انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مفسرین تابعینؒ حضرت مجاہد ؒ ابوالحجاج مجاہدبن جبرالمخذومی (۲۱ھ) میں خلافتِ فاروقی میں پیدا ہوئے اورآپ کی وفات مشہورقول کے مطابق ۱۰۴ھ میں سجدہ کی حالت میں ہوئی۔ آپ ترجمان القرآن حضرت ابن عباس ؓکے مشہور وممتاز تلامذہ میں ہیں، آپ ہی کا ارشاد ہے: "عرضت القران علی ابن عباس ثلاثین مرۃ "۔ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ۳۰ مرتبہ قرآن سنایا۔ آپ سے یہ بھی منقول ہے: "عرضت القرآن علی ابن عباس ثلاث عرضات اقف عند کل اٰیۃ،اسالہ فیم نزلت وکیف کانت"۔ (الاتقان:۴۱۷۲) میں نے تین مرتبہ حضرت ابن عباس کو قرآن سنایا ہر آیت پر ٹہر کر میں ان سے دریافت کرتا کہ یہ کس بارے میں نازل ہوئی اورکہاں نازل ہوئی۔ ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں،اس لیے کہ قلتِ عدد پر مشتمل خبر میں کثرت عدد کی نفی نہیں ہوتی یہ بھی ممکن ہے کہ حفظ وضبط،تجوید وقرأت اورحروف کی ادائیگی کو صحیح کرنے کے لیے مجاھد نے حضرت ابن عباس کو ۳۰ مرتبہ قرآن سنایا ہو اورتفسیر قرآن اوراس کے معارف ومسائل اسرارو رموز کو حاصل کرنے کے لیے تیس مرتبہ سنایا ہو اور اس کی تائید دوسری روایت کے اندر موجود اس جملہ سے بھی ہوتی ہے"اقف عند کل ایۃ منہ اسالہ عنھا:فیم نزلت وکیف کانت"۔ ہر آیت پر ٹہر کر میں دریافت کرتا کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی اورکہاں نازل ہوئی۔ (مناھل العرفان:۳۴۶) حضرت مجاہدؒ کے فرزند کہتے ہیں ایک آدمی نے میرے والد سے کہا،تم ہی ہوجو قرآن کی اپنی رائے سے تفسیر کرتے ہو، یہ سن کرمجاہد رحمہ اللہ روپڑے اورفرمایا اگر ایسا ہوتا تو یہ(کتاب اللہ پر)میری بڑی جرأت ہوتی ؛پھر فرمایا میں تیرہ سے زائد صحابہ سے تفسیر کوحاصل کیا ہوں۔ (التفسیرو المفسرون:۵۳) ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے فرماتے ہے میں نے مجاہد رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق سوالات کررہے تھے اوران کے ساتھ ان کی تختیاں تھیں،حضرت ابن عباس ان سے کہتے تھے لکھتے جاؤ،تواس طرح مجاہد نے اپنی مطلوبہ تفسیر ان سے معلوم کرلیں۔ (مقدمہ تفسیر ابن کثیر:۱۱۰) مجاہدؒ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خاص تلامذہ میں سے تھے؛ لیکن اس کے باوجود مجاھد نے حضرت ابن عباسؓ کے دیگر تلامذہ کی بنسبت بہت کم تفسیری اقوال ان سے نقل کیے ہیں۔ مصعبؒ کہتے ہیں تفسیر کے سب سے بڑ عالم مجاہد ہیں اورمناسکِ حج کے سب سے بڑے عالم عطاء بن ابی رباح ہیں،قتادہؒ کا بیا ن ہے "باقی ماندہ لوگوں میں مجاھد تفسیر کے سب سے بڑے عالم ہیں"خفیف کہتے ہیں کہ تفسیر کے سب سے زیادہ جاننے والے مجاھد ہیں، سفیان ثوریؒ کا ارشاد ہے:جب تفسیر تم کومجاھد سے مل جائے تو اسی کو کافی سمجھو(التفسیر والمفسرون:۴۳) سفیان ثوری ہی کا قول ہے چارلوگوں سے تفسیر حاصل کرو ،ان چاروں میں آپ نے مجاھد کو بھی شمار فرمایا، امام نووی کا ارشاد ہے:جب مجاھد کی طرف سے تمہیں کوئی تفسیر مل جائے تواسے کافی سمجھو۔ (الاتقان:۴۱۸۲) امام ذھبی فرماتے ہیں:پوری امت مجاھد کی امامت اوران سے اخذواحتجاج کرنے پر متفق ہے ،صحاحِ ستہ کے جامعین نے بھی آپ سے روایت کی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۴۱۰) علماء کرام اورمحدثین عظام کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ تفسیر میں مجاھد رحمہ اللہ کا مقام کس قدر بلند تھا اور وہ کس قدر ثقہ اورقابل اعتبار تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ ثقہ یہی ہیں، اسی وجہ سے امام بخاری اوردیگر بڑے بڑے محدثین نے ان کی تفسیر پر اعتماد کیا ہے، امام بخاری صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں کثرت سے ان کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ (مقدمۃ التفسیر لابن تیمیہ:۴۵) تفسیری اقوال (۱)"وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ"۔ (البقرۃ:۲۵۵) اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کے اندر تمام زمین وآسمان سمائے ہوئے ہیں۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مجاہد فرماتےہیں کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ اوراس کی کرسی کی جگہ اس کے عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ۔ (الدرالمنثور:۱۶۲۶) (۲)"حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ"۔ (الاعراف:۴۰) جولوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور ان کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر نہ چلا جائے ۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ اس میں" جمل" سے مراد کشتی کی رسی ہے اور" سم الخیاط" سے مراد سوئی کا سوراخ ہے۔ (الدرلمنثور:۴۲۳۱) (۳)"فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ"۔ (البقرۃ:۲۰۰) اورجب تم اپنے اعمال حج پورے کرچکو تو حق تعالی کا اس طرح ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے اٰباء واجداد کا ذکر کرتے ہو؛بلکہ یہ ذکر اس سے بدرجہا بڑھ کر ہو۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں"قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ" جب تم جانوروں کی قربانی سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کا ذکر کرو،عرب جب اپنی عبادت سے فارغ ہوتے تھے توپنے اٰبا واجداد کے کارنامے بیان کرکے اس پر تفاخر کرتے تھے تو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اس جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی بڑائی کریں۔