انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وادی القریٰ شام اور مدینہ کے درمیان ایک وادی ہے، جس میں بہت سی بستیاں آباد تھیں، اس کووادی القریٰ (بستیوں کی وادی) کہتے ہیں، یہ نہایت ہی قدیم آبادی ہے، قدیم زمانہ میں یہاں عاد وثمود آباد تھے، یہ بستیاں اپنی سرسبزی وشادابی کے لحاظ سے ہمیشہ سے ضرب المثل تھیں، قرآن مجید کی ان آیات میں انہی بستیوں کی طرف اشارہ ہے: أَتُتْرَكُونَ فِي مَاهَاهُنَا آمِنِينَo فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍo وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ۔ (الشعراء:۱۴۶ تا ۱۴۸) ترجمہ:کیا تمھیں اطمینان کے ساتھ ان ساری نعمتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا جویہاں موجود ہیں؟o ان باغوں اور چشموں میں؟o اوران کھیتیوں اور ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ایک دوسرے میں پیوست ہیں؟۔ (توضیح القرآن:۲/۱۱۳۱، مفتی تقی عثمانی) ارباب تاریخ وجغرافیہ لکھتے ہیں کہ عاد وثمود کی تباہی کے بعد یہاں یہود آباد ہوئے؛ انہوں نے دوبارہ یہاں کی زراعت اور آب رسانی کوترقی دی، یہود کے بعد دوسرے عربی قبائل بھی یہاں آباد ہوئے؛ مگروہ سب کے سب یہود کے زیراثر رہے، قضاعہ، جہینہ اور عذرہ وغیرہ قبائل اسی وادی میں آباد تھے (معجم البلدان:۷/۷۴) ( یہود اور مسلمانوں میں جتنی جنگیں ہوئیں ان سب میں یہ قبائل یہود کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں) اس تفصیل سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ یہاں کے یہود جزیرۂ عرب میں ہجرت کرکے آئے تھے اور بہت قدیم زمانہ سے یہاں آباد تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر اور فدک سے واپس ہوئے تویہاں کے باشندوں نے بھی خیبر کے شرائط صلح کے تحت صلح کرلی۔ عہدِ اسلام کے بعد بھی کئی صدیوں تک یہاں یہودیوں کے وجود کا پتہ چلتا ہے، تاریخ الیہود، صفحہ نمبر:۱۸۶/ کے مصنف کا بیان ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی تک یہاں یہود موجود تھے، یاقوت نے اپنے زمانہ یعنی ساتویں صدی ہجری میں اس کا حال ان الفاظ میں لکھا ہے: اس وقت یہ سرزمین بالکل ویران ہے، کنوؤں اور چشموں کا پانی اب تک ویسے ہی جاری ہے؛ مگراس سے فائدہ اُٹھانے والا کوئی موجود نہیں۔ (معجم البلدان:۷/۷۳) ان دونوں بیانوں سے پتہ چلتا ہے کہ پانچویں اور ساتویں صدی ہجری مطابق گیارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے درمیان یہود نے اس سرزمین کوچھوڑا ہے؛ لیکن یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ان کے ترکِ وطن کے اسباب کیا تھے اور وہ یہاں سے کہا گئے۔ بلاذری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وادی القریٰ کے یہودیوں کوبھی جلاوطن کردیا تھا (فتوح البلدان:۴۱) لیکن یہ بیان محل نظر ہے، دوسرے یہ روایت قیل کے لفظ سے مروی ہے جواس کے ضعف پردال ہے، اس کے علاوہ کچھ اور بھی دلائل ہیں جس کی بناپر بلاذری کی یہ روایت صحیح نہیں معلوم ہوتی، واللہ اعلم۔