انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تاریخ وتدوین تاریخ وتدوین فقہ، لغوی واصطلاحی معنی فقہ کے لغوی معنی کسی بات کو جاننے اور سمجھنے کے ہیں، قرآن مجید میں کم سے کم دوموقعوںپر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہواہے (النساء:۷۸۔ ہود:۹۱)اس مناسبت سے احکامِ شرعیہ کے علم کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا، ابتداءً شریعت کے تمام احکام کے جاننے کو فقہ کہا جاتا تھا؛ خواہ عقائد ہوں یااخلاق اورعبادات ہوں یا معاملات، قرآن وحدیث میں بھی اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَارَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"۔ (التوبہ:۱۲۲) اہل ایمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ سبھی کوچ کرجائیں، تو کیوں نہ ان میں سے ایک گروہ نے کوچ کیا تاکہ دین میں تفقہ حاصل کریں… تاکہ وہ بچ جائیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " مَنْ يُرِدْ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔ (بخاری، حدیث نمبر:۶۹) اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بہتری چاہتے ہیں، اس کو دین کا تفقہ عطا فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مفہوم میں اسی وسعت کے لحاظ سے ان الفاظ میں فقہ کی تعریف کی ہے: "ھُوَمَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَہَاوَمَاعَلَیْہَا"۔ (التوضیح:۱/۱۶) انسان کا اپنے حقوق وفرائض کو جاننا فقہ ہے۔ اس تعریف میں اسی لحاظ سے شریعت کے تمام احکام کو فقہ کے دائرہ میں شامل کیا گیا ہے؛ اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عقائد پر جوکتاب تالیف فرمائی ہے یا ان کی طرف منسوب کی گئی ہے اس کا نام الفقہ الاکبر ہے، بلکہ اسی نام سے عقائد پر ایک کتاب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی منسوب ہے لیکن دستیاب نہیں ہے، بعدمیں عقائد کی توضیح اور اخلاقی تربیت نے مستقل فنون کی حیثیت حاصل کرلی؛ چنانچہ عقائد سے متعلق احکام "علم کلام" کہلایا اور اخلاق سے متعلق مباحث کو "تصوف" کا نام دیا گیا، ان دونوں فنون کے ماہرین کوبھی مستقل حیثیت حاصل ہوگئی اور انہیں متکلمین اور صوفیاء کا لقب دیا گیا، اس طرح اب فقہ میں عملی احکام باقی رہ گئے، جو محض اخلاقی حیثیت کے حامل نہیں بلکہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی: "اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْعَمَلِیَّۃِ مِنْ أَدِلَّتِہَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ بِالْاِسْتِدْلَالِ"۔ (التلویح:۱/۱۸) فقہ "عملی شرعی احکام" کو ان کے تفصیلی دلائل سے استدلال کے ذریعہ جاننے کا نام ہے۔ اس تعریف میں جو "عملی شرعی احکام" کی قید ہے اس کے ذریعہ علم کلام اور تصوف کو نکالنا مقصود ہے،کیونکہ اعتقادی اورقلبی احکام دماغ اور ضمیرسے ہوتے ہیں، اعضاء وجوارح کے عمل سے ان کا تعلق نہیں ہوتا، عملی احکام میں عبادات بھی شامل ہیں اورمعاملات بھی اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر، اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے اور تعریف میں جواستدلال کا ذکر ہے اس سے مراد اجتھاد اور غوروفکر ہے۔ تعریف کا حاصل یہ ہواکہ مجتہد کا علم ہی اصل میں فقہ ہے، مقلدین کو اگر احکام اور ان کے دلائل کا علم ہوتو یہ فقہ نہیں ہے؛ اسی لیے متقدمین مجتہدہی کو فقیہ کہا کرتے تھے، بعد کے ادوارمیں مقلدین جو مسائل اور ان کے دلائل کا علم رکھتے ان کو بھی فقیہ کہا جانے لگا اور آج کل یہی تعبیر ومراد مروج ہے، اس لیے قاضی محب اللہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے "الاستدلال" کی قید حذف کردی ہے اور فقہ کی تعریف اس طرح کی ہے: " اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ عَنْ أَدِلَّتِھَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ"۔ (فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۱/۱۳) تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔ "شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کافرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا، اس تفصیل کی روشنی میں فقہ کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے: شرعی حکم جاننے کو فقہ اور جاننے والے کو فقیہ کہتے ہیں۔ فقہ کا موضوع فقہ کا موضوع عاقل وبالغ کا فعل ہے، کیونکہ فقہاء اس سے بحث کرتے ہیں کہ عاقل بالغ پر کون سا فعل فرض ہے، کیا واجب ہے، کیا مستحب ہے اور ان کے لیے کیا کیا چیزیں مباح ہیں، اسی طرح کون سے کام ان کے لیے درست اور صحیح ہیں اور کون سا فعل ان کے لیے نادرست ہے، کون سا حرام اور کون سا مکروہ، اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نابالغ، پاگل اور مخبوط الحواس کا فعل علم فقہ کا موضوع نہیں ہے، باقی بچہ اور پاگل پر کسی ضائع شدہ چیز کا جو ضمان آتا ہے، یا ان کی بیویوں کا ان پر جو نان ونفقہ ضروری ہوتا ہے تو ان کی ادائیگی کے مخاطب فقہ میں ان کے ولی ہوتے ہیں، خود یہ نہیں ہوتے، لہٰذا ان سے متعلق جو مسائل ہوتے ہیں وہ تو بیان کردیئے جاتے ہیں تاکہ ولی ان مسائل پر ان کے تعلق سے عمل کریں، جیسے کوئی جانور کسی کی کوئی چیز نقصان کردے تو ان کے ضمان کے مخاطب ان کے مالک ہوتے ہیں اور جہاںتک بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ابتدائے عمرسے ہی فرائض کے عادی بن جائیں؛ تاکہ آگے چل کر یہ ان کے لیے بوجھ محسوس نہ ہو، مگر نماز پڑھانے کی ذمہ داری تو بہرحال ولی پرہی ہوتی ہے۔ فقہ کی غرض وغایت سعادتِ دارین کا حصول اور شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت کا حاصل ہونا، واقعہ ہے کہ انسان اس علم کی بدولت جہالت کی پستی سے نکل کر علم کی بلندی پر آجاتا ہے اور صحیح عمل صحیح علم کے بغیر مشکل ہے، جب انسان کو صحیح علم حاصل ہوجاتا ہے تو اس پر عمل کرکے دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ فقہ اسلامی کا دائرہ کار فقہ کی تعریف، موضوع اور اس کی غرض وغایت پر غور کیا جائے تو اس کا دائرہ کاربھی واضح انداز سے سامنے آجاتا ہے۔ فقہ دراصل انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے اور درج ذیل شعبہائے حیات کی بابت اس فن کے ذریعہ رہنمائی ملتی ہے۔ عبادات یعنی وہ احکام جو خدا اور بندہ کے براہ راست تعلق پر مبنی ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، اعتکاف اور نذر عبادات میں شامل ہیں اور عبادات سے متعلق احکام خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ہدایت ورہنمائی پر موقوف ہیں؛ اگر شریعت کی رہنمائی نہ ہوتی تو انسان اپنی عقل سے اس کو دریافت نہیں کرپاتا۔ عائلی قانون یعنی دوآدمیوں کے درمیان غیرمالی بنیادپر تعلقات سے متعلق احکام، اس میں نکاح وطلاق، فسخ وتفریق، عدت وثبوت نسب، نفقہ وحضانت، ولایت، میراث، وصیت وغیرہ کے احکام آجاتے ہیں، قدیم فقہاء اس کے لیے مناکحات کا لفظ استعمال کرتے تھے، موجودہ دورمیں اس کو عربی زبان میں احوال شخصیہ اور اردو زبان میں عائلی قانون اور انگریزی میں پرسنل لا کہا جاتا ہے۔ معاملات یعنی دواشخاص کے درمیان مالی معاہدہ پر مبنی تعلقات، اس میں خریدوفروخت، شرکت، رہن وکفالت، ھبہ، عاریت، اجارہ وغیرہ کے احکام شامل ہیں، آجکل اسے اردو میں تجارتی قوانین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مرافعات مرافعات سے مراد عدالتی قوانین ہیں،یعنی قاضی کا تقرر، شہادت ووکالت کے احکام، مقدمات کو ثابت کرنے کا طریقہ وغیرہ۔ دستوری قانون یعنی وہ قوانین جو حکومت اور ملک کے شہریوں کے درمیان حقوق وفرائض کو متعین کرتے ہیں۔ عقوبات جرم وسزا سے متعلق قوانین، اس میں شرعی حدود، قتل وجنایت کی سزاء اور جن جرائم کے بارے میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ہے ان کی بابت سزا کا تعین، جسے فقہ کی اصطلاح میں تعزیر کہتے ہیں، شامل ہیں۔ بین ملکی قانون یعنی دوملکوں اور دوقوموں کے درمیان تعلقات ومعاہدات اور حقوق وفرائض سے متعلق قوانین، ان کو فقہاء اسلام سیَر سے تعبیر کرتے ہیں، قانون کی دنیا میں اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب امام محمدؒ کی کتاب السیر ہے، مستشرقین کو بھی اس حقیقت کااعتراف ہے۔ اس تفصیل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فقہ اسلامی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے اور کس طرح اس نے زندگی کے تمام شعبوں کواپنے اندر سمولیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عہدِنبوی سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے سقوط تک فقہ اسلامی نے ایشیائ، افریقہ اور یوروپ کے قابلِ لحاظ حصہ پر فرمانروائی کی ہے؛ اگر فقہ اسلامی میں ہمہ جہت رہنمائی کی صلاحیت نہیں ہوتی تو ہرگز وہ یہ مقام حاصل نہیں کرپاتی۔ فقہ کی اہمیت مذکورہ تفصیلات سے فقہ کی اہمیت کا بخوبی علم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ خود اللہ تعالیٰ نے دین میں تفقہ حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے: (التوبہ:۱۵) حضورﷺ کا ارشادمبارک گذر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیرکا ارادہ کرتا ہے اسے تفقہ سے سرفراز کرتا ہے (بخاری، حدیث نمبر:۶۹)، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس سے تمام لوگوں پر علماء کی فضیلت اورتمام علوم سے تفقہ فی الدین کا افضل ہونا ظاہر ہوتا ہے (فتح الباری، حدیث نمبر:۶۹) اس لیے سلف صالحین کے یہاں حفظِ حدیث کے مقابلہ تفقہ یعنی فہمِ حدیث کی اہمیت زیادہ تھی اور وہ فقہاء کے مرتبہ شناس تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: "وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی، حدیث نمبر:۹۱۱) فقہاء نے یہی کہا ہے اور وہ معانی حدیث سے زیادہ واقف ہیں۔ امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث نے ایک موقع پر فرمایا کہ: اے جماعت فقہاء! تم طبیب ہو اور ہم محض عطار، "یَامَعْشَرَ الْفُقَہَاءِ اَنْتُمْ الْأطِبَّاءُ وَنَحْنُ الصَّیَادَلَۃُ" (الفقیہ والمتفقہ:۲/۳۹۰) اس لیے محدثین فقیہ راویوں کی روایت کو قابلِ ترجیح سمجھتے تھے، امام اعمشؒ کہتے تھے کہ جس حدیث کو فقہاء نقل کرتے ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے راوی صرف محدث ہوں "حَدِیْثٌ یَتَدَاوَلُہٗ الْفُقَہَاءُ خَیْرٌمِنْ حَدِیْثٍ یَتَدَاوَلُہٗ الشُّیُوْخُ" (تدریب الراوی:۱/۷) اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ حلال وحرام کا علم فقہاء سے حاصل کرنا چاہئے، "فَإِنَّ عِلْمَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ إِنَّمَا یَتَلَقّٰی مِنَ الْفُقَہَاءِ" (فتح الباری، حدیث نمبر:۴۶۰۸) علامہ ابنِ تیمیہؒ جو فقہ وحدیث دونوں کے رمزشناس ہیں، امام احمدؒ سے نقل کرتے ہیں: حدیث میں تفقہ میرے نزدیک حفظِ حدیث سے زیادہ محبوب ہے اورعلی بن مدینی فرماتے ہیں کہ: متون احادیث میں تفقہ پیدا کرنا اور راویوں کے احوال کو جاننا سب سے اشرف علم ہے (منہاج السنۃ:۴/۱۱۵) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ: قرآن وحدیث کے بعد اسلام کا مدار فقہ پر ہے۔ (قرۃ العینین:۱۷۱) فقہ اسلامی کے مصادر چونکہ اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہے؛ البتہ بعض احکام کی نسبت صراحتاً اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے اور بعض احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہونے والے اصول وقواعد کی روشنی میں اہلِ علم نے استنباط کیے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جاسکتی ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے؛ اگر قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہوتو اس میں غلطی کا احتمال نہیں اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں؛ کیونکہ اس میں انسانی اجتھاد کو دخل ہے اور انسان کی سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے، اس طرح فقہ اسلامی کے مصادر کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)نصوص (۲)اجتہاد کے دوسرے مسائل۔ منصوص مصادر فقہ اسلامی کے منصوص مصادر چار ہیں: (۱)کتاب اللہ (۲)سنت رسول اللہ (۳)شرائع ماقبل (۴)جن مسائل میں اجتھاد کی گنجائش نہ ہو ان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار۔ کتاب اللہ کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے، جو بے کم وکاست محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا، قرآن مجید میں فقہی احکام سے متعلق آیات کی تعداد لوگوں نے دوڈھائی سوسے لیکر پانچ سو تک لکھی ہے، پانچ سو کی تعداد اس لحاظ سے ہوسکتی ہے کہ قرآن سے ثابت ہونے والے صریح احکام کے علاوہ اصولی احکام کوبھی شامل کرلیا جائے، ملاجیون نے تفسیرات احمدیہ میں اسی اصول پر آیات کا انتخاب کیا ہے، جن کی تعداد ۴۶۲/ ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نیل المرام میں آیات احکام کے استیعاب کی کوشش کی ہے، جن کی تعداد ۲۴۸/ ہوتی ہے، قرآن میں آیات احکام عبادات سے متعلق بھی ہیں اور معاملات سے بھی، نیز دیگر شعبۂ حیات سے بھی، شیخ عبدالوہاب خلاف نے عبادات کے علاوہ دوسرے مسائل سے متعلق آیات کی تعداد اس طرح لکھی ہے: عائلی قوانین (۷۰) قانون شہریت (۷۰) احکام جرم وسزا (۳۰۱) عدالتی قوانین (۱۳) دستوری قوانین (۱۰) اقتصادی قوانین (۱۰) قومی وبین قومی قوانین (۲۵) (علم اصول الفقہ للخلاف، صفحہ نمبر:۳۲،۳۱) فقہی احکام کی اہمیت اور عملی زندگی سے اس کے تعلق کی وجہ سے بہت سے اہل علم نے آیات احکام کی تفسیر کا اہتمام کیا ہے، ان میں اہم کتابیں اس طرح ہیں: احکام القرآن : امام ابوبکر حصاص رازی،متوفی:۳۷۰ھ احکام القرآن : ابوبکر احمد بیہقی،متوفی:۴۵۸ھ یہ دراصل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی افادات ہیں جس کوعلامہ بیہقی نے یکجا اور مرتب کیا ہے۔ احکام القرآن :ابوبکر محمد بن عربی،متوفی:۵۴۳ ھ تفسیرات احمدیہ: ملااحمد جیون، متوفی:۱۱۳۰ ھ نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام:نواب صدیق حسن خان، متوفی:۱۳۰۷ ھ احکام القرآن: مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا ادریس کاندھلوی اور مفتی شفیع صاحب عثمانی کی مشترکہ کوششوں سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرنگرانی مرتب ہوا ہے، جو اپنے موضوع پر بہت مفصل اور جامع مجموعہ ہے۔ روائع البیان فی تفسیر آیات الاحکام من القرآن :شیخ محمدعلی صابونی تفسیر آیات الاحکام: محمدعلی السائس، عبداللطیف السبکی، محمد ابراہیم محمد کرشون ان کے علاوہ علامہ ابوعبداللہ محمد قرطبی متوفی:۶۷۰ھ کی الجامع لاحکام القرآن اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی متوفی:۱۲۲۵ ھ کی التفسیر المظہری اگرچہ پورے قرآن کی تفسیر ہے، لیکن اس پر فقہی رنگ غالب ہے اور قرآن کے فقہی احکام پر بہت شرح وبسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ سنت رسول احکامِ شرعیہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے، سنت رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپﷺ کا عمل نیز وہ قول وفعل ہے جو آپ کے سامنے آیاہو اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ہو، سنت کے حجت ہونے پر امت کا اجماع واتفاق ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں کثرت سے مستقل طورپر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا گیا کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، "مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ"(النساء: ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے: "وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوْا"۔ (الحشر:۷) رسول جوکچھ لائے اسے قبول کرو اور جس سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔ نیز سنت رسول اصل میں قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح ہے؛ اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں تین طرح کی ہیں، یاتو قرآن میں جو حکم ہے وہی سنت رسول میں بھی ہے، یاقرآن میں کوئی حکم مجمل ہے اور سنت نے اس کو واضح کردیا ہے، یا قرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور سنت کے ذریعہ اس صورت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ (الرسالہ:۹۱،۹۲، باب ماابان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع اوحی اللہ) لیکن غور کیا جائے تو یہ صورت بھی قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں کے دائرہ میں آتی ہے، گویا قرآن نے ایک اصول بیان کردیا اور سنت کے ذریعہ اس کی تطبیق اور عملی صورتگری سامنے آگئی؛ اس لیے امام اوزاعی نے فرمایا کہ بیان وضاحت اور فہم مراد کے اعتبار سے قرآن کو حدیث کی حاجت زیادہ ہے، بمقابلہ اس حاجت کے جو حدیث کو قرآن کی ہے۔ "اَلْکِتَابُ أَحْوَجُ اِلٰی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ إِلٰی الْکِتَابِ"۔ (شرح السنۃ، للحسن بربہاری:۱/۳۵) حقیقت یہ ہے کہ فقہی اعتبارسے احادیث کی بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید ایک دستوری کتاب ہے، جس میں اصولی احکام دیئے گئے ہیں اور دین کے حدودِاربعہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حدیث کے ذریعہ ان قرآنی احکام کی عملی تصویر سامنے آجاتی ہے اوراس طرح اہل ہوس کے لیے قرآن کے معنوں میں الٹ پھیر، تحریف اور من چاہی تاویل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جہاں حفاظ اورقاریوں کے ذریعہ الفاظِ قرآن کی حفاظت کا غیبی انتظام ہواہے، وہیں معنوی تحریف اور آمیزش سے حفاظت کا سروسامان حدیث کے ذریعہ انجام پایا ہے، اس طرح احادیث قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ جو احادیث احکامِ فقہیہ سے متعلق ہیں ان کی تعداد تقریباً سات آٹھ ہزار ہے، کتبِ احادیث میں چونکہ مختلف سندوں سے آنے والی روایتوں کو مختلف حدیث شمار کرلیا جاتا ہے اس لیے ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن مکررات کو چھوڑکر اصل مضمون اور متن کے اعتبارسے احادیثِ احکام کی تعداد سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی، جن مصنفین نے ایسی حدیثوں کے جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے ان میں ہمارے علم کے مطابق مولانا ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اعلاء السنن سب سے زیادہ جامع ہے، انہوں نے مولانا تھانویؒ کی سرپرستی میں یہ کام انجام دیا اور احادیث احکام کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیا ہے، اس میں احادیث وآثار کی مجموعی تعداد چھ ہزار ایک سو بارہ ہے؛ جبکہ دوسری کتابیں جو اس موضوع پرہیں ان میں اس سے بہت کم تعداد ہیں: "وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ"۔ (یوسف:۷۶) احادیثِ احکام سے متعلق کتابیں اسی طرح کی ہیں، ایک وہ جس میں مختلف مضامین کی احادیث ہیں؛ لیکن احادیثِ احکام کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں شامل ہے، چاہے اس کی ترتیب فقہی ہو یا نہ ہو، فقہی ترتیب پر جو کتابیں ہوں ان کو سنن کہا جاتا ہے؛ ایسی کتابیں جوسنن نہیں ہیں؛ لیکن ان میں احکام سے متعلق حدیثیں بکثرت ہیں وہ بہت ہیں؛ لیکن ان میں مشہور اور اہم کتابیں یہ ہیں: بخاری شریف : امام محمد بن اسماعیل متوفی:۲۵۶ ھ مسند ابوداؤد : طیالسی امام سلیمان بن داؤد طیالسی متوفی:۲۰۴ ھ مسلم شریف : امام مسلم بن حجاج نیشاپوری متوفی:۲۶۱ ھ المعجم الکبیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ صحیح ابن خزیمہ : امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ متوفی:۳۱۱ ھ المعجم الاوسط : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ مسندامام احمد بن حنبل : امام احمد بن محمد بن حنبل متوفی:۲۴۱ ھ المعجم الصغیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ مسندبزار : امام ابوبکر احمد بن عمروبن بزار متوفی:۲۹۲ ھ مستدرک حاکم : امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی:۴۰۵ ھ جوکتب احادیث فقہی ترتیب پر جمع کی گئی ہیں، ان میں سے اہم کتابیں یہ ہیں: موطا امام مالک : امام مالک بن انس متوفی:۱۷۹ ھ موطا امام محمد : امام محمد بن حسن شیبانی متوفی:۱۸۹ ھ کتاب الآثار : امام یعقوب ابو یوسف متوفی:۱۸۲ ھ کتاب الآثار : امام محمد بن حسن شیبانی متوفی:۱۸۹ ھ مصنف ابن ابی شیبہ : ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ کوفی متوفی:۲۳۵ ھ مصنف عبدالرزاق : ابوبکر عبدالرزاق صنعانی متوفی:۲۱۱ ھ سنن ترمذی : امام محمد بن عیسی بن سورہ ترمذی متوفی:۲۷۹ ھ سنن ابوداؤد : ابوداؤد سلیمان سجستانی متوفی:۲۷۵ ھ سنن نسائی : ابوعبدالرحمن احمد بن علی نسائی متوفی:۲۱۵ ھ سنن دارمی : امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی متوفی:۲۵۵ ھ سنن ابن ماجہ : امام محمد بن زید بن ماجہ قزوینی متوفی:۲۷۳ ھ سنن دارقطنی : علی بن عمردار قطنی متوفی:۲۸۵ ھ سنن بیہقی : حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی:۴۵۸ ھ کچھ کتابیں وہ ہیں جن کے مصنفین نے کتب احادیث کی روایات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ آگیا ہے؛ اس سلسلہ میں درج ذیل کتابیں خاص طورسے قابل ذکر ہیں: جامع الاصول من احادیث الرسول: یہ کتاب علامہ ابن اثیر کی ہے، جس میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور مؤطا امام مالک کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: یہ حافظ علی بن ابی بکر ہیتمی کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے مسنداحمد، مسند ابویعلی موصلی، مسندبزار اور طبرانی کی تینوں معاجم کی ان زائد احادیث کو جمع کیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں اور ضعیف احادیث کے درجہ اور مقام کو واضح کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے، اس طرح اس میں احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔ الجامع الصغیر من احادیث البشیرالنذیر: یہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے (۱۰۱۳۱) حدیثیں سند کو حذف کرکے حروفِ تہجی کی ترتیب سے جمع کی ہیں اور ہرحدیث پر حدیث کے درجہ کی طرف رمزیہ الفاظ کے ذریعہ اشارہ بھی کیا ہے، پھر جو حدیثیں اس میں باقی رہ گئیں ان کو الفتح الکبیر کے نام سے جمع فرمایا، البتہ اس میں درجہ کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے، واقعہ ہے کہ ہرطرح کی حدیثوں کا یہ بہت بڑا ذخیرہ ہے؛ پھراس کی بنیادپر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الکبیر مرتب کی، جس میں قولی احادیث کی ترتیب حروفِ تہجی پر ہے اور فعلی احادیث کی ترتیب صحابہ کے نام پر ہے۔ جمع الفوائد بن جامع الاصول ومجمع الزوائد: یہ محمد بن سلیمان مغربی کی تالیف ہے، جنہوں نے علامہ ابن اثیر کی جامع الاصول اورعلامہ ہیتمی کی مجمع الزوائد کی احادیث کو جمع کرنے کے علاوہ سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی کی ان زائد احادیث کوبھی شامل کرلیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں، اس کتاب میں حدیث کی چودہ اہم کتابوں کی احادیث یکجا ہوگئی ہیں اور اس طرح یہ کتاب احادیثِ نبوی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا بن گئی ہے۔ کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال: یہ علامہ علاء الدین علی متقی ہندی کی تالیف ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پورے ذخیرۂ احادیث کو موضوعات کی ترتیب پر مرتب فرمایا ہے، یہ کتاب اس وقت احادیث کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو ۴۶۶۲۴/ احادیث وآثارپرمشتمل ہے۔ بعدکے اہلِ علم نے کتب احادیث سے سندکو حذف کرکے صرف احادیث احکام کو جمع کرنے کی سعی کی ہے، اس سلسلے میں درج ذیل کتب اہم ہیں: الاحکام : عبدالغنی مقدسی عمدۃ الاحکام من سیدالانام : عبدالغنی مقدسی الالمام لاحاد یث الاحکام : ابن دقیق العبد المنتقی فی الاحکام : عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام : حافظ ابن حجر عسقلانی آثارالسنن : علامہ ظہیراحسن شوق نیمومی اعلاء السنن : مولانا ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے علاوہ احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ ان کتابوں میں بھی آگیا ہے جن میں کسی فقہی کتاب کی مرویات کی تخریج کی گئی ہے، اس سلسلہ میں یہ کتابیں نہایت اہم اور احادیث احکام سے متعلق فنی مباحث کی جامع ہیں: "نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ، الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ، التلخیص الحبیر، البدرالمنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر"۔ احادیث احکام کے سلسلے میں دو اور خدمتیں قابل ذکر ہیں: ایک وہ جو مسنداحمد بن حنبل پر کی گئی ہے، مسنداحمد بن حنبل ۲۷۶۳۴/احادیث پر مشتمل ہے، جو زیادہ تر صحیح اور حسن کے درجہ کی ہیں؛ مگر چونکہ اس کی ترتیب صحابہ کے ناموںپر ہے، اس لیے اس سے احادیثِ احکام کا نکالنا بہت دشوار کام تھا، علامہ احمد بن عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی کے نام سے اس کتاب کی مرویات کو فقہی ترتیب پر جمع کیا ہے اور اس کی نہایت عمدہ اور بصیرت افروز شرح بھی کی ہے، اس خدمت نے اہلِ علم کے لیے مسنداحمد سے استفادہ کو آسان کردیا ہے، حدیث کی اہم خدمات میں ایک صحیح ابن حبان بھی ہے، جو کتبِ حدیث کی عام ترتیب سے مختلف ہے، اس لیے اس سے استفادہ دشوار تھا؛ چنانچہ کمال یوسف الحوت نے "الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان" کے نام سے موضوع وار احادیث کو مرتب کیا ہے اور اس طرح فقہی موضوعات پربھی اس کتاب سے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ احکامِ شرعیہ میں عبادات اور حدود کا غالب ترین حصہ احادیث ہی پر مبنی ہے، اس لیے فقہ اسلامی کے مصادر میں حدیث کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں محدثین نے جو سعی بے پایاں کی ہے، مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی "فَجَزَاھُمُ اللہُ خَیْرالْجَزَاء" مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "حدیث کی تشریعی حیثیت" "حدیث رسول اور فقہ اسلامی" اور"ضعیفِ حدیث اور قوت استدلال"۔ آثارِصحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو براہ راست حضرات صحابہ نے حاصل کیا ہے اور انہی کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے، صحابہ سب کے سب عادل، معتبر، خداترس اور مخلص تھے؛ لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے، بعض مسائل تو ایسے ہیں جن میں رائے اور اجتھاد کی گنجائش ہے اور بعض مسائل وہ ہیں جسے کوئی شخص اپنے اجتھاد سے اخذ نہیں کرسکتا، بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن وحدیث ہی پرہوگی، اس دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ کی رائے احناف ومالکیہ کے نزدیک حجت اور دلیل ہے، اس لیے کہ ان کی رائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کسی بات پرہی مبنی ہوگی، گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے، آثارصحابہ کے نقل کرنے کا زیادہ اہتمام مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق میں کیا گیا ہے اور موجودہ دورمیں اس سلسلہ کی بہت قابلِ قدر خدمت ابوعبداللہ سید بن کسروری نے کی ہے کہ انہوں نے اپنے علم ودانست کے مطابق تمام آثارصحابہ کو "موسوعہ آثارالصحابہ" کے نام سے تین جلدوں میں جمع کردیا ہے، جس میں ۹۱۹۵ آثار ہیں، آثارصحابہ حدیث ہی میں داخل ہیں، آثارصحابہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "فقہ اسلامی میں اقوال صحابہ کا مقام"۔ شرائع ماقبل تمام پیغمبروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے وہ ایک ہی دین ہے، اعتقادی اور اخلاقی احکام میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے اور اگر عقیدہ واخلاق کی ہدایت میں کوئی فرق پایا جاتا ہوتو یقینی طورپر یہ انسانی تحریفات اور آمیزش کا نتیجہ ہے؛ البتہ "عملی زندگی" کے احکام جو فقہ کا اصل موضوع ہے، مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں؛ کیونکہ انسانی تمدن کے مرحلہ بہ مرحلہ ارتقاء کا تقاضہ یہی تھا، پہلی قسم کے احکام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیْسٰی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ"۔ (الشوریٰ: ۱۳) اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم وموسی (علیہمالسلام) کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ اور دوسری قسم کے احکام کے بارے میں ارشاد ہے: "لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا"۔ (المائدہ:۴۸) تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک (خاص) شریعت اور راہ رکھی ہے۔ اس پس منظرمیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی، اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام آئے ہیں وہ چار طرح کے ہیں، اول وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں، دوسرے وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لیے تھا، اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہوچکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا، تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لیے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا، چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن وحدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دونظریہ ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس امت کے لیے بھی یہ حکم باقی ہے، احناف اسی کے قائل ہیں اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی نہیں (الاحکام للآمدی) لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ کیونکہ عملاً شایدہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہاہو، شرائع ماقبل جو منسوخ نہیں ہوئی ہیں وہ کتاب اللہ میں داخل ہیں، شرائع ماقبل کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "فقہ اسلامی میں سابقہ شریعت کا مقام"۔ غیرمنصوص مصادر اجماع جن شرعی دلائل کا ماخذ انسانی اجتھادہے ان میں سب سے قوی اجماع ہے‘ اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہوجانا کیونکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی؛ گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتھاد میں تو خطا کا احتمال ہے، لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ معصوم ہیں اور کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔ اجماعی احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن کی بنیاد احادیث پرہے، یعنی ایک حکم خبرواحد سے ثابت ہوا اور بعدکو تمام فقہاء اس پر متفق ہوگئے، اس طرح اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا اور اجماع کی وجہ سے اس حکم نے قطعی اور یقینی حکم کا درجہ حاصل کرلیا اور کچھ احکام وہ ہیں جن کی بنیاد قیاس ومصلحت پرہے اور اس میں اجتھاد اور ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے، اس طرح کے احکام میں زیادہ تر اجماع کاانعقاد عہدِصحابہ میں ہواہے، کیونکہ اس عہدمیں تمام مجتہدین کی آراء سے واقف ہونا آسان تھا، خاص کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے اجتماعی غوروفکر اور شورائی اجتھاد کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا، اس لیے ان کے عہدمیں نسبتاً زیادہ اجماع منعقد ہوئے۔ اجماعی احکام پر اہم تالیف علامہ ابن منذر متوفی:۳۱۸ ھ کی "کتاب الاجماع" ہے، جس میں ۷۶۵ اجماعی مسائل کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں ایک اہم خدمت اس دورمیں سعدی ابوحبیب نے کی ہے اور "موسوعۃ الاجماع" کے نام سے تمام اجماعی احکام کا احاطہ کرنے کی سعی کی ہے، اس کتاب میں ۱۳۰۴ اجماعی مسائل ذکر کئے گئے ہیں، یہ کتابیں ان معترضین کی تردید کرتی ہیں جن کے نزدیک اجماع کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عملاً اجماعی مسائل کا وجود نہیں، اجماع کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "اجماع امت، فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ"۔ قیاس غیرمنصوص مصادرمیں سے ایک قیاس بھی ہے، قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں، کسی مسئلہ کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی صراحت موجود نہ ہو؛ لیکن قرآن وحدیث میں اس سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ موجودہو اور اس مسئلہ میں اللہ اوررسول کے حکم کی جو وجہ ہوسکتی ہو وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہو؛ چنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگادیا جائے، اس کو قیاس کہتے ہیں، غور کیا جائے تو قیاس قرآن وحدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں ہے؛ بلکہ قیاس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے حکم کے دائرہ کو وسیع کیا جاتا ہے۔ جن مسائل کی بابت نص موجودنہ ہو ان میں قیاس پر عمل کیا جائے گا، یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے، شرعی دلیلوں میں قیاس کوچوتھے درجہ پر رکھا گیا ہے؛ لیکن حدیث وقیاس یہ دونوں ایسے مصادر ہیں جن سے بیشتر فقہی احکام متعلق ہیں اور معاملات کے احکام کی بنیاد تو بڑی حدتک قیاس ہی پرہے؛ اس لحاظ سے یہ نہایت اہم ماخذ ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "قیاس، حقیقت وضرورت"۔ دوسرے دلائل ان دونوں کے علاوہ کچھ اور غیرمنصوص مصادرہیں جن سے وقتاً فوقتاً فقہ اسلامی میں مدد لی جاتی ہے، مثلاً: استحسان نص، اجماع، ضرورت ومصلحت، عرف وعادت اور غیرظاہر لیکن نسبتاً قوی قیاس کے مقابلہ میں ظاہری قیاس کو چھوڑدینے کا نام استحسان ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "استحسان" اور "فقہ اسلامی"۔ مصالح مرسلہ کتاب وسنت میں جن مصلحتوں کے معتبر ہونے کی صراحت ہے اور نہ نامعتبر ہونے کی، ان کو مصالح مرسلہ کہتے ہیں؛ اگر یہ شریعت کے مزاج اور عمومی ہدایات سے ہم آہنگ ہوں تو معتبر ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "مصالح مرسلہ اور فقہ اسلامی"۔ استصحاب گذشتہ زمانہ میں کسی امرکے ثابت ہونے کی وجہ سے موجودہ یا آئندہ میں بھی اس کو موجودہی مانا جائے تو اس کو اصطلاح میں استصحاب کہتے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے "استصحاب اور فقہ اسلامی"۔ عرف لوگ زندگی کے امور اور معاملات میں جس قول، فعل یا ترک فعل کے عادی ہوگئے ہوں ان کو عرف وعادت کہتے ہیں، عرف کا بدلے ہوئے حالات کے پس منظرمیں احکام کی تبدیلی سے گہرا تعلق ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: "عرف وعادت اور فقہ اسلامی"۔ ذریعہ ذریعہ کے معنی وسیلہ کے ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی امر کسی واجب یا مستحب کا ذریعہ بنتاہو تو وہ ذریعہ مطلوب ہوگا اور اس کو فتح ذریعہ کہتے ہیں اور حرام ومکروہ کا ذریعہ بنتاہو تو وہ مذموم ہوگا، اس کو سدِذریعہ کہتے ہیں، پھر جو جس درجہ کا ذریعہ ہوگا اس نسبت سے اس کا حکم ہوگا، تفصیل کے لیے دیکھئے "سدذرائع اور فقہ اسلامی"۔ فقہ اسلامی کا امتیاز جامعیت وہمہ گیری فقہ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خودساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں جامعیت وہمہ گیری پائی جاتی ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات کو پوری طرح حاوی ہے اور ان کی زندگی اور زندگی کے ہرحال کے متعلق مرتب وجامع نظام پیش کرتی ہے، جو انسان کی شخصی زندگی، عائلی زندگی، قبائلی وشہری زندگی اور ظاہری وروحانی زندگی کے ہرپہلو سے اس کی رہبری کرتی ہے، وہ صرف اجتماعی وسیاسی زندگی ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ وہ انسان کی انفرادی وشخصی زندگی کے اصول بھی سکھاتی ہے، معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرض یہ کہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو فقہ اسلامی اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔ عقل وحکمت سے مطابقت فقہ اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں معقولیت بھی پائی جاتی ہے، علماء، محققین نے اپنی اپنی تصانیف میں پورے شرح وبسط کے ساتھ اس کی معقولیت پر گفتگو فرمائی ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے اس پہلوپر سیرحاصل بحث کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور مصلحتوں کے عین مطابق ہیں؛ حتی کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شریعت تمام تر مصلحت ہی سے عبارت ہے اور ہرحکمِ شرعی کا مقصد یاتو کسی مصلحت کوپاناہے یاکسی نقصان اور مفسدہ کا ازالہ ہے: "اِنَّ الشَّرِیْعَۃَ کُلَّہَا مَصَالِحٌ اِمَّادَرْأُ مَفَاسِدٍ اَوْجَلْبُ مَصَالِحٍ"۔ (قواعد الاحکام لعزالدین بن عبدالسلام:۱/۹) اس کے برخلاف انسان کی عقل کوتاہ ونارساہے اور خود اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے سے بھی قاصر وعاجز ہے، دوسرے انسان بعض اوقات خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ کسی بات کو نقصان جانتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیتا ہے، اس کی واضح مثال شراب ہے، شراب انسان کے لیے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کردینے والی چیز ہے، اس پر اتفاق ہے، لیکن آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیرسایہ زندگی بسرکررہے ہیں شراب کی اجازت ہے، غیرقانونی جنسی تعلق اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کے لیے نہایت مہلک فعل ہے اور نہ صرف اخلاق کے لیے تباہ کن ہے بلکہ طبی نقطۂ نظرسے بھی سماج کے لیے زہرہلاہل سے کم نہیں ہے، اس کے باوجود عوامی دباؤ اور آوارہ خیال لوگوں کی کثرت سے مجبورہوکر بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ان خلافِ فطرت امور کی بھی اجازت دے دی گئی ہے، فقہ اسلامی کہیں بھی عقل اور حکمت ومصلحت سے برسرِپیکار نظر نہیں آتی اور اس کا ایک ایک حکم انسانی مفادومصلحت پر مبنی ہے۔ ابدیت ودوام کسی بھی قانون کے مفید اور فعال رہنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس میں حالات ومواقع کے لحاظ سے تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش رہے وہیں ایک گونہ ثبات ودوام اور بقاء واستمرار بھی ضروری ہے، جو قانون بالکل بے لچک اور تغیرناآشناہو وہ زمانہ کی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اور جس قانون میں کوئی بقاء واستحکام نہ ہو وہ انصاف قائم کرنے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے ہراصول میں شکست وریخت کی گنجائش ہوگی اور کسی بھی قانون کو لوگ اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال سکیں گے۔ اسلام میں ان دونوں پہلوؤں کی رعایت ملحوظ ہے، کچھ احکام وہ ہیں جن کی بابت اصول وقواعد اور شریعت کے مقاصد کی وضاحت پر اکتفاء کیا گیا ہے، ہرعہدمیں جو مسائل پیداہوں ان کو ان اصولوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا اور بعض مسائل میں شریعت نے جزوی تفصیلات کو بغیرکسی استثناء اور تخصیص کے متعین کردیا ہے، یہ تحدید اس بات کی علامت ہے کہ یہ قیامت تک قابلِ عمل ہے، اس طرح شریعت میں جو اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور جن قواعد ومقاصد کی رہنمائی کی گئی ہے وہ ناقابلِ تبدیل ہیں، اس لیے قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ قرآنی ہدایات کے ذریعہ دین پا یۂ کمال کو پہنچ گیا ہے (المائدہ:۳) اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کو ختم کردیا گیا ہے (الاحزاب:۴۰) لہٰذا اب خالقِ کائنات کی طرف سے کسی نئی شریعت کے آنے کا امکان باقی نہیں رہا، اب یہ انسانی سماج کے لیے ایسا موزوں قانون ہے کہ قیامت تک اس کی موزونیت اور اس کی افادیت کم نہیں ہوسکتی، کیونکہ فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصطلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں جو ہرآن وزمان تغیر وتبدیلی سے دوچار ہیں۔ فطرت انسانی سے ہم آہنگی اللہ خود انسان کا خالق ہے اور اس کی ضروریات وتقاضے سے بھی پوری طرح واقف ہے؛ اس لیے اس نے جو شریعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے انسانیت کو عطاکی وہ پوری طرح فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے قرآن نے اسلام کو دینِ فطرت سے تعبیر کیا ہے۔ (الروم:۳۰) فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بناہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں جلدبازی، زودرنجی اور بعجلت قدم اٹھانے کا مزاج رکھا ہے، اس لیے اسلام نے طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں نہیں رکھا، بلکہ مردکو طلاق کا اختیار دیا؛ لیکن مغرب نے مردوعورت کومساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کے معاملہ میں بھی دونوں کو یکساں حیثیت دے دی، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ طلاق کی شرح اس معاشرہ میں بہت بڑھ گئی؛ حتی کہ بہت سے ملکوں میں نکاح کے مقابلہ میں طلاق کی شرح بڑھی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خاندانی نظام بکھرکر رہ گیا ہے؛ اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ سخت اور مناسب سزائیں ہی انسان کو جرم سے باز رکھ سکتی ہیں اور مجرم کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل مظلوم کے ساتھ ناانصافی اور سماج کو امن سے محروم کردینے کے مترادف ہے؛ اس لیے اسلام میں قتل کی سزا قتل رکھی گئی ہے اور بعض دیگر جرائم میں بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں؛ لیکن بعض ممالک میں ہمدردی وانسانیت کے نام پر مجرم کو سہولتیں دی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ جرائم پر جسارت روز مرہ بڑھتی جارہی ہے اور جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ جرائم کے سدباب کے لیے ناکافی ہیں، اس کے برخلاف شریعتِ اسلامی کے جس حکم کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ اس میں قانونِ فطرت کی مطابقت غیرمعمولی حدتک پائی جاتی ہے، جبکہ انسان کے خودساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور خواہشات کے غلبہ کا رجحان ہرجگہ نمایاں ہے۔ توازن واعتدال شریعتِ اسلامی کا ایک وصف اس کا توازن واعتدال بھی ہے، مثلاً مردوعورت انسانی سماج کے دولازمی جزہیں، دنیامیں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دے دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہوسکتی تھی، نہ ہی تصرف کرسکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیارتھا، نہ اپنی جان پر، یہاں تک کہ اہلِ علم کے درمیان بحث جاری تھی کہ عورتوں میں انسانی روح پائی جاتی ہے یا حیوانی؟ اس کے بالمقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قراردے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، اس کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات وعوارض اور طبیعت ومزاج اور قوتِ فیصلہ پر ان کے اثرات کونظرانداز کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بظاہرتو اسے عورت کی حمایت سمجھاگیا لیکن انجام کار اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی انارکی، ناقابلِ علاج امراض اور خود عورتوں کو ناقابلِ تحمل ذمہ داریوں میں جکڑدیا۔ اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوںکو مساوی درجہ دیا گیا ہے "وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ" (البقرہ:۲۲۸) لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قوی اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوںپر اور کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوںپر رکھی گئی ہے، سماجی زندگی کا یہ نہایت زریں اصول ہے، جس میں خاندانی نظام کا بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو ناقابلِ برداشت مصائب سے بچانا ہے۔ دولت مندوں اور غریبوں، آجروں اور مزدوروں، عوام اور حکومت کے تعلقات اور مجرموں اور جرم سے متاثر مظلوموں کے درمیان انصاف وغیرہ احکام کو اگر حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو قانونِ شریعت میں جو اعتدال نظر آئے گا گذشتہ اور موجودہ ادوارمیں انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ عدل وانصاف شریعتِ اسلامی کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، دین کی بنیادہی دراصل عدل پرہے (النحل:۹۰) اس لیے اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ وخاندان کی بنیادپر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ"۔ (الحجرات:۱۳) اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مردوعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سب سے زیادہ معززاللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والا ہو۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح فرمایا: کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۳۹۱) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پرہے، برخلاف انسانی قوانین کے، انسانوں نے جوبھی قوانین وضع کئے ہیں وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے، لیکن اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جس کی بنیاد انسانی وحدت مساوات اور ہرطبقہ کے ساتھ ایسے انصاف پر مبنی ہے جوکسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ حقیقی نافعیت شریعتِ اسلامی حقیقی نافعیت اورمال وانجام کی سعادت پر مبنی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحت انسانی کے لیے مضرہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑہے، عصمت وعفت کے مذہبی تصورکے خلاف برہنگی ہے جواخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے اور امن وسکون کی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوںپر نظررکھی اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابلِ تبدیل ہے، مگر وضعی قوانین ان تمام نقصانات کو تسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز ہے۔ تنفیذ کی قوت کسی بھی قانون کا نفاذ دوطریقوں سے ہوتا ہے، ایک تو سماج کے اندر قبولِ اطاعت کا جذبہ پیدا کرکے اور دوسرے قانون کے خلاف کرنے والوں کے لیے جبروقوت کا استعمال کرکے، کچھ طبیعتیں سلامتی اور شرافت کی حامل ہوتی ہیں، ان میں ازخود قانون پر عمل کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے؛ لیکن جن طبیعتوں میں سرکشی اور بغاوت ہوتی ہے یا جو خواہشات سے مغلوب ہوتی ہیں وہ جبروخوف کے بغیر سرِتسلیم خم نہیں کرتیں، انسانی قوانین میں عدالت اور پولیس اور دونوں شعبوں کے ذریعے سزاؤں کا خوف ہی انسان کو جرم سے باز رکھتا ہے، جبکہ شریعتِ اسلامی میں اس سے آگے ایک اور عقیدہ"آخرت کے ثواب وعذاب" کاہے؛ اس لیے قرآن وحدیث میں ہرحکم کے ساتھ اس کے ماننے پر آخرت کا اجر اور نہ ماننے پر آخرت کی سزا کا ذکر موجودہے، یہ ایسا انقلاب انگیز عقیدہ ہے جو طاقتورسے طاقتور انسان کے دل کو ہلاکر رکھ دیتا ہے اور بڑے بڑے مجرموں کو قانون کے سامنے سپرانداز ہونے پر مجبور کرتا ہے، جب کوئی آنکھ دیکھنے والی اور کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ہوتی اس وقت بھی یہ عقیدہ اس کے ہاتھوں کے لیے ہتھکڑی اوراس کے پاؤں کے لیے زنجیر بن جاتا ہے۔ مسلم سماج میں اس گئے گذرے دورمیں بھی اس کی مثالیں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، مثلاً یہی منشیات کا مسئلہ ہے، آج پوری دنیا اس سے دوچار ہے اور اس کے نقصانات تسلیم شدہ ہیں، امریکہ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے ۱۹۳۰ء میں نشہ بندی کا ایک قانون بنایا اورشراب کی مضرتوں کو واضح کرنے کے لیے صرف تشہیرپر ۶۵/ ملین ڈالر خرچ کئے، نوہزار ملین صفحات شراب کے نقصانات پر لکھے گئے، ۲۰۰/آدمی قتل کئے گئے، ۵۰/لاکھ کو قیدکی سزا دی گئی، ان لوگوںپر جو جرمانے کئے گئے وہ بے شمار ہیں؛ لیکن اس کے باوجود طاقت سے قانون کو منوایا نہیں جاسکا اور سنہ۱۹۳۳ء میں امریکی حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس قانون کو واپس لے لے؛ لیکن قرآن مجید نے جب شراب کو حرام قراردیا توعرب اس کے بے حد عادی تھے، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے ان کی مذہبی تقریبات بھی شراب سے خالی نہیں ہوتی تھیں، لیکن شراب کی حرمت کا حکم آتے ہی لوگوں نے اپنا سرجھکادیا اور مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں شراب بہنے لگی، آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جہالت وغفلت کے باوجود مسلمان سماج میں شراب سے جو احتیاط برتی جاتی ہے شایدہی اس کی مثال مل سکے؛ مغربی ممالک میں خاص طورپر اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دوش بدوش زندگی گذارنے والے مسلمان اور غیرمسلم مئے نوشی کے اعتبارسے ایک دوسرے سے بہت مختلف کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح زنا اور غیرقانونی جنسی تعلق کا معاملہ ہے کہ آج بھی اس معاملہ میں مسلم سماج دوسری قوموں سے بدرجہاغنیمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایڈس کی بیماری کی شرح مسلم ملکوں میں سب سے کم ہے، مغربی ملکوں میں شہرشہر بوڑھے لوگوں کے لیے ہاسٹل قائم کردیئے گئے ہیں، لوگ بوڑھے ماںباپ اور بزرگانِ خاندان کو ان ہاسٹلوں میں رکھ کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں، لیکن مسلم سماج میں آج بھی ایسی خودغرضی نسبتاً کم پائی جاتی ہے، والدین کا احترام اور بزرگوں کی قدردانی کو لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، یہ آخرت کے خوف اور آخرت میں جوابدہی کے احساس کے بغیر نہیں ہوسکتا؛ الغرض وضعی قوانین کا نفاذ قانون کی طاقت ہی سے ممکن ہے؛ لیکن قانونِ شریعت کے نفاذمیں عقیدہ وایمان کی طاقت بھی موثر کردار ادا کرتی ہے۔