انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کچھ مزید تفصیل برزخ کا لفظ قرآن شریف میں تین دفعہ استعمال ہوا ہے اور ہرجگہ اس سے مراد دو چیزوں کے درمیان کا پردہ ہے،حاجب اورحائل ہے چنانچہ سورۂ رحمن میں دودریاؤں کا ذکر ہے،جن میں ایک میٹھا اور دوسرا کھارا ہے اور ان کے بیچ میں ایک پردہ حائل ہے جو ان کو آپس میں ملنے نہیں دیتا: "بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ"۔ (الرحمن:۲۰) اُن دونوں کے درمیان میں ایک حجاب ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اسی عجیب وغریب بحری منظر کا ذکر سورۂ فرقان میں ہے اور وہاں بھی یہی لفظ ہے: "وَہُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ"۔ (الفرقان:۵۳) اور وہ ایسا ہے جس نے دودریاؤں کو ملایا جن میں ایک تو شیرین تسکین بخش ہے اور ایک شور تلخ ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اسی بناء پر موجودہ زندگی اوراگلی زندگی کے درمیان جو مقام حائل ہے، اس کا نام (برزخ)رکھا گیا ہے جیساکہ سورۂ (مؤمنون) میں ہے: "وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ"۔ (المؤمنون:۱۰۰) اوران لوگوں کے آگے ایک آڑ ہے قیامت کے دن تک۔ (ترجمہ تھانویؒ) عالم برزخ یعنی قبر کی زندگی اوراس کے احوال سمجھنے کے لیے پہلے چند اصول جو حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں ذہن نشین کرلینا چاہئے؛ تاکہ عالم برزخ کے مضامین سے متعلق وہ وساوس اور شبہات پیدا نہ ہوں جو حقیقت ناشناسی کی وجہ سے بہت سے دلوں میں اس زمانے میں پیدا ہوتے ہیں۔