انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہندوستان میں نامور محدثین کی آمد علماء حدیث کی یہاں تشریف آوری مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوچکی تھی، پانچویں صدی ہجری میں علم حدیث لاہور میں آچکا تھا، یہ عہدِ غزنوی کی بات ہے، شیخ اسماعیل کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں: "اوّل کہ علم حدیث بلاہور آوردہ اوبود" پھر شیخ صنعانی لاہور (۶۵۰ھ) آئے اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی قولی احادیث مجموعہ مشارق الانوار کے نام سے جمع کیں، یہ کوششیں ان دنوں کے مسلمانوں کے ذوقِ حدیث کا پتہ دے رہی ہیں، شیخ نورالدین شیرازیؒ (۸۱۶ھ) احمد شاہ اوّل کے عہد میں ہندوستان کے علاقہ گجرات میں آچکے تھے، اُن کی صحیح بخاری کی سند بہت عالی تھی اور دُور دُور سے علماء آپ سے سند لینے آتے تھے، مولانا سیدالاوّل چشتی جونپوری کی خدماتِ حدیث کوکون بھلاسکتا ہے، یہ صحیح نہیں کہ چشتی حضرات علمی پہلوسے اہلِ حدیث نہ تھے، آخر یہ محدث جلیل بھی توسلسلہ چشتیہ سے ہی تھے؛ پھرشیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد حافظ شمس الدین سخاوی کے دوشاگرد شیخ وجیہ الدین مالکی (۹۲۹ھ) اور شیخ جمال الدین محمدبن عمر حضرمی (۹۳۰ھ) ہندوستان آئے؛ پھرشیخ محمدطیب سندھی (۹۶۸ھ)، شیخ علاؤ الدین علی المتقی (۹۷۵ھ)، پٹنہ کے شیخ طاہر صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ)، شیخ عبدالوہاب المتقی اور ان کے شاگرد شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۳ھ)، شیخ علی بن احمد (۱۰۴۳ھ)، "صاحب السراج المنیر فی شرح الجامع الصغیر" شیخ نورالحق محدث دہلویؒ (۱۰۷۳ھ) شارح بخاری کو دیکھئے یہ سب حضرات اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی جگہ حدیث کی بڑی خدمات سرانجام دے چکے تھے، شیخ ابوالحسن سندھی (۱۱۳۹ھ) کے صحاحِ ستہ پرحواشی اب تک اہلِ علم کا عظیم سرمایۂ حدیث سمجھے جاتے ہیں، فقہی پہلو سے ان میں سے بیشتر محدثین حنفی تھے؛ مگرفن کے لحاظ سے بلاشبہ وہ اہلحدیث تھے اور انہوں نے پوری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری؛ سواس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ علم حدیث ہندوستان میں بہت پہلے دور میں آچکا تھا۔ پھر بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری میں حدیث کی نہضت علمی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ محمداسحاق محدث دہلوی کے ہاں جمع ہوچکی تھی، یہ سب حضرات محدث کے نام سے معروف تھے اور پورے ہندوستان میں انہی محدثین دہلی کی سند چلتی تھی، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی تھے اور محدثین کا یہ سارا گھرانہ علم حنفیہ کامرکز سمجھا جاتا تھا، جناب نواب صدیق حسن خان صاحب (۱۳۰۷ھ) اس خاندان کوبیت علم الحنفیہ کہا کرتے تھے، اس سے واضح ہے کہ ان دنوں مقلد ہونے اور محدث ہونے میں کوئی تباین کی نسبت نہ تھی ان میں تفاوت نہ سمجھا جاتا تھا، تقلید سے ان کے مسلک کااظہار ہوتا تھا اور حدیث سے ان کے فن کا پتہ چلتا تھا اور حق یہ ہے کہ ان دنوں تک ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے "اہلحدیث" نام سے کوئی فقہی مسلک معروف وموسوم نہ تھا۔ شاہ محمداسحاق صاحب محدث دہلوی (۱۲۶۲ھ) کے شاگردوں میں جناب میاں نذیرحسین صاحب (۱۳۳۰ھ) سب سے پہلے اس باب میں نمایاں ہوئے ان سے پہلے بنارس کے نومسلم عبدالحق نامی تقلید کے خلاف کچھ کام کرچکے تھے، صادق پور کے مولانا ولایت علی بھی کچھ اس طرف مائل ہوئے تھے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ اس سلسلہ کے شیخ الکل جنھوں نے ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک علیحدہ فقہی مسلک کی بنیاد رکھی، وہ جناب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہی تھے، جناب میاں صاحب بھی کلیۃً فقہ حنفی کے خلاف نہ تھے، اُن کا موقف یہ تھا کہ جہاں تک حدیث سے براہِ راست مسئلہ لے سکیں، فقہ کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور جومسائل حدیث میں نہ مل سکیں ان میں فقہ حنفی پراعتماد کرلیا جائے، فتاوےٰ نذیریہ میں میاں صاحب کی یہی روش کارفرما رہی ہے اور جگہ جگہ فقہ حنفی سے استناد کیا گیا ہے۔