انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اندلس میں عیسائیوں کے حملےاور مسلم حکمرانوں کی فتح عیسائیوں کی چیرہ دستی اندلس پر مرابطین کی حکومت حالات وواقعات کے سلسلہ کو مربوط کرنے کے لئے ہم کو پھر کسی قدر پیچھے واپس جانا پڑے گا،جزیرہ نما اندلس میں میں جب اسلامی شہنشاہی کا شیرازہ بکھر گیا اورطوائف الملوکی شروع ہوگئی تو وہ عیسائی ریاستیں جو مسلمانوں کی کم التفاقی وبے پروائی کے سبب شمالی سرحدوں پر موجود تھیں اور اُن کا وجود مسلمانوں کے رحم و کرمپر منحصر تھا،اب اپنی ترقی کے خواب دیکھنے لگیں، اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ طوائف الملوکی کےپیدا کرنےاور مسلمانوں کی خانہ جنگی کو جاری رکھنے کے لئے عیسائیوں نے خوب مؤثر کوششیں کی تھیں اور انہوں نے کوئی موقع اورکوئی وقت ضائع نہیں ہونے دیا، الفانسو چہارم نے ۴۶۷ھ میں خود بھی مسلمانوں کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں، تمام عیسائی سلاطین کو جو اسلامی اندلس کی سرحدوں پر موجود تھے،تیاری وحملہ آوری کی ترغیب دی اور تمام عیسائیوں کو اپنی حمایت پر آمادہ کیا، اُس نے ۴۷۴ھ میں طلیطلہ کو القادر باللہ کے قبضے سے نکال کر اپنی حکومت میں شامل کیا،طلیطلہ میں اُس نے اول اول مسلمانوں کو وعظ وپند اور پادریوں کی تبلیغ کے ذریعہ مذہب عیسوی اختیار کرنیکی ترغیب دی،لیکن جب اس کو اس کوشش میں قطعا ناکامی ہوئی اورایک مسلمان نے بھی عیسائیت کو قبول کرنا پسند نہ کیا تو الفانسو چہارم نے مسلمانوں پر سختیاں شروع کیں،مسجدوں کو منہدم کرنے بڑی بڑی مسجدوں کو گرجا بنالینے میں تامل نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف ارغون کے عیسائی بادشاہ نے سرقسط کو مسلمانوں سے چھین لیا اور وہاں کی مسجدوں کے ڈھانے اورمسمار کرنے میں ذرا باک نہیں کیا،اس موقع پر قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ مسلمان اب تک بارہا عیسائیوں کو ہزیمتیں دے کر اُن کے شہروں میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے، لیکن کسی ایک موقع پر بھی عیسائیوں نے مسلمانوں سے یہ سنگ دلی نہیں دیکھی تھی کہ انہوں نے عیسائیوں کی عورتوں اوربچوں کو قتل کیا ہو، عیسائیوں نے جواب مسلمانوں کے شہروں کو فتح کیا تو ان کی تلوار سے پرامن اوربے ضرر رعایا کے بچے،بوڑھے، عورتیں، سب قتل ہوئے،اس کے بعد بھی مسلمانوں کو جب کبھی عیسائیوں پر فتوحات حاصل ہوئیں، انہوں نے عیسائیوں کی عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو مطلق ہاتھ نہیں لگایا۔ الفانسو چہارم نے طلیطلہ پر قبضہ کرنے کے بعد حکومت اشبیلیہ کی حدود میں قدم بڑھانے کی جرأت کی،اشبیلیہ کا بادشاہ معتمد بن معتضد عبادی چونکہ بادشاہ المیریہ سے برسرِ جنگ تھا،اس نے فوراً زرِ خراج الفانسو چہارم کے پاس روانہ کیا اوراس بلا کو اپنے سر سے ٹالنا چاہا، آخر الفانسو چہارم نے معتمد کے پاس پیغام بھیجا کہ میری بیوی جوحاملہ ہے اس کو تا وضع حمل مسجدِ قرطبہ میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہیں بچہ پیدا ہو، اس کے قیام کا بند وبست کردو ار قصر زہرا بھی اس کے لئے خالی کردو، قرطبہ ان دنوں معتمد کی حکومت مین شامل تھا، معتمد نے الفانسو کی اس درخواست کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اوراس کے یہودی سفیر کو جس کا ذکر اوپر آچکا ہے گستاخی کی سزا میں قتل کردیا، الفانسو چہارم یہ سنتے ہی دریائے وادی الکبیر کے کنارے اشبیلیہ کے محاذی آکر خمیہ زن ہوا اور معتمد کو لکھا کہ فوراً شہر اور محلات شاہی میرے لئے خالی کردو، معتمد نے اس خط کی بہشت پر جواب لکھ کر بھیج دیا کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد تجھ کو تیری گستاخیوں کا مزا چکھا دیں گے، اس مختصر جواب سے الفانسو کے قلب پر رعب طاری ہوگیا اور وہ اشبیلیہ پر حملہ کی جرأت نہ کرسکا، مگر اس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعہ تمام ملک اندلس میں یہ مشہور کرادیا کہ معتمد عبادی نے یوسف بن تاشقین کو اپنی مدد کے لئے مراقش سے بلایا، اس خبر کے شہرت دینے میں مصلحت یہ تھی کہ رؤساء اندلس مراقش کے بادشاہ کا اپنے ملک میں داخل ہونا سخت نا پسند کرتے اور اپنی بے عزت سمجھتے تھے،حالانکہ عیسائیوں سے معاہدے کرنے اور عیسائیوں کو خراج ادا کرنے میں اُن کو شرم نہیں آتی تھی،چنانچہ اس خبر کے مشہور ہوتے ہی مسلمان سلاطین نے معتمدین معتضد عبادی وشاہ اشبیلیہ کو لعنت ملامت کے خطوط لکھے کہ تونے یوسف بن تاشقین کو کیوں اندلس میں بُلانا کوارا گیا معتمد نے ان سب کو یہ جواب لکھا کہ: ’’مجھ کو خنزیروں کی پاسبانی سے اونٹوں کی نگہبانی کرنا پسند ہے‘‘ مطلب اس کا یہ تھا کہ الفانسو مجھ کو گرفتار کرکے خنزیروں کے چرانے کی خدمت لے گا اور یوسف بن تاشقین اگر اندلس پر خود قابض ہوکر اور مجھ کو گرفتار کرکے مراقش لے گیا تو وہاں مجھ سے اونٹ چرانے کا کام لے گا،یعنی میں الفا نسو کا بننا گوارا نہیں کرتا، یوسف کا قیدی بنناگوارا کرسکتا ہوں،اس کےبعد معتمد نے ایک وفد یوسف بن تاشقین کے پاس روانہ کیا، اورعیسائیوں کے مقابلے میں مدد طلب کی،یوسف بن تاشقین فوراً واردِ اندلس ہوا، الفانسو بھی اس زبردست دشمن کے مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہوا اوراس نے ہر طرف سے بہادر اور تجربہ کار جنگ جو فراہم کرکے ساٹھ ہزار تک اپنے لشکر کی تعداد بڑھا لی،اس زبردست لشکر کو دیکھ کر الفانسو نے ازراہِ کبر وغرور کہا کہ اگر میرے مقابلے کو آسمان سے فرشتے بھی اُتر آئیں تو میں اس لشکر سے ان کو بھی شکست دے سکتا ہوں،اس کے بعد الفانسو نے یوسف بن تاشقین کو جب کہ وہ معتمد کے پاس اشبیلیہ میں پہنچ چکا تھا، ایک خط بھیجا، اس خط میں اپنی کثرتِ فوج اور طاقت وقوت کا ذکر کرکے یوسف کو مغلظات گالیاں بھی دی تھیں، یوسف نے اپنے معتمد ابوبکر بن القصیر کو اس خط کا جواب لکھنے کے لئے حکم دیا، ابو بکر نے ایک نہایت مدلل ومطول مسودہ لکھ کر پیش کیا، یوسف نے یہ کہہ کر اس قدر عبارت آرائی کی ضرورت نہیں ہے،الفانسو کے خط کے پشت پر یہ جملہ اپنے قلم سے لکھ کر روانہ کردیا کہ: ’’جو زندہ بچے گا وہ دیکھ لے گا‘‘ اس مختصر جواب کو پڑھ کر الفانسو خوف زدہ ہوگیا، آخر ذلاقہ کے میدان میں جنگِ عظیم برپا ہوئی اسلامی لشکر کی کُل تعداد بیس ہزار کے قریب تھی اور عیسائی لشکر ساٹھ ہزار سے زیادہ تھا، بروز چہارشنبہ ماہِ رجب ۴۷۹ھ جب اسلامی لشکر آگے بڑھا تو الفانسو نے پیغام بھیجا کہ ہم ہفتہ کے روز نبرد آزما ہوں گے،یوسف ومعتمد نے اس درخواست کو منظور کرلیا، لیکن الفانسو نے اسلامی لشکر کو دھوکا دیا تھا، اُس نے جمعہ کے روز بے خبری میں حملہ کیا، اس سے اسلامی لشکر میں ایک قسم کی پریشانی نمودار ہوئی،لیکن مسلمانوں نے سنبھل کر عیسائیوں کے حملہ کو روکا اوربڑی بہادری سے لڑا، یوسف نے جب حملہ کیا تو عیسائی تابِ مقابلہ نہ لاسکے، الفانسو بھی اس لڑائی مین زخمی ہوا اوراپنی تمام فوج اس میدان مین کٹوا کر ۲۰ ماہ رجب ۴۷۹ھ کو چند سو آدمیوں کے ساتھ میدان ذلاقہ سے فرار ہوا،اسلامی لشکر اس فتح کے بعد چار روز یعنی ۲۴ ماہ رجب تک اس میدان میں مقیم رہا، معتمد نے مالِ غنیمت کی نسبت یوسف بن تاثقین کی خدمت میں عرض کیا کہ کس طرح تقسیم کیا جائے؟ یوسف نے کہا کہ میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں، مالِ غنیمت حاصل کرنے نہیں آیا، ذلاقہ سے یوسف و معتمد دونوں اشبیلہ آئے،یہاں یوسف چند روز مقیم رہ کر افریقہ واپس چلا گیا، الفانسو اس شکست کے بعد مخبوط الحواس ہوگیا تھا، مگر مسلمان رؤسانے عیسائیوں کی اس عظیم الشان شکست سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھانا چاہا ؛بلکہ پہلے کی طرح پھر خانہ جنگی میں مصروف ہوگئے، مسلمانوں کی اس حالت کو دیکھ کر عیسائیوں نے پھر ہمت کی اورفوجی تیاریوں میں مصروف ہوکر مسلمانوں کے قبضے سے شہروں کو نکالنا شروع کردیا اور اشبیلیہ کے بعض قلعوں پر بھی قابض ہوگئے۔ ماہ ربیع الاول ۴۸۱ھ میں امراء اندلس کی درخواست پر یوسف بن تاشقین کو پھر اندلس میں آنا پڑا،مگر اس مرتبہ اندلس کے مسلمانوں کی ذلت وبدنصیبی یہاں تک ترقی کرچکی تھی کہ وہ یوسف بن تاشقین کے ساتھ ایک کیمپ میں شامل ہوکر آپس میں لڑنے سے باز نہ رہے، یوسف اس حالت کو دیکھ کر برداشتہ خاطر ہوا اورمراقش کی جانب واپس چلا گیا۔ دوسال کے بعد ۴۸۳ ھ میں یوسف بن تاشقین عیسائیوں کو سزا دینے کے لئے پھر اندلس میں آیا کیونکہ اندلس کے مسلمان سلاطین یوسف بن شقین کو اپنا سرپرست تسلیم کرچکے تھے اور عیسائیوں کو اپنے مقبوضات پر حملہ آور دیکھ کر یوسف بن تاشقین سے خواہانِ امداد ہوا کرتے تھے،اس مرتبہ یوسف بن تاشقین عیسائی فوجوں کو پیچھے ہٹاتا اورشکست دیتا ہوا شہر طلیطلہ میں موجود تھا،یوسف نے طلیطلہ کا محاصرہ کرکے اُمرائے اندلس سے امداد چاہی کہ محاصرہ کو کامیاب بنانے میں شریک ہوں،لیکن کسی نے مدد نہ کی،بالخصوص عبداللہ بن بلکین بادشاہ غرناط نے کہ اس پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی تھی مطلق التفات نہ کیا، یوسف کو مجبوراً محاصرہ اُٹھا کر طلیطلہ سے واپس ہونا پڑا اوراس نے اُمرائے اندلس کو ٹھیک بنا نا ضروری سمجھا؛چنانچہ اُس نے عبداللہ حاکم غرناطہ اوراُس کے بھائی تمیم حاکم مالقہ کو گرفتار کرلیا اورافریقہ بھیج دیا۔ اس کے بعد ماہ رمضان المبارک۴۸۳ھ میں یوسف بن تاشقین اپنے بھتیجے اورسپہ سالار سیر بن ابی بکر بن تاشقین کو مع فوج اندلس میں عیسائیوں کی سرکوبی کے لئے چھوڑ کر خود افریقہ چلا گیا،اس سپہ سالار نے الفانسو پر فوج کشی کی اور کئی مقامات اُس سے لڑکر چھین لئے،اس جہاد میں اندلس کے مسلمان امراء کو سیر بن ابی بکر کی امداد کرنی لازمی تھی،مگر ان بدبختوں نے اُس کی امداد اورعیسائیوں کے مقابلے سے صاف انکار کردیا، سیر بن ابی بکر نے امراء اندلس کی نالائقیوں پر کوئی التفات نہ کرکے اپنی فتوحات اورعیسائیوں کے مقابلے کا سلسلہ برابر جاری رکھا،یہاں تک کہ اس نے ایک معقول حصہ ملک مع صوبۂ پُر تگال عیسائیوں سے چھین لیا اوربعض عیسائی رئیسوں سے اقرار اطاعت بھی لے لیا، جب اس سپہ سالار کے قبضے میں ایک حصہ ملک بھی آگیا اور اندلس میں اس کے قدم اچھی طرح جم گئے تو اُس نے یوسف بن تاشقین کو لکھا کہ ہمارے قبضہ میں جزیرہ نما کے اندر ایک کافی رقبہ آگیا ہے جو ہم نے عیسائیوں سے فتح کرلیا ہے، لیکن اندلس کے مسلمان امراء نے ہماری مطلق امداد نہیں کی اور وہ بجائے ہمارگ عیسائیوں کے ساتھ مودّت ومحبت کے تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں اوراپنے طرز عمل سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں،ان کی نسب بھی کوئی صادر فرمایا جائے۔ یوسف بن تاشقین نے سیرن ابی بکر کو لکھا کہ تم عیسائیوں پر جہاد کے سلسلہ کو جاری رکھواؤ امرائے اندلس سے پھر امداد اعانت کی خواہش کرو،اگر وہ اس کام میں تمہارے شریک ہوجائیں تو اُن ے تعرض نہ کرو اوراگر وہ عیسائیوں کے مقابلے میں تمہاری حمایت وہمدردی نہ کریں تو تم ان کے ملکوں کو بھی اُن سے چھین لو مگر اس بات کا خاص طور پر لحاظ رکھو کہ اول ان مسلمان امراء کی ریاستوں پر قبضہ کرو جو عیسائیوں کی سرحدوں پر واقع ہیں تاکہ مسلمانوں کے قبضے سے نکل کر کوئی مقام عیسائیوں کے قبضے میں نہ جاسکے،اس حکم کی تعمیل کی گئی اورسب سے پہلے سیر بن ابی بکر نے ابن ہود بادشاہ سرقسط کی طرف توجہ کی یہ وہ زمانہ تھا کہ سرقسط اس سے پہلے ہی عیسائیوں کے قبضے میں جاچکاتھا، سرقسط کا مسلمان بادشاہ مقام روطہ میں مقیم اوراسی کے نواحی علاقہ پر قابض تھا، روطہ کو سیرنے بآسانی فتح کرلیا، اس کے بعد ماہ شوال ۴۸۴ھ میں عبدالرحمن بن طاہر سے مرسیہ چھین کر اس کو افریقہ کی جانب بھیج دیا گیا، اس کے بعد المیریا اوربطلیوس پر بھی قبضہ کرلیا گیا،پھر قرمونہ، بیحہ،بلات، ملاقہ، قرطبہ وغیرہ مقامات کو تسخیر کیا، معتمد بادشاہ اشبیلہ نے مرابطین کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کی یہی سب سے بڑا اور طاقتور بادشاہ تھا،جو اندلس میں باقی رہ گیا تھا، اس نے الفانسو چہارم سے بھی امداد طلب کی ؛چنانچہ الفانسو نے عیسائیوں کی ایک فوج معتمد کی مدد کے لئے بھیج دی، اس امدادی فوج کے آنے کا حال سُن کر سپہ سالار سیربن ابی بکر نے فوراً ایک طرف اشبیلیہ کا محاصرہ کیا اور دوسری طرف ایک سردار کو عیسائی لشکر کی روک تھام کے لئے روانہ کردیا، اُس سردار نے عیسائیوں کو شکست دے کر بھگادیا،ادھر سیربن ابی بکر نے اشبیلیہ کو فتح کرکے معتمد کو مع اہل خاندان قید کرکے افریقہ بھیج دیا جہاں وہ نظر بندی کی حالت میں رہنے لگا، اور۴۸۸ ھ ماہ ربیع الاول میں فوت ہوا۔