انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اعجاز قرآن اعجاز قرآن قرآن کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل اس کا اعجاز ہے یعنی ایک ایسا کلام ہے جس کی نظیر پیش کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے ،اسی وجہ سے اس کو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سےبڑامعجزہ کہا جاتا ہے ،یہاں ہم مختصراً قرآن کریم کی ان وجوۂ اعجاز کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یقیناً اللہ تعالی ہی کا کلام ہے اور کسی بشری ذہن کا اس میں کوئی دخل نہیں ،آگے بڑھنے سے پہلے بنیادی طور پر دو باتیں یاد رکھنی ضروری ہے ایک تو یہ کہ فصاحت وبلاغت اور کلام کی سحر انگیزی ایک ایسی صفت ہے جس کا تعلق سمجھنے اور محسوس کرنے سے ہے اور پوری حقیقت اور ماہیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں آپ تلاش وجستجو اور استقراء کے ذریعہ فصاحت وبلاغت کے اصول مقرر فرماسکتے ہیں لیکن در حقیقت ان اصول وقواعد کی حیثیث فیصلہ کن نہیں ہوتی کسی کلام کے حسن وقبح کاآخری فیصلہ ذوق ووجدان ہی کرتا ہے جس طرح ایک حسین چہرے کی جامع ومانع تعریف نہیں کی جاسکتی جس طرح ایک خوش رنگ پھول کی رعنائیوں کو الفاظ میں محدود نہیں کیا جاسکتا جس طرح مہکتی ہوئی مشک کی پوری کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں جس طرح ایک خوش ذائقہ پھل کی لذت وحلاوت الفاظ میں نہیں سماسکتی اسی طرسی کلام کی فصاحت وبلاغت کو تمام وکمال بیان کردینا بھی ممکن نہیں لیکن جب کوئی صاحب ذوق انسان اسے سنے گا تو اس کے محاسن واوصاف کا خود بخود پتہ چل جائے گا’دوسرے یہ کہ فصاحت وبلاغت کے معاملے میں ذوق بھی صرف اہل زبان کا معتبر ہے کوئی شخص کسی غیر زبان میں خواہ کتنی مہارت حاصل کرلے لیکن ذوق سلیم کے معاملے میں وہ اہل زبان کا کبھی ہمسر نہیں ہوسکتا ،اب ذرا زمانۂ جاہلیت کے اہل عرب کا تصور کیجیے خطابت وشاعری ان کے معاشرہ کی روح رواں تھی عربی شعر وادب کا فطری ذوق ان کے بچے بچے میں سمایا ہوا تھا فصاحت وبلاغت انکی رگوں میں خون حیات بن کر دوڑتی تھی ان کی مجلسوں کی رونق ان کے میلوں کی رنگینی ان کے فخر وناز کا سرمایہ اور ان کی نشر واشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعر وادب تھا اور انھیں اس پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ایسے ماحول میں ایک اُمّی(جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)نے ایک کلام پیش کیا اور اعلان فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ،کیونکہ: قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا۔ (بنی اسرائیل: ۸۸) "اگر تمام انسان اور جنات مل کراس قرآ ن جیسا (کلام) پیش کرنا چاہیں تو اس جیسا پیش نہیں کرسکیں گے خواہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کیوں نہ کریں"۔ وََإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَائَ کُم مِّنْ دُوْنِ اللہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَoفَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْاْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ۔ (البقرۃ: ۲۲،۲۳) اور اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں ذرا بھی شک وشبہ ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک(ہی)سورت بنالاؤ اگر سچے ہو،اور اللہ کے سوا تمھارے جتنے حمایتی ہیں ان سب کو بلا لاؤ،پھر بھی تم ایسا نہ کرسکے،اور یقین ہے کہ ہرگز نہ کرسکوگے تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے،وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ کوئی شخص اس کلام کے مقابلے میں چند جملے بھی بناکر نہ لا سکا بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے قرآن کریم کی حیرت انگیزی کا کھل کر اعتراف کیا ،امام حاکم اور بیہقی نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں "واللہ ان لقولہ الذی یقول حلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ …وانہ لیعلوا ومایعلی" خدا کی قسم !جویہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اورر ونق ہے یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔ (الخصائص الکبری،للسیوطی:۱/۱۱۳) عتبہ بن ربیعہ قریش کے سر برآوردہ لوگوں میں سے تھا،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصالحت کی گفتگو کرنے آیا آپ نے سورہ حم السجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں وہ ہمہ تن گوش سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو وہ بد حواسی کے عالم میں اٹھ کر سیدھا گھر چلا گیا لوگ اس کے پاس گفتگو کا نتیجہ معلوم کرنے آئےتو اس نے کہا خدا کی قسم! محمد نے مجھ کو ایسا کلام سنایا کہ میرے کانوں نے تمام عمر ایسا کلام نہیں سنا میری سمجھ میں نہ آسکا کہ میں کیا جواب دوں۔ (اخرجہ البیہقی وابن اسحاق،عن محمد بن کعب(الخصائص الکبری:۱۱۵/۱) اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں ،جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے بڑے بڑے فصیح وبلیغ اُدباء وشعراء نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کا معارضہ نہیں کرسکے؛بلکہ قرآن کریم کی اثرانگیزی کاقولی یاعملی طور سے اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔ قرآن کریم کی اعجازی خصوصیات قرآن کریم کی اعجازی خصوصیات مکمل طریقے سے بیان کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ،یہ کلام معجز ہے،تاہم انسان کی محدود بصیرت کےمطابق ان خصوصیات کو چار عنوانات پر تقسیم کیاجاسکتا ہے. (۱)الفاظ کا اعجاز (۲)ترکیب کا اعجاز (۳)اسلوب کا اعجاز (۴)نظم کا اعجاز: الفاظ کا اعجاز پورے قرآن کریم میں الحمد سے لےکر والناس تک ایک لفظ بھی غیر فصیح نہیں ہے،اور جو لفظ جہاں لایاگیا ہے اس کو بدل کر کوئی اور لفظ اسی فصاحت وبلاغت کے ساتھ لانا ناممکن ہے،مثلاً عربی زبان میں لفظ موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کئی الفاظ استعمال کیے جاتے تھے،مثلاً،موت،ہلاک،حتف،حمام،منون ،سام،قاضیہ وغیرہ،اہل عرب موت کے لیے جتنے الفاظ استعمال کرتے تھے سب میں ان کا قدیم نظریہ جھلکتا تھا یعنی موت کے ذریعے انسان کے تمام اجزاء ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاتے ہیں اس کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں،لیکن ان کا یہ عقیدہ اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے اس لیے قرآن میں موت کے لیے ان کے تمام الفاظ کو چھوڑ کر ایک نئے لفظ کو استعمال کیاگیا،جس سے ان کے باطل عقیدہ کی تردید بھی ہوگئی اورموت کی حقیقت بھی واضح ہوگئی،اور وہ لفظ ہے ،توفی،کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا،اس لفظ نے یہ بھی واضح کردیا کہ موت ابدی فنا کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے روح قبض کرنے کا نام ہے چنانچہ جب اللہ تعالی چاہے وہ جسم کے منتشر اجزاء کو یکجا کرکے ان میں دوبارہ روح کو لوٹاسکتا ہے ،موت کے لیے یہ لفظ قرآن کریم سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیاتھا۔ ترکیب کا اعجاز الفاظ کے بعد جملوں کی ترکیب میں بھی قرآن کا اعجاز اوج کمال پر ہے،یہاں پر اس کی صرف ایک مثال پیش کی جارہی ہے:قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑی قابل تعریف بات تھی اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے،مثلاً القتل احیاء للجمیع،(قتل اجتماعی زندگی ہے)القتل انفی للقتل(قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے) وغیرہ،اس قسم کے جملے اہل عرب کی زبان پر مشہور تھے اور فصیح سمجھے جاتے تھے،قرآن کریم نے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کتنا بہترین جملہ ارشاد فرمایا:وَلَکُمْ فِی الْقِصَاض حَیٰاۃٌ(اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے) اس جملے کے اختصار،جامعیت اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھیےاس سے پہلےکے تمام جملے اس کے آگے سجدہ ریز دیکھائی دیتے ہیں۔ اسلوب کا اعجاز قرآن کریم کے اعجاز کا سب سے زیادہ روشن مظاہرہ اس کے اسلوب میں ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا مشاہدہ ہر کس وناکس کرسکتا ہے اس کے اسلوب کی اہم اور معجزانہ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں: (۱)قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد وضوابط ملحوظ نہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لذیذ اور شیریں آہنگ پایاجاتا ہے جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب) (۲)علمائے بلاغت نے اسلوب کی تین قسمیں قرار دی ہیں،خطابی،ادبی،علمی،ان تینوں قسموں کے دائرے الگ الگ ہیں ہر ایک کی خصوصیات مختلف ہیں اور ایک ہی عبارت میں ان تینوں کو جمع کردینا ممکن نہیں ہے،آپ جب تقریر کرتے ہیں تو آپ کا انداز اور ہوتا ہے اور جب کوئی ادبی نثر لکھتے ہیں تو اس کا اسلوب بالکل جدا ہوتا ہے اور جب کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو اس کا اسلوب کچھ اور اختیار کرتے ہیں؛ لیکن قرآن کریم کااعجازیہ ہے کہ وہ تینوں اسالیب کو ساتھ لےکر چلتا ہے اس میں خطابت کازور ادب کی شیفتگی اور علم کی متانت ساتھ ساتھ چلتی ہے اور کسی چیز میں کوئی کمی نہیں آنےپاتی۔ (۳)قرآن کریم کے مخاطب دیہاتی بھی ہیں،شہری بھی ہیں علماء بھی ہیں شعراء بھی ہیں، ماہرین فنون بھی ہیں؛لیکن اس کا ایک اسلوب بیک وقت ان تینوں طبقوں کو متاثر کرتا ہے ،ایک طرف ان پڑھ آدمی کو سادہ حقائق ملتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ قرآن میرے ہی لیے اترا ہے ،لیکن جب دوسری طرف علماء ومحققین جب اسے گہری نظر سے پڑھتے ہیں تو انھیں قرآن کریم میں علمی نکات نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب علم وفن کی باریکیوں پر مشتمل ہے،قرآن نے فلسفہ وسائنس کے وہ دقیق مسائل بھی حل کردیے ہیں جن کی تحقیق کے لیے فلسفی آخر تک پیچ وتاب کھاتے رہے۔ (۴)اگر ایک ہی بات کو بار باردہرایا جائے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر سننے والے اکتا جاتے ہیں کلام کازور ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی تاثیر کم ہوجاتی ہے؛لیکن قرآن کریم کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ایک ہی بات بعض اوقات بار بار مذکور ہے؛لیکن ہر مرتبہ نیاکیف،نئی لذت اور نئی تاثیر محسوس ہوتی ہے۔ (۵)بعض ایسے خشک مضامین جس میں ادبی چاشنی پیدا کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے،قرآن کریم ان مضامین کوبھی ایسے حسن وجمال کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ ایک ایک جملہ پر ذوق سلیم وجد کرنےلگتا ہے؛مثال کے طور پر قانون وراثت کو ہی لے لیجیے،سورۂ نساء میں یوصیکم اللہ فی اولادکم ،کی تلاوت کیجیے،آپ بیساختہ پکار اٹھیں گے کہ یہ کوئی غیر معمولی کلام ہے،ہر شاعر اور ادیب کا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے جس سے ہٹ کر اس کا کلام پھیکا پڑجاتا ہے؛لیکن قرآن کریم میں مختلف قسم کے مضامین بیان کیے گئےہیں ،اور ہر جگہ اس کا بیان بلاغت کے اعلی ترین معیار کو پہنچا ہوا ہے۔ (۶)قرآن کریم میں مختصر جملوں میں وسیع مضامین کو سمیٹ دیاگیا ہے،ہر زمانے میں اس سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے،چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی اس کے مضامین پرانے نہیں ہوئے،اس عرصہ میں انسانی زندگی نے کتنے پلٹے کھائے،کیسے کیسے عظیم انقلابات رونما ہوئے؛لیکن قرآن کریم سدا بہار رہا اور رہےگا،وہ تاریخ کی کتاب نہیں مگر تاریخ کا مستند ترین ماخذ ہے ،وہ سیاست کی کتاب نہیں لیکن چند جملوں میں وہ سیاست اور جہاں بانی کے اصول بیان فرمادیے ہیں جو رہتی دنیاتک انسانیت کی رہنمائی کریں گے،الغرض قرآن کریم میں ایسی جامع ہدایات موجود ہیں کہ دنیا کے علوم وفنون سینکڑوں ٹھوکریں کھانے کے بعد آج ان کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ نظم کا اعجاز قرآن کریم نے اپنے نظم میں جو اسلوب اختیار فرمایا ہے وہ اس کا دقیق ترین اعجاز ہے اور اس کی تقلید بشری طاقت سے بالکل باہر ہے ،اس کی ہر آیت میں نظم موجود ہے۔