انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۲۔قاضی شریح بن حارثؒ نام ونسب شریح نام، ابو امیہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،شریح بن حارث بن قیس بن الجہم بن معاویہ بن عامر بن رائش بن حارث بن معاویہ بن ثور بن مرقع بن کندہ کندی،بعض روایتوں میں نسب نامہ کے اوپر کے ناموں میں تھوڑا سا اختلاف ہے،ایک روایت یہ بھی ہے کہ شریح نسلاً عرب نہ تھے ؛بلکہ عجم کے ان خانوادوں میں سے تھے،جو کندہ کے حلیف بن کر یمن میں آباد ہوگئے تھے۔ عہد رسالت شریح عہد رسالت میں موجود تھے اور بعض روایتوں کے مطابق وہ آنحضرت ﷺ کے شرف زیارت سے بھی مشرف ہوئے،لیکن یہ بیان صحیح نہیں ہے،اسلام کے شرف سے تو بیشک وہ اسی عہد میں مشرف ہوگئے تھے،لیکن دولت دیدار سے محروم رہے حافظ ابن حجر کا بھی یہی فیصلہ ہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ خلفاء اربعہ کے زمانہ کے شریح کے حالات بہت ملتے ہیں،لیکن کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا،جس سے رسول اللہ ﷺ سے ان کی ملاقات ثابت ہوتی ہو۔ (اصابہ:۲/۲۰۲) علامہ ابن سعد اورحافظ ابن عبدالبر وغیرہ تمام ارباب سیر وطبقات اسی کے قائل ہیں اور شریح کو تابعین ہی میں شمار کرتے ہیں،البتہ تابعین کے زمرہ میں وہ نہایت ممتاز شخصیت رکھتے تھے اورتاریخ اسلام کے مشہور قاضی تھے۔ فضل وکمال شریح نے بہت سے اکابر صحابہ کو پایا تھا اوران کی صحبت اٹھائی تھی پھر وہ فطرۃ نہایت ذہین وطباع تھے (استیعاب:۲/۶۷) اس لیے علمی اعتبار سے انہوں نے اپنے اقران میں نہایت ممتاز حیثیت حاصل کرلی تھی،امام نووی لکھتے ہیں کہ شریح کی توثیق، دینداری ،افضل وکمال ذکاوت اوران کی روایات سے احتجاج پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق اول،ص۲۴۴)حافظ صفی الدین خزرجی لکھتے ہیں کہ وہ بڑے جلیل القدر اورذکی علماء میں تھے۔ (تہذیب الکمال:۱۶۵) حدیث بصرہ کے ممتاز حفاظِ حدیث میں تھے،صحابہ میں انہوں نے حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ ،عبداللہ بن مسعودؓ، زید بن ثابتؓ جیسے اکابر سے استفادہ کیا تھا، امام شعبی،ابووائل ،قیس بن ابی حازم،ابن سیرین ،عبدالعزیز بن رفیع ،مجاہدین جبیر،عطاء بن سائب،انس بن سیرین اورابرہیم نخعی جیسے آئمہ ان کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص۲۴۴) فقہ اگرچہ شریح حدیث کے بھی حافظ تھے،لیکن ان کا خاص فن فقہ تھا، حافظ ذہبی اور ابن حجر وغیرہ ان کا خصوصی فن فقہ ہی کو شمار کرتے ہیں اوران کے نام کے ساتھ فقیہ کا لقب لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ،جلد اول،ص۵۱،تہذیب التہذیب حوالہ مذکور)وہ مرکز فقہ کوفہ کی جماعت افتاء کے ایک رکن تھے۔ (اعلام الموقعین:۱/۲۷) قیافہ وشاعری حدیث وفقہ کے علاوہ وہ عرب کے مروجہ فنون قیافہ اورشاعری میں بھی دستگاہ رکھتے تھے (ابن سعد:۶/۹۰) شاعری میں اتنا کمال حاصل تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے نظم میں فیصلہ دیا تھا، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت کے خلاف جس کے ایک لڑکا تھا اوراپنے شوہر کی موت کے بعد اس نے دوسری شادی کرلی تھی،اس کی ساس نے قاضی شریح کے یہاں دعویٰ دائر کیا، عورت کا دعویٰ تھا کہ لڑکے کی ولی وہ ہے کیونکہ اس کے باپ کی ماں ہے اورساس کا دعویٰ تھا کہ بہو کے عقد ثانی کے بعد حق تولیت اسے ملنا چاہئے،ساس نے نظم میں اپنا دعویٰ پیش کیا۔ أبا أمية أتيناك وأنت المرء نأتيه أتاك ابني وأماه وكلتانا نفديه ثم تزوجت فهاتيه ولا يذهب بك التيه فلو كنت تأيمت لما نازعتكم فيه ألا يا أيها القاضي فهذه قصتي فيه (سنن سعید بن منصور،باب ماجاء فی الایلاء،حدیث نمبر:۲۱۰۸) یعنی ابو امیہ ہم آپ کے پاس انصاف کے لیے آئے ہیں،میرا لڑکا (پوتا) اوراس کی ماں تیرے پاس آئے ہیں اورہم دونوں اس پر فدا ہیں (بہو سے خطاب) جب تم نے دوسری شادی کرلی تو لڑکا مجھے دے دو، زبردستی مت کرو،بیوہ ہوجانے کے بعد تم اس کے بارہ میں مجھ سے کیوں جھگڑا کرتی ہو (قاضی سے خطاب) قاضی صاحب لڑکے کے بارہ میں ہم دونوں کا قصہ یہ ہے۔ بہو نے ساس کے دعوی کا یہ جواب دیا۔ يا أيها القاضي قد قالت لك الجده مقالا فاستمع مني ولا تنظر في رده أعزي النفس عن ابني وكبدي حملت كبده فلما كان في حجري يتيما ضائعا وحده تزوجت رجاء الخير من يكفيني فقده ومن يكفل لي رفده ومن يظهر لي وده قاضی صاحب دادی یعنی میری ساس کا بیان آپ نے سن لیا،آپ میرا بھی سنیے اور اس کو ردنہ کیجئے، میں اپنے لڑکے سے اپنے دل کو تسلی دیتی ہوں،میں نے ہمیشہ اس کوکلیجے سے لگائے رکھا ہے،میری بیوہ گود میں تنہائی کی وجہ سے اس یتیم کے ضائع جانے کا خطرہ تھا،اس لیے میں نے اس کی بھلائی اوراس کی نگہداشت کے خاطرایسے شخص سے شادی کرلی جو اس کو ضائع نہ ہونے دے اور اس کی کفالت کرسکے۔ چونکہ ساس بہو دنوں نے نظم میں دعویٰ پیش کیا تھا، اس لیے قاضی شریح نے نظم ہی میں اس کا فیصلہ دیا۔ قد فھم القاضی ماقلتما وقضا بینکما ثم فصل بقضاء بین بینکماوعلی القاضی جھدا ان عقل قال للجدہ بینی بالصبی وخذی ابنک من ذات العلل انھا لو صبرت کان لھا قبل دعواھا تبغیھا البدل تم دونوں نے جو کچھ کہا قاضی نے اسے سمجھا اوردونوں کے درمیان ایک واضح فیصلہ کردیا، اگر قاضی سمجھدار ہے تو اس پر کوشش کرنا فرض ہے پھر دادی سے کہا لڑکے کو اس حیلہ ساز سے لے کر الگ ہوجا ،اگر وہ نکاح نہ کرتی توبچہ اس کے پاس رہتا۔ (ابن سعد:۶/۹۴) قضا کی استعداد قابلیت ایک قاضی کے لیے جن اوصاف اورصلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام شریح کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں، فضل وکمال کا حال اوپر گذرچکا، طبعا وہ نہایت ذہین، ذکی، طباع،فریس اورفہیم تھے (استیعاب:۲/۶) پیچیدہ سے پیچیدہ اورظاہر فریب سے ظاہر قریب معاملات کی تہ تک پہنچ جاتے تھے،اس کی مثالیں آیندہ آئیں گی، ان اوصاف نے ان میں قدرۃقضاء کی نہایت اعلیٰ استعداد پیدا کردی تھی، حضرت علی ؓ جن کوزبان رسالت سے اقضا ھم علی ،کی سند ملی تھی،شریح کو، اقضی العرب،عرب کا سب سے بڑا قاضی فرماتے تھے۔ (تہذیب الاسماء:اول،۲۴۳) عہد قضاء پر تقریر عہد ہ قضا پر تقرر سے پہلے، ان کی یہ استعداد وصلاحیت مشہور ہوچکی تھی اورلوگ متنازعہ فیہ معاملات میں ان کو حکم بناتے تھے ؛چنانچہ اسی سلسلہ میں حضرت عمرؓنے ان کے ایک فیصلہ کو دیکھ کر انہیں کوفہ کا قاضی بنادیا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص سے بشرطِ پسندگی ایک گھوڑا خریدا اورامتحان کے لیے ایک سوار کو دیا،گھوڑا سواری میں چوٹ کھاکر باغی ہوگیا، حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کرنا چاہا،گھوڑے کے مالک نے لینے سے انکار کردیا، اس پر نزاع ہوئی اورشریح ثالث بنائے گئے ،انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس کیا جاسکتا ہے،ورنہ نہیں۔ (کتاب الاوائل الباب السابع ذکرۃ القضاۃ) ایک دوسری روایت میں اس واقعہ کی شکل یہ ہے کہ گھوڑا امتحان میں ہلاک ہوگیا، حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کرنا چاہا، اس پر تنازعہ ہوا اورشریح حکم مقرر ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس کو خریدا ہے اسی کو لینا ہوگا یا جس حالت میں لیا تھا،اسی حالت میں واپس کرنا ہوگا، اس فیصلہ پر حضرت عمرؓ نے ان کو کوفہ کا قاضی بنادیا۔ (ابن سعد:۶/۹۱) قاضی شریح نے اس خدمت کو اس قابلیت ،اس خوش اسلوبی اوردیانت سے ادا کیا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ سے لے کر عبدالملک کے زمانہ تک مسلسل ساٹھ برس قاضی رہے ،اس طویل مدت میں بڑے بڑے انقلابات وحوادث ہوئے، خلافتِ راشدہ کا دور ختم ہوکر اموی حکومت کا آغاز ہوا، ابن زبیرؓ اورامویوں میں خوں ریز معرکہ آرائیاں ہوئیں، ساری دنیائے اسلام میں انقلاب برپا ہوا، لیکن شریح بدستور مسند قضا پر متمکن رہے،ابن زبیرؓ اورعبدالملک کی جنگ کے زمانہ میں اپنا دامن بچانے کے لیے صرف چند برسوں کے لیے مستعفی ہوگئے تھے۔