انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح خیبر(ہجرت کا ساتواں سال) صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی طرف سے اطمینان حاصل ہوگیا تھا لیکن مدینے آکر معلوم ہوا کہ خیبر کے علاقہ میں مسلمانوں کی بیخ کنی اور مدینہ پر حملہ آوری کے سامان مکمل ہورہے ہیں،مدینہ سے بنو نضیر اوربنو قریظہ جلا وطن ہو ہوکر خیبر ہی میں اقامت گزیں ہوئے تھے ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کی عداوت ودشمنی کے آتش کدےشعلہ زن تھے انھوں نے خیبر کےیہودیوں کو بھی مسلمانوں کی عداوت پر بہت جلد مستعد وآمادہ کرلیا، مکہ کے بعد اب مسلمانوں کی مخالفت وعداوت کا سب سے بڑا مرکز خیبر تھا،یہود کے تقریباً تمام طاقتور قبائل کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرنے میں مصروف رہے،اب انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے اور استیصال کی جنگی تیاریاں شروع کردی تھیں،عرب کے قبیلۂ غطفان کو انھوں نے اس شرط پر اپنا شریک بنایا کہ مدینے کی نصف پیداوار تم کو دی جائے گی۔ یہودیوں کی جنگ تیاریاں معمولی نہ تھیں ؛بلکہ ان کا دائرہ نہایت وسیع اوراُن کی ریشہ دوانیاں نہایت خطرناک تھیں؛چنانچہ انہوں نے مدینے کے منافقین کو بھی اپنا شریک کار بنالیا تھا،ان منافق جاسوسوں کے ذریعے وہ خیبر میں دُور کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی ایک ایک حرکت سے باخبر رہتے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی ان تیاریوں کا حال سن کر محرم ۷ ھ میں پندرہ سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ جن میں دو سو سوار تھے مدینہ سے خیبر کی جانب کوچ فرمایا اورمدینے میں حضرت سباع بن عرفطہؓ کو عامل بناکر چھوڑا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے قریب پہنچ کر خیبر اوربنی غطفان کے درمیان مقام رجیع کو لشکر گاہ تجویز فرمایا،بنی غطفان کو یہ خوف ہوا کہ مسلمان ہماری بستیوں پر حملہ آور ہوں گے ،اس لئے وہ اپنے ہی گھروں میں مدافعت اورمقابلے کے لئے موجود رہے،خیبر کے یہودیوں کی مدد کو نہ جاسکے۔ خیبر کے علاقہ میں یہودیوں کے پاس ایک دوسرے کے قریب قریب چھ زبردست قلعے تھے،یہودیوں نے اسلامی لشکر کے پہنچنے پر میدان میں نکل کر مبارزطلبی کی،ان میں مرحب اوریاسر دو بہت بڑے بہادر اورپیل تن جنگ جو تھے،انہوں نے جب میدان میں نکل کر اپنا حریف طلب کیا تو مسلمانوں کی طرف سے محمد بن مسلمہ اور زبیر بن العوامؓ نکلے،محمدبن مسلمہ نے مرحب کو اور زبیر بن العوامؓ نے یاسر کو قتل کیا،بعض روایات میں مرحب کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے مقتول ہونا بیان کیا گیا ہے۔ میدانِ جنگ میں یہودیوں نے مسلمانوں کا مقابلہ دشوار سمجھا تو انہوں نے قلعہ بند ہوجانا مناسب سمجھا،ان قلعوں میں صعب بن معاذ کا قلعہ سب سے زیادہ مضبوط اورایسے موقع پر واقع تھا کہ اُس سے دوسرے تمام قلعوں کو مدد پہنچتی تھی،لشکرِ اسلام نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیااور سخت کوشش ومقابلے کے بعد ناعم پر قبضہ کرلیا اس قلعہ پر حملہ کرتے وقت حضرت محمد بن مسلمہؓ پر قلعہ والوں نے اُوپر سے پتھر کی ایک چکی ڈال دی جس سے وہ شہید ہوگئے، اس کے بعد ابی الحقیق یہودی کے قلعہ قموس پر حملہ ہوا،یہ قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا،اسی قلعہ میں سے صفیہ بنت حیی بن اخطب اور دوسرے بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے،صفیہ بنت حیی کی شادی کنانہ بن الربیع بن ابی الحقیق سے ہوئی تھی ،بعد گرفتاری وہ حضرت دحیہؓ کے حصے میں آئی تھیں،اُن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزاد کردیا،پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں،قموص کے بعد صعب بن معاذ کا قلعہ مفتوح ہوا،اُس کے بعد خیبر کا چوتھا قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ آخر میں وطیح اورسلالم دوقلعے باقی رہ گئے،ان دونوں کا دس روز تک مسلمانوں نے محاصرہ کیا،محصور یہودی جب محاصرہ کی شدت سے تنگ آگئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم کو نصف پیدا وار بطور مال گذاری لینے کی شرط پر اگر ہماری زمینوں پر قابض رکھا جائے تو ہم اطاعت قبول کرتے ہیں؛چنانچہ ان یہودیوں کو زراعت اورباغات کی نصف پیدا وار کے اخراج پر بطور رعایا اُن کی املاک واراضیات پر قابض اورآباد رہنے دیا گیا جو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر عہدِ خلافت تک خیبر میں آباد رہے۔ خیبر کی اس جنگ میں پندرہ مسلمان شہید ہوئے،چار مہاجرین میں سے گیارہ انصار میں سے اور ۹۲ یہودی مارے گئے،اسی جنگ میں حماراہلی کے گوشت کو مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا گیا،اسی جنگ میں متعہ کو ہمیشہ کے لئے حرا م کیا گیا،یہودیوں کے ایک سردار سلام بن مستکم کی بیوی زینب بنت الحرث نے ایک سالم بکری بُھنی ہوئی زہر آلود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت بشر بن البراء بن معرور نے اُس کو کھانا شروع کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چکھتے ہی تھوک دیا اورفرمایا کہ مجھ کو اس بکری کی ہڈیاں خبردیتی ہیں کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے،مگر حضرت بشرؓ اُس کے گوشت میں سے کچھ چبا کر نگل چکے تھے؛چنانچہ وہ اُسی وقت شہید ہوگئے،زینب یہودہ کو بلوایا گیا اُس نے زہر ملانے کا اقرار کیا اور وہ وارثانِ بشرؓ کے حوالے کی گئی مگر انہوں اس لئے اس کوقتل نہ کیا کہ وہ مسلمان ہوگئی تھی ،ابھی خیبر سے مدینہ کی طرف واپسی کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ ملکِ حبش سے واپس آنے والے مہاجرین کا قافلہ معہ شاہِ حبش کے خط اورہدایہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس قافلے میں حضرت جعفر بن ابی طالب،اُن کی بیوی اسماء بنت عمیص،ان کے لڑکے عبداللہؓ ،عونؓ، محمدؓ اورحضرت خالدؓ بن سعید بن العاص بن امیہ،ان کی بیوی امینہ بنت خلفاء اوراُن کے لڑکے سعیدؓ اورحضرت ام خالدؓ،حضرت عمروبن سعیدؓ،حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ،جہم بن قیسؓ،حرث بن خالدؓ،محینہ بن فدارؓ،معمرؓ بن عبداللہ،ابوحاطبؓ بن عمرو،ملک بن ربیعہ بن قیسؓ اور عمرو بن اُمیہ ضمریؓ جو ان لوگوں کو لینے کے لئے گئے تھے شامل تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مومنین سے مل کر بہت مسرور ہوئے، خیبر سے واپسی میں فدک ایک مقام تھا جو خیبر سے زیادہ دُور نہ تھا،فدک کے یہودیوں نے خود پیغام بھیجا کہ ہم کو صرف ہماری جانوں کی امان دی جائے،مال واسباب سے ہم کو سروکار نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی اس درخواست کو منظور فرمالیا؛چنانچہ فدک پر حملہ نہیں کیا گیا اورنہ اس پر کسی سوار وپیادے کو تلوار یا نیزہ چلانے کا موقع ملا تھا لہذا بلا تقسیم جیسا کہ خدائے تعالیٰ کا حکم تھا خدا اوررسول کا مال سمجھا گیا اورملکیت بیت المال قرار دیا گیا،وہاں سے روانہ ہو کر وادی القریٰ کی طرف لشکرِ اسلام آیا تو وہاں کے یہودیوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی شروع کی؛چنانچہ ان کا بھی محاصرہ کیا گیا اورآخر انہوں نے بھی نصف بٹائی پر جیسا کہ خیبر والوں نے اطاعت قبول کی تھی،اطاعت قبول کرلی،وادی بقریٰ میں صرف ایک صحابی حضرت مدعم ؓ شہید ہوئے،وادی القریٰ کے قریب تیما یہودیوں کا ایک مقام تھا انہوں نے بھی وادی القریٰ والوں کی طرح اطاعت قبول کرلی۔