انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** گیارہویں شہادت "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔ (النساء:۱۱۵) ترجمہ :اورجو شخص اس رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ حق اس پر واضح ہوچکا اوروہ مسلمانوں کی راہ چھوڑ کر کسی اورطرف ہوں تو ہم (دنیا میں) اسے جانے دیں گے جدھر وہ مڑا اور(آخرت میں) اسے جہنم پہنچائیں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے میں۔ یہاں پر رسول کے حکم کی ایک عملی راہ بتائی ہے، وہ کیا؟ جس پر صحابہ کرامؓ چل نکلے، تعلیم رسول عملی تشکیل پاگئی، جو شخص اس عملی تشکیل کے خلاف چلے گا، وہ رسول کی مخالفت کامجرم ٹھہرے گا اورآخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے،جب صحابہؓ کی راہ کے خلاف چلنا مخالفت رسول ہے،تو خود حضورﷺ کے حکم کو نہ ماننا کس درجے کی مخالفت رسول ہوگا، یہ آپ سوچیں،حضورﷺ کی ہر ہر بات مسلمانوں کے لیے واجب التسلیم ہے، کسی ایک بات کا انکار بھی مخالفت رسول کو مستلزم ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ اس آیت پر لکھتے ہیں: جب کسی کو حق بات واضح ہوچکے اس کے بعد بھی حکم رسول کی مخالفت کرے اورسب مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جُدی راہ اختیار کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی کی مخالفت کا ذکر نہیں،حضورﷺ کی مخالفت کا بیان ہے اور اسے اتباع غیر سبیل المومنین کے مقابل ذکر کیا ہے،معلوم ہوا یہاں مخالفت سے مراد آپ کے راستے کی اتباع چھوڑنا ہے اورآپ کی مخالفت خود اللہ رب العزت کی مخالفت ہوگی، سبیل مومنین کو اس لیے حجت ٹھہرایا ہے کہ یہ حضرات خود عمل رسالت کے گواہ تھے اور ذات رسالت خود ان کے لیے رضائے الہٰی کا نشان تھی۔ یہی مضمون اس آیت میں مذکور ہے: "وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا"۔ (البقرۃ:۱۴۳) ترجمہ: اورہم نے تمہیں ایسی جماعت بنادیا ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پرہے؛ تاکہ تم لوگوں پرحق کے گواہ رہو اورتمہارے لیے یہ رسول حق کے گواہ ہوں۔