انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت فاروقی کے اہم واقعات خلافت فاروقی کی ابتداء ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ بروزسہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف فاروق اعظمؓ کے ہاتھ پر بیعت کی،۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ھ بروز دوشنبہ مثنیٰ بن حارثہ کے آنے اور حالات سنانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو بلا کر جو حکم دیا تھا اُس کے الفاظ یہ تھے: مجھے قوی اُمید ہے کہ میں آج ہی مرجاؤں گا،پس میرے مرنے کے بعد تم کل کا دن ختم ہونے سے پہلے پہلے مثنی ٰکے ساتھ لوگوں کو لڑائی پر روانہ کردینا تم کو کوئی مصیبت تمہارے دینی کام اورحکم الہی سے غافل نہ کرنے پائے،تم نے دیکھا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا کیا تھا؛ حالانکہ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی،جب اہل شام پر فتح حاصل ہوجائے تو اہل عراق کو عراق کی طرف واپس بھیج دینا ؛کیونکہ اہل عراق عراق ہی کے کاموں کو خوب سر انجام دے سکتےہیں اور عراق ہی میں اُن کا دلِ خوب کھلا ہوا ہے۔ ان الفاظ سے ایک یہ حقیقت بھی خوب سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ کیا دینی کام اور دینی مقصد کو مقدم سمجھ کر کیا ،مرتے وقت بھی اُن کو دینی کاموں ہی کی فکر تھی،اپنی اولاد ازواج کے حق میں کوئی وصیت نہیں فرمائی،فارق اعظمؓ نے بیعت خلافت لینے کے بعد لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی،مہاجرین وانصار کو خاص طورپر مخاطب کرکے جہاد فی سبیل اللہ کے لئےپکارا،مگر مجمع نے جوش اور آمادگی کا اظہار نہ کیا،تین دن تک حضرت فاروق اعظمؓ نے لوگوں کو جمع کرکے جہاد کا وعظ سنایا مگرلوگوں کی طرف سے خاموشی رہی،چوتھے روز ابو عبید بن مسعود ثقفی نے جہاد عراق کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کی، اُن کے بعد سعد بن عبیدؓ انصاری کھڑے ہوئے پھر حضرت سلیط بن قیسؓ اوراُسی طرح بہت سے لوگ یکے بعد دیگرے آمادہ ہوگئے اور ایک لشکر عراق کے لئے تیار ہوگیا،حضرت عمر فاروقؓ نے ابو عبید بن مسعودؓ ہی کو جو سب سے پہلے آمادہ ہوئے تھے اُس لشکر کا سردار بنا کر مثنی بن حارثہؓ کے ہمراہ عراق کی جانب روانہ کیا۔ تین دن تک لوگوں کا خاموش رہنا مؤرخین کو خاص طورپر محسوس ہوا ہے اور انہوں نے اُس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے پہلے ہی دن چونکہ خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا فرمان لکھ کر شام کے ملک کی طرف بھیجا تھا، لہذا لوگ ان سے ناخوش ہوگئے تھے اوراسی لئے ان کے آمادہ کرنے سے آمادہ نہیں ہوئے تھے،مگر یہ خیال سرا سر غلط اورنادرست ہے ،فاروق اعظمؓ کے فرمان کی کسی نے بھی مدینہ میں ایسی مخالفت نہیں کی کہ اُس کا حال عام لوگوں کو معلوم ہوا ہو،اگر واقعی فاروقؓ اعظم سے لوگ مدینہ میں پہلے ہی دن ناخوش ہوگئے تھے تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا،اس کا ذکر خاص الخاص طور پر مؤرخین کو لکھنا پڑتا اوراس ناراضی کے دور ہونے کے اسباب بھی بیان کرنے ضروری تھے،یہ ایک ایسا غلط خیال ہے کہ اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت بڑی گستاخی لازم آتی ہے وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ کسی اختلاف رائے کی بنا پر ترغیب جہاد کی تحقیر کرتے ،بات صرف یہ تھی کہ جہاد کے لئے سب تیار تھے مگر ذمہ داری لینے یا بیڑہ اٹھانے میں متامل اورایک دوسرے کے منتظر تھے،اُن میں ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ بزرگ اور مجھ سے زیادہ قابل عزت لوگ موجود ہیں،وہ جاوب دیں گے، اسی طرح ہر ایک شخص دوسرے کا منتظر تھا، بعض اوقات اس قسم کی گرہ بڑے بڑے مجمعوں میں لگ جایا کرتی ہے اورہم اپنے زمانے میں بھی اس قسم کی مثالیں دیکھتے رہتے ہیں، یہ انسانی فطرت کا خاصہ معلوم ہوتا ہے ،اس لئے اعمال نیک اور خیرات وصدقات کے متعلق ایک طرف سے بچنے کے لئے چھپانے کی ترغیب ہے،تودوسری طرف علانیہ بھی ان نیک کاموں کے کرنےکا حکم ہے تاکہ دوسروں کو تحریص وجرأت ہو، اور خاموشی کی کوئی گرہ نہ لگنے پائے،اگرفاروق اعظم نے اپنی خلافت کے پہلے دن خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا حکم لکھا تھا تو جہاد کی ترغیب تو انہوں نے بیعت خلافت لینے کے بعد ہی پہلی تقریر اورپہلی ہی مجلس میں دی تھی،اس تقریر اوراس ترغیب کے بعد ہی انہوں نے خالدؓ کی معزولی کا فرمان لکھوایا ہوگا، پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پہلی ترغیب کا جواب مجمع کی طرف سے کیوں نہ ملا،بات یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی اُستاد اپنے شاگردوں کومدرسے کے کمرے میں حکم دیتا ہے، کہ تختۂ سیاہ کو کپڑے سے صاف کردو یا نقشے کو لپیٹ دو مگر اس کے اس حکم کی کوئی طالب علم تعمیل نہیں کرتا، اس کا یہ سبب نہیں ہوتا کہ اُس اُستاد کی تعمیل کو شاگرد ضروری نہیں سمجھتے ؛بلکہ تعمیل نہ ہونے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اُستاد نے سارے کے سارے شاگردوں کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا تھا جب وہی اُستاد کسی ایک یادوشاگردوں کا نام لے کر یہی حکم دیتا ہے تو فوراً اُس حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے،بہر حال لوگوں کے مجمع کا تین دن تک خاموش رہنا خواہ کسی سبب سے ہو،مگر یہ سبب تو ہرگز نہ تھا کہ وہ خالد بن ولیدؓ کی معزلی کے حکم سے ناراض تھے ؛کیونکہ خود مدینہ منورہ میں انصار کی ایک بڑی جماعت ایسی موجود تھی،جو خالد بن ولیدؓ کو مالک بن نویرہ کے معاملے میں قابل مواخذہ یقین کرتی تھی اگر اور لوگ ناراض تھے تو وہ جماعت تو فاروق اعظمؓ سے خوش ہوگی،اُن لوگوں کو کسی چیز نے خاموش رکھا؟ صدیق اکبرؓ نے خالد بن ولیدؓ کو افواج شام کا سپہ سالار اعظم بنا کر بھیجا تھا،حضرت خالد بن ولیدؓ ایک زبردست جنگ جو اور بے نظیر بہادر سپہ سالار تھے،عراق میں بھی اب تک خالد بن ولیدؓ ہی سپہ سالاراعظم تھے اوران کی حیرت انگیز بہادری اورجنگی قابلیت نے دربار ایران اور سا سانی شہنشاہی کو حیران وششد ر اور مرعوب بنادیا تھا ، رومی سلطنت کو بھی ابتداء اسی طرح مرعوب بنانے اورایک زبردست ٹکر لگانے کی ضرورت تھی،لہذا صدیق اکبرؓ نے سیف اللہ کو شام کی طرف سپہ سالار اعظم بنا کربھیجا اوران کا اندازہ نہایت صحیح ثابت ہوا؛ کیونکہ خالد بن ولیدؓ نے شام میں پہنچ کر یرموک کے میدان میں ایسی زبردست ٹکر لگائی کہ رومی شہنشاہ ہی کی کمر ٹوٹ گئی اور قیصر روم کے رعب وسطوت میں زلزلہ برپاہوگیا، ان ابتدائی لڑائیوں کے بعد لشکر اسلام کے قبضہ میں ایران و روم کے آباد وسرسبز صوبے آنے والے تھے اوردونوں شہنشاہیوں کی باقاعدہ افواج سے معرکہ آرائی ومیدان داری شروع ہونے والی تھی،لہذا اب ضرورت تھی کہ اسلامی افواج نہ صرف ایک فتح مند وملک گیر سالار کے زیر حکم کام کریں؛بلکہ ایک مدبر وملک دارافسر کی ماتحتی میں مصروف کار ہوں۔ فاروق اعظمؓ خالد بن ولیدؓ کی جنگی قابلیت کے منکر نہ تھے ؛بلکہ وہ خالد بن ولیدؓ کو کسی قدر غیر محتاط اورمشہور شخص سمجھتے تھے،ان کو شروع ہی سے یہ اندیشہ تھا کہ خالد بن ولیدؓ کی بے احتیاطی کہیں مسلمانوں کی کس جمعیت کو ہلاکت میں نہ ڈال دے ،صدیق اکبرؓ بھی اس احساس میں فاروق اعظمؓ کے مخالف نہ تھے؛ لیکن وہ عراق اور شام کے ابتدائی معرکوں میں خالد بن ولیدؓ کو ہی سب سے زیادہ موزوں اورمناسب سمجھتے تھے وہ خالد بن ولیدؓ کی سرداری کے نقائص کو خوبیوں کے مقابلے کمتر پاتے تھے اوراسی لئے انہوں نے دنیا کی دونوں سب سے بڑی طاقتوں (روم اورایران) کو سیف اللہ کی برش وتابانی دکھانی ضروری سمجھی،یہ مدعا چونکہ حاصل ہوچکا تھا،لہذا اب ضرورت نہ تھی،کہ خالد بن ولیدؓ ہی سپہ سالار اعظم رہیں، اس موقعہ پر اُن الفاظ کو ایک مرتبہ پھر پڑھو، جو صدیق اکبرؓ نے فاروق اعظم کو اپنے آخری وقت میں لشکر عراق کی نسبت فرمائے تھے اور جو اوپر درج ہوچکے ہیں،فاروقؓ اعظم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ: خدائے تعالیٰ ابوبکرؓ پر رحم کرے کہ انہوں نے خالد بن ولیدؓ کی امارت کی پردہ پوشی کردی؛کیونکہ انہوں نے مجھ کو خالدؓ کے ہمراہیوں کی نسبت اپنے آخری وقت میں حکم دیا کہ عراق کی جانب واپس بھیج دینا ،لیکن خالدؓ کا کچھ ذکر نہیں کیا: اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا حکم دیا،وہ منشائے صدیقی کے خلاف نہ تھا اوریہ بھی کیسے ہوسکتا ہے کہ فاروق اعظمؓ خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلا کام وہ کرتے جو صدیق اکبرؓ کی منشا اورخواہش کے بالکل خلاف ہوتا،فاروقؓ اعظم کی خلافت کا حال شروع کرتے ہوئے عام طور پر مؤرخین اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ صدیق اکبرؓ نے فاروق اعظم کو لشکر اُسامہ سے اس لئے جدا کرکے اپنے پاس رکھا تھا کہ امور خلافت میں ان کے مشورے سے امداد حاصل کریں اور خلافت صدیقی کےپورے زمانے میں آخر وقت تک فاروق اعظم ؓ ہی صدیق اکبرؓ کے وزیر ومشیر رہے،صدیق اکبرؓ کا کوئی کام ایسا نہ تھا ،جس میں فاروق اعظم ؓ سے استخراج واستصواب نہ کرلیا گیا ہو،دنیا میں بہت سے لوگ ظاہر بیں ہوا کرتے ہیں اور وہ اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بڑے بڑے آدمیوں سے ایسی باتوں کو منسوب کردینے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا کرتے،جن کو اُن بڑے آدمیوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا،فاروق اعظم نے خالد بن ولیدؓ کی بعض بے احتیاطیوں پر ضرور اظہار ناراضگی کیا؛ لیکن یہ اظہار ناراضگی بس وہیں تک تھا ،جہاں تک شریعت اوراُن کی تحقیق واجتہاد کا تعلق تھا،اس اظہار ناراضگی کو عداوت وعناد کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا نہ ہوا، وہ فاروقؓ اعظم جو اسیران بدر کی نسبت یہ آزادانہ حکم دے کہ جو جس کا عزیز ورشتہ دار ہے وہ اسی کے ہاتھ سے قتل کیا جائے، اس کی نسبت یہ رائے قائم کرلی کہ اُن کو خالدؓ سے کوئی کدیا ذاتی عداوت تھی،سراسر ظلم اور نہایت ہی رکیک وبیہودہ خیال ہے۔ فاروق اعظمؓ نے خالد بن ولیدؓ کو معزول کرکے درحقیقت امت محمدیہ پر بڑا احسان کیا اورایک ایسی نظیر پیدا کردی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور خدمت دینی کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو ہیچ سمجھنے کی مثال میں سب سے پہلے ہم خالد بن ولیدؓ ہی کا نام لیتے ہیں،خالدؓ بن ولید اگر مرتے دم تک افواج اسلام کے سپہ سالار اعظم رہتے ،تب بھی اُن کی بہادری اورجنگی قابلیت کے متعلق اس سے زیادہ کوئی شہرت نہ ہوتی جو آج موجود ہے، لیکن اس معزولی کے واقعہ نے خالدؓ بن ولید کی عظمت وعزت میں ایک ایسے عظیم الشان مرتبہ کا اضافہ کردیا ہے جس کے آگے اُن کی سپہ گری وبہادری کے مرتبہ کی کوئی حقیقت نہیں ہم ایک طرف خالد بن ولیدؓ کے جنگی کارناموں پر فخر کرتے ہیں تو دوسری طرف اُن کی للہیت اوراطاعت ِ اولی الامر کو فخر یہ پیش کرتے ہیں۔ بعض مورخین نے اپنی ایک یہ لطیف رائے بھی بیان کی ہے کہ خالد بن ولیدؓ کو چونکہ ہر ایک معرکہ میں فتح و فیروزی حاصل ہوتی رہی تھی، لہذا لوگوں کےدلوں میں خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ تمام فتوحات خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری کے سبب مسلمانوں کی کامیابیاں اورفتح مند یاں کسی شخص سے وابستہ نہیں ہیں ؛بلکہ مشیت ایزدی اوراسلام کی برکات ان فتوحات کا اصل سبب ہے ،اس روایت کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ فاروق اعظمؓ نے جس طرح افواج شام کی سپہ سالاری میں تبدیلی فرمائی،اسی طرح افواجِ عراق کی سپہ سالاری سے بھی حضرت مثنیٰ بن حارثہ کو معزول کرکے ابو عبیدہؓ بن مسعود کا ماتحت بنادیا تھا،آج بھی اگر مسلمان اسلام کی پیروی میں صحابہ کرام کا نمونہ بن جائیں،تو وہی کامیابیاں اورفتح مندیاں جو قرون اولیٰ میں حاصل ہوئی تھیں پھر حاصل ہونے لگیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جو قابل تذکرہ جنگی انتظامات کئے،ان میں سب سے پہلا کام یہ تھا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو افواجِ شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کرکے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو ملک شام کی اسلامی افواج کاسپہ سالاراعظم بنایا،اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی، اور حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابوعبیدہ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافر کشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی ؛بلکہ حضرت ابوعبدیہ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے،یہی وہ امتیاز خاص ہے جو حضرت خالد بن ولید کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا کی نگاہ میں بہت بلند کردیتا اوراُن کو روئے زمین کا بے نظیر سپہ سالار اورسچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الہی کے سوا شہرت طلبی اورریا کانام ونشاں بھی نہ تھا، دوسرا کام فاروق اعظمؓ کا یہ تھا کہ انہوں نے ابو عبیدہؓ بن مسعود کو ایک فوج کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا اوراُن کو ملک عراق کے تمام اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا، ابو عبیدہؓ بن مسعود کے روانہ کرنے کے بعد تیسرا کام فاروقؓ اعظم کا یہ تھا کہ یعلیٰ بن اُمیہؓ کو ملکِ یمن کی جانب روانہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس آخری وصیت کو پورا کریں کہ ملکِ عرب میں مسلمانوں کے سوا کوئی یہودی اورکوئی نصرانی نہ رہنے پائے،چونکہ مسلمان صدیق اکبرؓ کی خلافت کے سوا دو برس دوسرے اعاظم امور کی انجام دہی میں مصروف رہے کہ اس وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پورا کرنے کاا بھی تک موقعہ نہ مل سکا تھا۔