والد کانام سہیل اوروالدہ کا نام فاختہ بنت عامر تھا شجرۂ نسب یہ ہے: عبداللہ بن سہیل بن عمرو بن عبدشمس بن عبدودبن نصربن مالک بن جبل بن عامر بن لوی۔ اسلام مکہ میں ایمان لائے اورسرزمین حبش کی دوسری ہجرت میں شریک ہوئے۔ ( استیعاب جلد۱:۳۹۴) حبش سے واپس آئے توان کے والد نے پکڑ کر مقید کرلیا اورسخت اذیت پہنچائی، بالآخر حضرت عبداللہؓ ان جفا کاریوں سے تنگ آکر جمالِ توحید کو شرک کے پردہ میں چھپانے پر مجبور ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے والدین اورمشرکین قریش نے ان کی ظاہری حالت سے یقین کرلیا کہ وہ بندگانِ توحید کے دائرسے باطل پرستوں کے حلقہ میں پھر واپس آگئے اور غزوۂ بدر میں شرک کی حمایت پر اپنے ساتھ لے گئے، لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ جو دل نورِ ایمان سے ایک دفعہ روشن ہوچکا ہے وہ کبھی تاریک نہیں ہوسکتا؟ غرض میدانِ بدر میں جب حق وباطل کے فدائی ایک دوسرے کےمقابل صف آرا ہوئے تو حضرت عبداللہؓ شرک کاظاہری جامہ چاک کرکے آغاز جنگ سے پہلے لوائے توحید کے نیچے آکھڑے ہوئے۔ غزوات اس واقعہ پر ان کے والد کو سخت غصہ آیا اورجنگ شروع ہونے پر غیظ وغضب کے ساتھ حملہ آور ہوئے، لیکن اب وہ آزاد تھے، اخوانِ ملت کی پشت پناہی اورہادیِ دین کے سایۂ عاطفت نے دل بڑھادیا تھا،نہایت بہادری وشجاعت سے لڑے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی فتح پر جنگ کا خاتمہ ہوا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳:۲۹۵) غزوۂ بدر کے علاوہ تمام مشہور معرکوں میں جانبازی وپامردی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے، مکہ فتح ہوا تو انہوں نے دربارنبوت میں اپنے والد کے لیے امان طلب کی، آپﷺ نے امان دے کر حاضرین سے فرمایا: "سہیل بن عمرو کو کوئی نگاہِ حقارت سے نہ دیکھے، قسم ہے کہ وہ نہایت ذی عزت و دانشمند ہے، ایسا شخص محاسن اسلام سے ناواقف نہیں ہوسکتا اوراب تو اس نے دیکھ لیا ہے کہ وہ جس کا حامی تھا اس میں کوئی منفعت نہیں۔ حضرت عبداللہؓ نے اپنے والد کے پاس آکر رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا اورامان کی بشارت دی تو ان کا دل اپنے صاحبزادہ کی سعادت مندی پر تشکر آمیز شفقت سے لبریز ہوگیا، بولے، خداکی قسم یہ بچپن ہی سے سعادت مند ونیکو کار ہے۔ (استیعاب:۱/۳۹۵) شہادت حضرت عبداللہ تقریباً ۳۸ برس کی عمر پاکر ۱۲ھ میں یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے۔ ( ایضاً) انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت ابوبکرؓ حج کے لیے مکہ آئے تو ان کے والد سہیل کے پاس تعزیت کے لیے گئے، صابروشاکر باپ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ شہید اپنے ۷۰ اہل خاندان کی شفاعت کرے گا، مجھ کو امید ہے کہ میرا لڑکا اس وقت مجھ کو فراموش نہ کرے گا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳ :۲۹۶)