انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روزقیامت سمندر بھڑکائے جائیں گے سمندر ہی جہنم ہے (حدیث)حضرت یعلی بن امیہؓ نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: البحر ھوجھنم (ترجمہ)سمندر ہی جہنم ہے نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا (الکہف:۲۹) (ترجمہ)بے شک ہم نے ایسے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ (تیار کررکھی ہے) کہ اس آگ کی قناتیں ان کو گھیرے ہوں گی۔ (یعنی اس آیت سے بھی تویہ ثابت ہوتا ہے)تو حضرت یعلی نے فرمایا میں نے اس فرمان کو نہیں دیکھا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں یعلی کی جان ہے میں اس (سمندر) میں کبھی داخل نہیں ہوں گا حتی کہ میں اللہ عزوجل کے سامنے پیش ہوجاؤں مجھے کوئی قطرہ جہنم کا نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ میں اللہ عزوجل سے ملاقات کرلوں (رواہ احمد باسناد فیہ نظر) اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے تو معنی یہ ہوگا کہ روز قیامت سب سمندر بہہ کر ایک سمندر بن جائیں گے اس کے بعد ان کو بھڑکا کر آگ میں تبدیل کیا جائے گا اوران سے جہنم کی آگ میں اضافہ کردیا جائے گا اور بہت سے اسلاف نے اللہ تعالی کے فرمان: وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (التکویر:۶) کی یہی تفسیر کی ہے کہ سمندروں کو بھڑکا کر جہنم میں شامل کردیا جائے گا۔ سمندر دوزخ بن جائیں گے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ سمندر(بھی)اتنے بھڑکائے جائیں گے کہ آگ بن جائیں گے۔ حضرت مجاہد بجیلہ کے ایک شیخ سے وہ ابن عباس سے وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْکی یہ تفسیر نقل کرتے ہیں کہ سورج،چاند اور ستاروں کو سمندر میں ڈال کر بے نور کردیا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالی پچھوائی ہوابھیجیں گے جو اس کو بھڑکا لائے گی یہاں تک کہ وہ آگ بن جائے گا۔ (ابن ابی الدنیا،ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس سے وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْکَافِرِينَ(توبہ:۴۹) کی یہ تفسیرنقل کی گئی ہے کہ جہنم یہی سمندر ہے ستارے اس میں بکھیرے جائیں گے چاند سورج اسی میں بے نور کئے جائیں گے پس یہی جہنم بن جائے گی (ابن ابی الدنیا، ابن ابی حاتم، یہ روایت کمزور ہے) ابن جریر نے اپنی سند سے حضرت سعید بن المسیب کے واسطہ سے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ایک یہودی کو کہا جہنم کہا ںہے؟ اس نے کہا سمندر حضرت علی فرماتے ہیں میں نے اسے سچا دیکھا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں : وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ (الطور:۶) وقالوَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (التکویر:۶) (ترجمہ)اورقسم ہے ابلتے ہوئے دریا کی ۔اورجب دریا بھڑکائے جائیں گے ۔ اسی طرح کی ایک روایت حضرت آدم بن ابی ایاس نے بھی اپنی تفسیر میں روایت کی ہے۔ (ابن جریر طبری) حضرت ابوالعالیہ نے حضرت ابی بن کعب سے وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ جنات انسان کو کہیں گے ہم تمہارے لئے ایک خبر لائے ہیں تم دریا کی طرف تو چلو(جب یہ وہاں جائیں گے)تو وہ آگ بن کر شعلے ماررہا ہوگا (ابن ابی حاتم) ابن لبعہ ابو قبیل سے روایت کرتے ہیں کہ سبز سمندر ہی جہنم ہے۔ حضرت کعب نے: يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (ابراھیم:۴۸) کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ آسمانوں کو تبدیل کیا جائے گا تو وہ جنتیں بن جائیں گی اورزمین سمندر کی جگہ تبدیل کی جائے گی تو جہنم بن جائے گی۔ (ابونعیم) حضرت ابن عباس کا فرمان گذرچکا ہے کہ جہنم تہ بتہ سات سمندروں کے نیچے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا سمندر کے پانی سے وضو نہ کیا جائے کیونکہ یہ جہنم کا حصہ ہے سعید بن ابی الحسن اخوالبصری بھی یہی کہتے ہیں کہ سمندر جہنم کا ایک حصہ ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: لَا يَرْکَبُ الْبَحْرَ إِلَّا حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا (ابی داؤد،باب فی رکوب البحر فی الغزو،حدیث نمبر۲۱۳۰) (ترجمہ)حاجی یا عمرہ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے علاوہ سمندر میں کوئی سفر نہ کرے کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اورآگ کے نیچے سمندر ہے۔ بحرۂ روم دوزخ کے سمندروں کا مرکز ہے۔ معاویہ بن سعید فرماتے ہیں یہ سمندر(بحرۂ روم سمندروں کے اعتبار سے) زمین کے درمیان میں ہے چھوٹے سمندر اسی سے آکر ملتے ہیں اورسب سے بڑے سمندر کو بھی اس میں ڈالا جائے گا اس کے نیچے بہت کنویں ہیں جو آگ سے بھرے ہوئے ہیں جب روز قیامت ہوگا اس کو بھڑکادیا جائے گا۔ (ابن ابی حاتم) سمندر کی گہرائی دوزخ کی گہرائی ہے عباس بن یزید البحرانی کہتے ہیں میں نے ولید بن ہشام سے سنا اوران سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات کہاں سے لی ہے؟ تو انہوں نے کہا ایسے آدمی سے جو پہلے اہل کتاب سے تھا پھر اسلام قبول کیا اوراسلام کی مکمل اتباع کرتا تھا فرمایا کہ جب مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو لقمہ بنایا تو ساتوں سمندروں میں گھومی یہاں تک کہ سمندر کی گہرائی کی اس جگہ جا ٹھہری جہاں جہنم کی گہرائی ملتی ہے پس حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں تسبیح پڑھی جسے قارون (کافر) نے بھی سنا جو اس وقت جہنم میں تھا(اس کے بعدانہوں نے)اس کے آگے بھی روایت بیان کی۔ (ابن ابی الدنیا) (فائدہ)حضرت یونس قارون کے فی النار ہونے کے بعد مبعوث ہوئے ہوں گے اس لئے تاریخ کے اعتبار سے یہ واقعہ درست ہوگا اوریہ بھی معلوم ہوا کہ سمندر کی گہرائی دوزخ کی گہرائی جتنی ہے۔ (حدیث)حضرت ابن عمرؓ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان جہنم محیط بالدنیا وان الجنۃ من ورائہ فلذلک کان الصراط علی جہنم طریقا الی الجنۃ (غریب منکر) (ترجمہ)جہنم نے دنیا کو گھیر رکھا ہے اورجنت اس کے آگے ہے اسی وجہ سے جنت میں جانے کے لئے جہنم پر پل صراط کا راستہ ہوگا۔ کیا جہنم آسمان پر ہے؟ بعض روایات ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم بھی آسمان پر ہے مثلاً مشہور مفسر حضرت مجاہدؒ نے وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُون (الذاریات:۲۲) (کی تفسیر میں فرمایا مراد اس سے جنت اورجہنم ہیں (یعنی یہ دونوں آسمان پر ہیں) مشہور مفسر حضرت ضحاکؒ سے بھی ایسے ہی مروی ہے (حدیث) حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اوتیت بالبراق فلم نزایل طرفہ انا وجبریل حتی اتینا بیت المقدس وفتحت لنا ابواب السماء ورایت الجنۃ والنار (مسند احمد وغیرہ) (ترجمہ)میرے پاس براق لائی گئی میں اور جبریل اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ بیت المقدس جاپہنچے اورہمارے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اورمیں نے جنت اورجہنم کو دیکھا۔ اورمروزی نے جو حضرت حذیفہ ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے اس میں ہے۔ رایت لیلۃ اسری بی الجنۃ والنار فی السماء فقرات ھذہ الایۃ فی السماء رزقکم وماتو عدون فکانی لم اقراھاقط (ترجمہ)جس رات مجھے معرج کرائی گئی میں نے آسمان میں جنت اورجہنم دیکھی ،پھر میں نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ)تمہارا رزق اورجس کا تمہیں وعدہ دیا گیا آسمان میں ہے) پس گویا کہ میں نے اس سے قبل اسے کبھی نہیں پڑھا تھا۔ اس حدیث میں حضرت حذیفہؓ کی پہلی حدیث کی تصدیق ہے اسے خلال نے بھی کتاب السنہ میں نقل کیا ہے اورحضرت حذیفہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ قسم بخدا حضور براق کے ساتھ رہے حتی کہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اورانہوں نے جنت اورجہنم کو اورآخرت کو ایک ساتھ دیکھا۔ گذشتہ روایات کا جواب اورصحیح مفہوم یہ سب روایات اپنے مدلول پر صریح نہیں ہیں کہ آپ ﷺ نے جہنم کو آسمان پر دیکھا، اگر بالفرض یہ لفظ صحیح بھی ہوں تو جہنم کے آسمانوں پر ہونے پر دلالت نہیں کرتے کیونکہ یہ اس بات پر تو دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے دیکھا ہے جب کہ آپ ﷺ آسمانوں میں موجود تھے ،جس طرح حضور ﷺ نے نماز کسوف میں جنت اورجہنم کو دیکھا جب کہ آپ زمین پر تھے اسی طرح واقعہ معراج کی احادیث میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے جنت اورجہنم کی زمین سے گذرے حالانکہ یہ بھی اس پر دلالت نہیں کرتی کہ جنت زمین پر ہے پس حضرت حذیفہؓ کی حدیث اگر ثابت ہو کہ آپ نے آسمان میں جنت اورجہنم کو دیکھا ہے تو مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آسمان پر سے جہنم کو دیکھا ہے نہ یہ کہ آسمان میں جہنم کو موجود دیکھا ہے۔ (واللہ اعلم) اورجو حضرت ابو سعید خدریؓ کی حدیث معراج میں حضورﷺ کا جنت اورجہنم کو آسمانوں سے بھی اوپر دیکھنا مروی ہے تو اگر روایت صحیح ہو تو اس کا بھی وہی معنی ہے جو اس سے پہلے بیان ہوا ہے۔ قاضی ابو یعلی نے سند جید کے ساتھ ابو بکر مروزی سے روایت کی ہے کہ امام احمدؒ نے ان کے لئے بہت سی آیا ت کی تفسیر فرمائی ان میں واذاالبحار سجرت کی تفسیر جہنم کے طبقات سے کی اور والبحر المسجورکی تفسیر جہنم سے کی امام احمدؒ کی یہ تفسیر بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ جہنم زمین پر ہے کیونکہ سمندر زمین پر ہیں،یہ اس روایت کے خلاف ہے جو خلال نے مروزی سے روایت کی ہے(جو چند روایات سے پہلے گذرچکی ہے) اورجو حضرت مجاہدؒ کی تفسیر گذری ہے اس کی بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ اس سے مراد جنت اورجہنم والے اعمال ہیں جو آسمان میں خیر وشر کی صورت میں مقدر ہیں،ایک دوسری روایت میں خود حضرت مجاہد سے اس کی تصریح بھی مروی ہے۔ نیز بعض احادیث معراج میں یہ آیا ہے کہ آپﷺ نے جہنم کو بیت المقدس کے راستہ میں دیکھا ہے۔ اورحضرت عبادہ بن صامت ؓ بیت المقدس کی مشرقی دیوار پر کھڑے ہوکر رونے لگے اورفرمایا یہاں پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبردی کہ آپﷺ نے جہنم کو دیکھا تھا۔ (پس حافظ ابن رجب کے نزدیک مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے واقع ہے اوریہ سمندر خشک ہوکر تہ بتہ جہنم ظاہر ہوجائے گی اور جہنم کے آسمانوں پر ہونے کی بات درست نہیں ہے)