انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمروؓ بن سعید بن العاص الاکبر نام ونسب عمرونام، ابو عقبہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے ،عمروبن سعید العاص بن امیہ بن عبد شمس القرشی الاموی، ماں کا نام صفیہ تھا، قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں،حضرت عمروؓ خالد بن ولیدؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ (اسد الغابہ:۴/۱۰۶) اسلام وہجرت ان کے گھر میں سب سے پہلے ان کے بھائی خالد بن سعید مشرف باسلام ہوئے،(اسد الغابہ:۴/۱۰۶) ان کے کچھ دنوں کے بعد عمرودائرۂ اسلام میں داخل ہوئے،تیسرے بھائی ابان نے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، دونوں بھائیوں کے اسلام پر اشعار میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا اس کا ایک شعر یہ ہے۔ الا لیت میتا بانظر یبۃ شاھد لما یفتری فی الدین عمرووخالد ان تینوں کے والد مقام ظریبہ میں دفن تھے،ان کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ کاش ظریبہ کا مرنے والا دیکھتا کہ عمرو اور خالد نے دین میں کیا افترا پر درازی کی ہے۔ حضرت عمروؓ نے بھی اس کا جواب نظم میں دیا، جس کا آخری شعریہ ہے۔ فدع عنک میتا قد مضی بسیلہ واقبل علی الحق الذی ھواظھر اب اس مرنے والے کا تذکرہ چھوڑدو جو اپنا راستہ لے چکا اوراس حق کی طرف آؤ جس کا حق ہونا بالکل عیاں ہے۔ عمروبن سعید نے اپنے بھائی خالد کی ہجرت کے دوسال بعد ہجرت ثانیہ میں مع اپنی بیوی فاطمہ کے حبشہ کی طرف ہجرت کی اوروہاں سے مسلمانوں کے قافلہ کے ساتھ کشتی کے ذریعہ سے غزوۂ خیبر کے دوران میں مدینہ آئے۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۷۳) غزوات مدینہ آنے کے بعد فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک وغیرہ تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے۔ (استیعاب:۲/۴۴۱) امارت آنحضرتﷺ نے ان کو مدینہ کے مغربی مقامات تبوک ،خیبر اورفدک وغیرہ کا عامل مقرر کیا،(استیعاب:۴۲۲) جہاں وہ حیات نبویﷺ تک اپنے خدمات نہایت جانفشانی سےانجام دیتے رہے،آنحضرتﷺ کی خبروفات سن کر وہاں سے واپس ہوئے واپسی کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ تم سے زیادہ امارت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی؛لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔ (استیعاب:۱/۱۵۵) فتوحات شام اور وفات امارت سے واپسی کے کچھ ہی دنوں بعد شام پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئی،عمروؓ بھی اس میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور۱۳ھ میں اجنادین کے معرکہ میں نہایت جوش وخروش سے لڑے،جب مسلمانوں کے پیروں میں ذرا بھی لغزش ہوتی یہ للکارکرثبات واستقلال پرآمادہ کرتے،ایک مرتبہ جوش میں آکر کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کا میدان جنگ میں پلہ کمزور نہیں دیکھ سکتا،اب میں خود گھستا ہوں یہ کہہ کر دشمنوں کے قلب میں گھستے ہوئے چلے گئے اوربڑی بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے،شہادت کے بعد دیکھا گیا تو سارا بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، شمار کرنے پر تیس سے زیادہ زخم جسم پر نکلے۔ (واقعہ کی تفصیل اصابہ :۴/۳۰۱،سے ماخوذ ہے لیکن شہادت کا تذکرہ فتوح البلدان بلاذری فتح اغبادین میں ہے)