انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ردت یمن اسود عنسی کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اُس نے ملک یمن میں نبوت کا دعویٰ کرکے قریباً تمام ملک میں بدامنی پیدا کردی تھی،لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں ہی مقتول ہوکر اپنے کیفر کردار کوپہنچ چکا تھا اور ملک یمن میں ارتداد کے بعد پھر اسلام پھیلنے لگا تھا ابھی تک پورے طور پر مطلع صاف نہ ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،اس خبر کے مشہور ہوتے ہی تمام ملک یمن میں پھر وبائے ارتداد پھیل گئی اس مرتبہ مرتدین یمن کے دو مشہور سردار تھے،ایک قیس بن مکشوح دوسرا عمروبن معدی کرب یمن کے مسلمانوں کو مرتدین یمن نے بہت ستایا،چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا،مسلمان جو تعداد میں بالکل بے حقیقت تھے وہ علاقوں کو خالی کرتے ہوئے ہٹ آئے تھے،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ملک یمن کے علاقہ صنعا کی طرف مہاجر بن ابی امیہؓ کو ایک لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا، مہاجر بن ابی امیہؓ مدینہ سے روانہ ہوکر راستہ میں مکہ وطائف سے مسلمانوں کی جمعیت کو ہمراہ لیتے ہوئے نہایت تیز رفتاری سے علاقہ نجران میں داخل ہوکر خیمہ زن ہوئے، قیس وعمرو کو مہاجر کے حملہ آور ہونے کی اطلاع پہلے سے پہنچ چکی تھی، وہ بھی نجران میں ان کی آمد کے منتظر تھے،عمروبن معدی کرب ایک مشہور سردار تھا جس کی صف شکنی وحریف افگنی کی تمام ملک میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی،مہاجرؓ نے دشمنوں کی بے قیاس ولاتعداد افواج میں اپنے آپ کو محصور دیکھ کر اپنے ہمراہیوں کو جرأت وغیرت دلائی اوران کی ہمت بندھائی،پھر مرتدین پر حملہ آور ہوئے،نہایت سخت معرکہ ہوا،بالآخر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا،قیس وعمرودونوں سردار گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں آئے،بہت سے مرتدین ہلاک وگرفتار اوربقیۃ السیف فرار کی عار گوارا کرنے پر مجبور ہوئے،قیس و عمرو کو مدینہ منورہ کی طرف حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں روانہ کیا،مدینہ منورہ میں پہنچ کر دونوں نے اپنے ارتداد سے پشیمانی کا اظہار کیا،اوربخوشی اسلام قبول کرکے قید سے آزاد اوربحکم صدیقی یمن کی طرف مراجعت فرما ہوئے۔ مہاجربن ابی امیہؓ نجران کی جنگ میں مرتدین یمن کی کمر توڑ کر آگے بڑھے اور صنعاء میں پہنچ کر اس جگہ کے اُن مرتدین کو جو برسر مقابلہ آئے شکست پر شکست دے کر تمام علاقہ کو پاک وصاف کردیا،اُسی جگہ عکرمہؓ بن ابی جہل آکر شریک لشکر ہوئے،یہاں سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے حکم کے موافق دونوں سردار بنوکندہ کی سرکوبی کے لئے بڑھے،بنوکندہ نے اشعث بن قیس کو اپنا سردار بناکر لشکر اسلام کے مقابلہ کی زبردست تیاریاں کی تھیں اور روز بروز اُن کی جمعیت میں اضافہ ہورہا تھا،یہ خبر سن کر مہاجر بن ابی اُمیہؓ نے لشکر اسلام میں سے تیز رفتار سواروں کا ایک دستہ منتخب کرکے اپنے ہمراہ لیا اور لشکر عکرمہؓ بن ابی جہل کی سرداری میں چھوڑ کر نہایت تیزی وبرق رفتاری سے یلغار کرتے ہوئے مقام محجر میں جہاں اشعث بن قیس مرتدین کا لشکر لئے ہوئے پڑا تھا پہنچے اور جاتے ہی قضائے مبرم کی طرح مرتدین پر ٹوٹ پڑے،مرتدین اس حملہ کی تاب نہ لاسکے سر اسیمہ ہوکر بھاگے اشعث نے وہاں سے فرار ہوکر قلعہ بحیر میں پناہ لی ،وہیں تمام مرتدین پہنچ کر قلعہ بند ہوگئے،مہاجر بن ابی امیہؓ نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اسی عرصہ میں عکرمہؓ بن ابی جہل اسلامی لشکر لئے ہوئے آپہنچے، محاصرہ کی سختی اورکمک وسامان رسد کی آمد سے مایوس ہوکر اشعث نے صلح کی درخواست پیش کی،یہ درخواست اس قدر عاجز ہوکر پیش کی کہ اُس نے اپنی قوم کے صرف نو آدمیوں کے لئے معہ اہل وعیال جاں بخشی اوررہائی چاہی،مہاجرین نے اس درخواست کو منظور کرلیا،عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اشعث غلطی سے ان نو آدمیوں کی فہرست میں اپنا نام بھول گیا ؛چنانچہ ان نو آدمیوں کو چھوڑ کر باقی کو مسلمانوں نے گرفتار کرلیا،ان اسیران جنگ میں اشعث بن قیس بھی شامل تھا،جب یہ لوگ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سامنے مدینے میں لاکر پیش کئے گئے تو اشعث نے اپنے افعالِ گذشتہ پر اظہار پشیمانی کیا اور صدیق اکبرؓ سے کہا کہ آپ میرا اسلام قبول فرمالیں میں بطیب خاطر اسلام کو پسند اوراختیار کرتا ہوں، صدیق اکبرؓ نے نہ صرف اشعث ؛بلکہ تمام اسیرانِ بنوکندہ کو آزاد کردیا اورصرف اس قدر کہا کہ میں آئندہ تم سے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ دیکھو گا۔