انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
جمعہ میں خطبہ سے پہلے تقریر ضروری ہے؟ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آج کل یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جمعہ کے دن امام صاحب خطبہ سے پہلے تقریباً نصف گھنٹہ تقریر کرتے ہیں، اس درمیان جولوگ آتے ہیں، ان کونہ تحیۃ المسجد پڑھنے کا موقع ملتا ہے، نہ قرآن کی تلاوت کی جاسکتی ہے، نہ سورۂ کہف پڑھنے کا موقع ملتا ہے اور نہ توبہ واستغفار کا؛ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے رُوکنا اُمتِ مسلمہ کا فریضئہ منصبی ہے اور اس کی ایک صورت وعظ وبیان بھی ہے، جمعہ کے دن لوگ جس یکسوئی کے ساتھ دینی باتیں سنتے ہیں؛ شاید ہی کسی اور موقع پرسنتے ہوں؛ پھرمسجد کا پاکیزہ ماحول اور خود سامعین کے پاکی اور طہارت کی حالت میں ہونے کا بھی اثر پڑتا ہے اور ممکن ہے کہ کچھ اہلِ علم حضرات ایسے ہوں جن کودینی احکام ومسائل سننے کی ضرورت نہ ہو؛ بلکہ ان کوپہلے سے معلوم ومحفوظ ہوں اور ان کوتقریر ووعظ سے گرانی ہوتی ہو؛ لیکن مسلمانوں کی اکثریت ایسی نہیں؛ بلکہ وہ محتاج ہیں کہ ان کواحکام ومسائل بتائے جائیں، ان کواس سے نفع بھی ہوتا ہے؛ عموماً اپنے دنیوی مشاغل میں مسلمان اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کودینی علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا، جمعہ میں ان کوموقع مل جاتا ہے توان کوغنیمت سمجھنا چاہیے؛ اس لیے یہ بہت ہی مفید سلسلہ ہے اور اس سے خطبہ کے مقصد کی بھی تکمیل ہوتی ہے، خطبہ ذکر بھی ہے اور تذکیر بھی، عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے عربی خطبہ سے ذکر کا مقصد توپورا ہوجاتا ہے؛ لیکن تذکیر کا مقصد حاصل نہیں ہوپاتا، خطبہ سے پہلے کا بیان اس کمی کی تلافی کردیتا ہے، اس لیے اس میں کچھ حرج نہیں، فی الجملہ اس کا ثبوت حدیث سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی ہے، کتب سیرت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ اُحد (جس میں عبداللہ بن ابی کا نفاق پوری طرح واضح ہوکر آگیا) سے پہلے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ سے پہلے کچھ دیر اس کی گفتگو ہوا کرتی تھی، جس میں وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تلقین کرتا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اجازت ومشورہ سے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ اذان جمعہ سے قبل ہرجمعہ کووعظ فرمایا کرتے تھے؛ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ شاہانِ بنواُمیہ کے زمانہ میں خطبہ سے پہلے وہ کچھ وعظ فرمایا کرتے تھے؛ جہاں تک تحیۃ المسجد کی بات ہے تویہ اس بیان کے درمیان بھی پڑھی جاسکتی ہے اور توبہ واستغفار کے لیے بھی اور مواقع ہیں اور جہاں تک سورۂ کہف پڑھنے کی بات ہے تواس کا اذانِ جمعہ کے بعد ہی پڑھنا ضروری نہیں، اس سے پہلے یاجمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں؛ کیونکہ احادیث میں مطلقا جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کی ترغیب آئی ہے، دن کے کسی خاص وقت کی تحدید منقول نہیں، عربی خطبہ سے آٹھ دس منٹ پہلے بیان ختم کردیا جائے، اس وقت سب لوگ سنتیں اطمینان سے ادا کرلیا کریں۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۴۹،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۴۹،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۴۰، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)