انوار اسلام |
س کتاب ک |
تنوین کے بعد الف لام آنے سے قراءت میں پیدا ہونے والی صورتیں اور ان کا حکم ! ایک کسی آیت یا جملہ کا آخری حرف تنوین (دوزبر، دوزیر، دوپیش ) والا ہو اور اس کے بعد والی آیت یا جملہ کا لفظ "ال" سے شروع ہوتا ہو تو وہاں اس کے آخری حرف کو اس کے پہلے حرف سے ملاکر پڑھنے کی صورت میں تنوین کے بجائے نون پڑھی جاتی ہے۔ جو قاعدہ اور قانون اوپر بیان کیا گیا ہے بعض جگہوں پر اس طرح ہونے سے اسے قاعدۂ کلیہ نہیں سمجھنا چاہئے، یہ تو جتنے کالے اتنے جامن سمجھنے والی بات ہوگئی، قرآن شریف میں ہے: مختلفاً الوانُہٗ (النحل،ع:۲)۔ مختلفٌ الوانہٗ (نحل ع:۹)۔ مختلفاً الوانُھا ۔ مختلفٌ الوانھا (فتح، ع:۴)۔ مذکورہ مثالوں میں تنوین کے بعد "الوانُہٗ "اور "الوانُھا" ہے، اس لئے تنوین کے بعد کا لفظ‘‘ال’’ سے شروع ہوتا ہے مگر یہاں ملاکر پڑھنے کی صورت میں تنوین کے بجائے نون نہیں پڑھی جاتی، یعنی مختلفُ نِ الْوَانُھا پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھے گا تو لحن جلی لازم آئے گا جو حرام ہے، اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل کے دوسرے رکوع میں ہے و کُلَّ انسانٍ اَلْزَمناہُ ۔ یہاں بھی تنوین کے بعد کا لفظ‘‘ال’’ سے شروع ہوتا ہے مگر تنوین کے بجائے نون نہیں پڑھا جاتا یعنی انسانِ نِ الْلزَمْناہُ ۔ پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھے گا تو گناہ کار ہوگا اور سورۂ طور کے پہلے رکوع میں ہے:بایمانٍ اَلْحَقنَا بِھِمْ ۔ یہاں بھی تنوین کے بعد والا حرف ‘‘ال’’ سے شروع ہوتا ہے مگر تنوین کے بجائے نون نہیں پڑھا جاتا ، یعنیبایمانِ نِ الْحقنابھم نہیں پڑھاجاسکتا ہے، پڑھے گا تو لحن جلی لازم آئے گا اور گنہگار ہوگا اور سورۂ نبا کے پہلے رکوع میں ہے: و جناتٍ اَلْفَافاً ۔ یہاں پر تنوین کے بعد والا حرف ‘‘ال’’ سے شروع ہونے کے باوجود تنوین کے بجائے نون نہیں پڑھا جاتا ، یعنی و جناتٍ نِ الْفافاً ۔پڑھنا جائز نہیں، پڑھے گا تو لحن جلی لازم آئے گا۔ نیز تنوین کو نون سے بدلنے کے لئے ‘‘ال’’ پر انحصار کرنے اور موقوف رکھنے میں دوسری خرابی یہ ہے کہ تنوین کو نون سے بدلنے کی قرآن و حدیث میں بے حد مثالیں ہیں جس میں تنوین کے بعد بہت سی جگہ "اب"، ات’’، اج"،اد"،اذ"،سے لےکر"اھ" تک کے حروف آئے اور ان سب سے ملاتے وقت ن پڑھا گیا، ان کی چند مثالیں یہ ہیں: "اب" کی مثال: عزیر نِ ابْنُ اللہ ۔ "ات" کی مثال: شیئًا نِ اتخذھا ۔ "اج" کی مثال: خبیثۃٍ ن اجْتُثّت ۔ "اد" کی مثال: منیبِ نِ ادْخُلوھا ۔ "اذ" کی مثال: طُوَی نِ اذْھَبْ ۔ وغیرہ وغیرہ بے حد مثالیں ایسی ہیں ۔ اصل قاعدہ اور قانون یہ ہے کہ جس لفظ کے اخیر حرف پر تنوین (دوزبر، دوزیر، دوپیش) ہو اور اس کے بعد والی آیت یا جملہ کا پہلا حرف ہمزۂ وصلی ہو تو اس کو ملاکر پڑھنے کی صورت میں ہمزۂ وصل حذف ہوجاتاہے (پڑھا نہیں جاتا) اور "تنوین""نون" سے بدل جاتی ہے، یعنی تنوین کی ایک حرکت پڑھی جاتی ہے اور دوسری حرکت نون پر آجاتی ہے، جسے "نونِ قطنی" کہا جاتا ہے، قرآن مجید میں ایسی جگہ پر آسانی کے لئے چھوٹا سا نون لکھ دیا جاتا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۵/۷۹، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)