انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث قبول کرنے میں امام اعظم ؒ کی شرائط امام اعظم علیہ الرحمہ کی پیدائش کوفہ شہر میں ہوئی اور وہیں آپ کی پرورش ہوئی، کوفہ اس زمانہ میں حدیث وفقہ کا مرکز تھا، امام اعظم علیہ الرحمہ میں اللہ رب العزت نے علم وعمل کی تمام خوبیاں جمع کررکھی تھیں، امام صاحب میدان علم کے شہسوار تھے، مسائل فقہ میں ان کا بلند مقام اور احادیث میں ان کی بصیرت غیرمعمولی تھی؛ لیکن بعض اہل ہوا اور کوتاہ بین حضرات نے فن حدیث میں امام صاحبؒ پر نکتہ چینی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کچھ بے لگام لوگوں نے تویہاں تک کہہ دیا کہ امام صاحب کوصرف سترہ حدیثیں یاد تھیں یہی وجہ ہے کہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کم ہے۱؎۔ یہ بات توصحیح ہے کہ امام صاحبؒ کی روایت دوسرے محدثین کے مقابلے میں کم ہے؛ لیکن اس کی اصل اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے دوسرے محدثین کی طرح بے تحاشہ روایت بیان نہیں کی اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے؛ اگرمنصفانہ نگاہ اکابر صحابہؓ پر ڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ اکابر صحابہؓ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی روایت حدیث میں بہت زیادہ محتاط تھے ان سے بھی بہت کم حدیثیں روایت کی گئی ہیں؛ اگر ان کے کم روایت بیان کرنے کے اسباب کا پتہ لگایا جائے توان میں یہ سبب بہت ہی نمایاں ہے کہ انھوں نے قبول حدیث کے سلسلے میں احتیاط کی خاطر سخت شرائط وضع کئے تھے، امام صاحبؒ بھی اسی مکتبِ فکر کے پیروکار تھے۲؎، آپ نے بھی قبولیت حدیث کے لیے اپنے گردوپیش کے حالات اور مختلف فتنوں کے پیشِ نظر سخت شرائط وضع کئے تھے؛ مگران قواعد پر اگرعمیق نظر ڈالی جائے توامام صاحب کی اصابت فکر اور گہری نظر اور زمانہ شناسی کا صاف پتہ چلتا ہے۔ یہ شروط اور قواعد اگرچہ آپ نے باقاعدہ لکھا نہیں تھا؛ لیکن آپ کے شاگردوں نے آپ کے بیان کردہ مسائل سے انھیں مستنبط کیا ہے، جس قدر قواعد تلاش وجستجو سے معلوم ہوسکے، انھیں ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۳؎: v امام صاحب قبولیت حدیث کے لیے ضبط کتاب کے بجائے ضبط صدر کے قائل تھے اور صرف اسی راوی سے حدیث لیتے تھے جو اس روایت کوزبانی اپنے حافظہ سے بیان کرتا ہو۴؎۔ v آپؒ صحابہؓ اور فقہاء تابعین کے علاوہ اور کسی کی روایت بالمعنی کوقبول نہیں کرتے تھے، جب کہ آپ کے دور میں روایت بالمعنی کا رواج ہوچکا تھا۵؎۔ v آپ اس بات کو ضروری قرار دیتے تھے کہ صحابہ کرامؓ سے روایت کرنے والے ایک یادونہ ہوں بلکہ اتقیاء کی ایک جماعت نے صحابہؓ سے اس حدیث کوروایت کیا ہو، جوحدیث اس معیار پر نہ اترتی آپ اسے قبول نہیں کرتے تھے۶؎۔ v معمولاتِ زندگی سے متعلق عام احکام میں آپ یہ ضروری قرار دیتے تھے کہ ان احکام کوایک سے زیادہ صحابہؓ نے بیان کیا ہو۷؎۔ v جوحدیث عقل قطعی کے مخالف ہو (یعنی اس سے اسلام کے کسی مسلمہ اصول کی مخالفت لازم آتی ہو) اسے آپ قبول نہیں کرتے تھے۸؎۔ v خبرِواحد سے قرآن کریم پر زیادتی یااس کے عموم کوخاص کرنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے، ایسی روایت کی بہرصورت تاویل یااس کا صحیح درجہ متعین کرنے کے بعد ہی عمل کرتے تھے۹؎۔ v جوخبرِواحد قرآن کے نص صریح کے مخالف ہوتی وہ بھی آپ قبول نہیں کرتے تھے۱۰؎۔ v جوخبرِواحد سنت مشہورہ کے خٌلاف ہوتی وہ بھی آپ قبول نہیں کرتے تھے۱۱؎۔ v اگرراوی کا عمل اس کی روایت کے خلاف ہوتا تووہ روایت بھی آپ کے یہاں قابل قبول نہ ہوتی تھی۱۲؎۔ v جب ایک مسئلہ میں مبیح اور محرم دوروایتیں ہوتیں توآپ محرم کے مقابلہ میں مبیح کوقبول نہیں کرتے تھے۱۳؎۔ v ایک ہی واقعہ کے بارے میں اگر ایک راوی کسی امرزائد کی نفی کرے اور دوسرا اثبات کرے تواگرنفی کسی دلیل پر مبنی نہ ہوتی تونفی کی روایت قبول نہیں کرتے۱۴؎۔ v اگرایک حدیث میں کوئی حکم عام ہو اور دوسری حدیث میں چند خاص چیزوں پر اس کے برخلاف حکم ہو تو آپ حکمِ عام کے مقابلہ میں خاص کوقبول نہیں کرتے۱۵؎۔ v خبرِواحد سے حضورﷺ کا کوئی قول یافعل ثابت ہو اور صحابہؓ کی ایک معتدبہ جماعت نے اس سے اختلاف کیا ہو توآثارِ صحابہؓ پر عمل کیا جائے گا؛ کیونکہ اس صورت میں یاتووہ حدیث صحیح نہیں ہے یاوہ منسوخ ہوچکی ہے؛ ورنہ حضورﷺ کے صحیح اور صریح فرمان کے ہوتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی جماعت اس کی کبھی مخالفت نہ کرتی۱۶؎۔ v حضورﷺ کے صریح قول یافعل کے خلاف اگرکسی ایک صحابی کاقول یافعل ہوتو وہ مقبول نہیں، صحابی کے خلاف کواس پر محمول کیا جائے گا کہاانہیں یہ حدیث نہیں پہونچی۱۷؎۔ v ایک واقعہ کے مشاہدہ کے بارے میں متعارض روایات ہوں تواس کی روایت کوقبول کیا جائے گا جوان میں زیادہ قریب سے مشاہدہ کرنے والا ہو۱۸؎۔ v اگردومتعارض حدیثیں ایسی سندوں کے ساتھ مروی ہوں کہ ایک میں قلت وسائط ہوں اور دوسری میں کثرت تفقہ؛ توکثرت تفقہ کوقلت وسائط پر ترجیح دی جائے گی۱۹؎۔ v کوئی حدیث حد یاکفارہ کے بیان میں وارد ہوئی ہو اور وہ صرف ایک صحابی سے مروی ہو توقبول نہیں ہوگی؛ کیونکہ حدود اور کفارات شبہات سے ساقط ہوجاتے ہیں۲۰؎۔ v جس حدیث پر اسلاف نے طعن کیا ہو وہ بھی مقبول نہیں ہے۲۱؎۔ ان شرائط پر اگرسرسری نظر بھی ڈالی جائے تویہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کوحدیث پاک میں غیرمعمولی درک عطا فرمایا تھا؛ بلکہ آپ ان حضرات کے زمرے میں داخل ہیں جوحدیث کے جرح وتعدیل کے سرخیل اور اس میں بلند مقام رکھتے ہیں، خود آپ کے اقوال سے فن جرح وتعدیل کے امام بھی استدلال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، حافظ ابن حجر اور علامہ ذہبی کی اسماء الرجال پر لکھی ہوئی کتابیں اس پر شاہد عدل ہیں۔ (۱)مستدلات الامام ابی حنیفہؒ:۲۸۔ (۲)تذکرۃ النعمان:۲۹۸۔ (۳)تذکرۃ المحدثین:۸۸۔ (۴)امام اعظم امام المحدثین:۳۸۔ (۵)تذکرۃ المحدثین:۸۸۔ (۶)امام اعظم امام المحدثین:۳۸۔ (۷)تذکرۃ المحدثین:۸۸۔ (۸)امام اعظم امام المحدثین:۳۸۔ (۹)تذکرۃ المحدثین:۸۹۔ (۱۰)الکفایہ فی علوم الروایہ:۲۷۶۔ (۱۱)الاحکام فی اصول الاحکام:۱/۹۵۔ (۱۲)امام اعظم اور علم حدیث:۹۵۔ (۱۳)امام اعظم امام المحدثین:۳۹۔ (۱۴)حسامی:۶۷۔ (۱۵)تذکرۃ المحدثین:۸۹۔ (۱۶)الاحکام فی اصول الاحکام:۱/۱۱۷۔ (۱۷)تذکرۃ المحدثین:۸۹۔ (۱۸)تذکرۃ المحدثین:۹۰۔ (۱۹)تذکرۃ المحدثین:۹۰۔ (۲۰)تذکرۃ المحدثین:۹۰۔ (۲۱)تذکرۃ المحدثین:۹۰۔