انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگِ نہاوند فتح مدائن وجلولاء کے بعد یزد جرد مقام رے میں جاکر مقیم ہوا تھا،وہاں کے مرزبان مسمی آبان جادویہ نے یزدوجرد کے قیام کو اپنی حکومت واختیار کے منافی دیکھ کر بے وفائی کے علامات کا اظہار کیا اوریزد جرد رے کو اپنی حکومت واختیار کے منافی دیکھ کر بے وفائی کے علامات کا اظہار کیا اور یزد جرد رے سے روانہ ہوکر اصفہان چلا گیا،اصفہان کے چند روزہ قیام کے بعد کرمان کی طرف آیا،وہاں سے پھر واپس اصفہان میں جب مسلمانوں نے صوبہ اہواز پر تصرف کیا،تویزد جرد مشرقی ایران یعنی خراسان کے شہر مرو میں آکر مقیم ہوا، یہاں اس نے ایک آتش کدہ بنوایا اوراطمینان کے ساتھ رہنے لگا ،اس کاخیال تھا کہ اہل عرب اب آگے نہیں بڑھیں گے اور سرحدی مقامات تک ان کی فتوحات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا،لیکن اہواز کے تمام وکمال مسلمانوں کے قبضے میں چلے جانے اورہرمزان کے گرفتار ہوکر مدینے چلے جانے کی خبر سُن کر اُس کو طیش آیا اوروہ پھر ایک مرتبہ پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کے استیصال کی غرض سے فوجوں کے فراہم کرنے میں مصروف ہوا،اُس نے اطراف وجوانب کے اُمرا کو خطوط لکھے اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے غیرتیں دلا کر آمادہ ومستعد بنایا۔ چنانچہ یزد جزد کی ان کوششوں کے نتیجے میں یکا یک طبرستان، جرجان، خراسان ،اصفہان ، ہمدان،سندھ وغیرہ ملکوں اورصوبوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت جوش اور مستعدی پیدا ہوئی اور جوق در جوق لشکری لوگ یزد جرد کی خدمت میں آ آ کر جمع ہونے لگے،یزد جرد نے فیروز اور بقول دیگر مردان شاہ کو سپہ سالار بناکر ڈیڑھ لاکھ لشکر جرار کے ساتھ نہاوند کی طرف روانہ کیا یہاں یہ ڈیڑھ لاکھ کا لشکر جمع ہو رہا تھا وہاں مدینہ منورہ میں فاروق اعظمؓ بلاد ایران مین پیش قدمی کی اجازت مسلمانوں کو دے چکے تھے،انہیں ایا م میں مدینے کے اندر خبر پہنچی کہ ڈیڑھ لاکھ کا لشکر نہاوند میں ایرانیوں کا جمع ہوگیا ہے،فاروق اعظمؓ نے اس لشکر کے مقابلے کے لئے خود جانے کا ارادہ کیا ،لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ،حضرت عثمان غنیؓ اورحضرت طلحہؓ نے فاروق اعظمؓ کے جانے کومناسب نہ سمجھ کر اس رائے سے اختلاف کیا، فاروق اعظمؓ نے ان بزرگوں کی رائے کو منظور کرکے کوفہ کی افواج کا سپہ سالار نعمان بن مقرنؓ کو مقرر کرکے حکم دیا کہ کوفہ کے قریب کسی چشمہ پر جاکر قیام کرو،ان ایام میں حضرت سعد بن وقاصؓ کو فاروق اعظمؓ نے مدینہ منورہ میں اپنے پاس بلوایا تھا،وہ فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر تھے،ان سے دریافت کیا گیا،کہ تم کوفہ میں کس کو اپنا قائم مقام بنا کر آئے ہو،انہوں نے عرض کیا،کہ عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو،فاروق اعظمؓ نے عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو لکھ کر بھیجا، کہ کوفہ کی افواج کو نعمان بن مقرن کے ساتھ روانہ کردو، اورفلاں چشمہ پر نعمان بن مقرن کے پاس بھیج دو، انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی، حذیفہ بن الیمانؓ اورنعیم بن مقرن کے ہمراہ فوج مرتب کرکے روانہ کردی، ساتھ ہی اہواز کی مقیم افواج کو لکھ بھیجا،کہ فارس واصفہان کی ناکہ بندی کرو،تاکہ اہل نہاوند کو ایرانی امداد نہ پہنچا سکیں،نعمان بن مقرن کے پاس جب فوجیں جمع ہوگئیں،تو انہوں نے اپنے بھائی نعیم بن مقرن کو مقدمۃ الجیش کا افسر مقرر کیا ،میمنہ حذیفہ بن الیمان کو دیا،میسرہ سوید بن مقرن کے سپرد کیا،پیادہ فوج پر قعقاعؓ کو اورساقہ پر مجاشع بن مسعود کو متعین ومامور کیا،اس تمام اسلامی لشکر کی تعداد تیس ہزار تھی کوفہ سے روانہ ہوکر یہ لشکر نہاوند کی طرف برابر بڑھتا چلا گیا، اوروہاں سے نومیل کے فاصلہ پر قیام کیا،ادھر سے ایرانی لشکر بھی جس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی میدان میں نکل آیا۔ چہارشنبہ کے روز لڑائی شروع ہوکر جمعرات تک جاری رہی اور کوئی فیصلہ فتح وشکست کا نہ ہوسکا، جمعہ کے روز سے ایرانی پھر شہر اور شہر پناہ کے اندر چلے گئے،انہوں نے شہر کے باہر لوہے کے گوکھر و بچھارکھے تھے جن کی وجہ سے اسلامی لشکر شہر کی فصیل کے قریب بھی نہیں جاسکتا تھا، اورایرانی جب چاہتے دروازوں سے نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے یہ رنگ دیکھ کر نعمانؓ نے سرداران لشکر کو اپنے خیمے میں بغرض مشورہ طلب کیا اور ہر ایک سے لڑائی کے متعلق رائے لی گئی، حضرت طلیحہ بن خالد کی رائے سب کو پسند آئی اوراسی کے موافق اسلامی فوج مرتب ومسلح ہوکر چھ سات میل شہر سے پیچھے ہٹ کر مقیم ہوئی اورقعقاع تھوڑی سی فوج لے کر شہر والوں پر حملہ آور ہوئے،ایرانی اسی تھوڑی سی فوج کو حملہ آور دیکھ کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ مقابلہ کو نکلے،حضرت قعقاع نے ایرانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا،ایرانی فتح کی خوشی میں اُن کی جمعیت کو دباتے ہوئے آگے کو بڑھتے چلے آئے،یہاں تک کہ اپنی خندقوں وغیرہ سے بہت فاصلہ پر آکر اسلامی تازہ دم فوج کی زد پر آگئے،نعمان بن مقرن اوراُن کے ساتھ تمام اسلامی لشکر نے نعرۂ تکبیر کے ساتھ یکایک حملہ کیا ،توایرانی لشکر نہایت بے سروسامانی کے ساتھ بھاگا،مسلمانوں نے ان کو بے دریغ قتل کرنا شروع کیا،عین معرکۂ قتال کی شدت کے عالم میں حضرت نعمان بن مقرن زخمی ہوکر گھوڑے سے گرے،اُن کے بھائی نعیم بن مقرن نے فوراً اپنے بھائی کے کپڑے پہن کر علم ہاتھوں میں لے لیا اورلشکر والوں کو آخر تک اپنے سپہ سالار کے شہید ہونے کا حال معلوم نہ ہوا،ایرانی لشکر جو میدان سے سراسیمہ ہوکر بھاگا،ان گو گھروں سے جو مسلمانوں کے لئے بچھائے تھےاپنے آپ کو نہ بچا سکا، اورخود اُن گوکھروں میں مبتلا ہوکر ہزاروں ایرانی ہلاک ہوئے،ایرانی سردار نہاوند سے بھاگے،اورتمام بھگوڑے ہمدان میں آکر جمع ہوئے،نعیمؓ وقعقاع نے اُن فراریوں کا پاشنہ کوب پہنچ کر ہمدان کا محاصرہ کرلیا اوربآسانی ہمدان پر اسلامی قبضہ ہوگیا، حضرت نعمان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمانؓ لشکر اسلام کے سپہ سالار مقرر ہوئے تھے،انہوں نے نہاوند پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا یہاں کے آتش کدے کو بجھایا۔ ایک موبد نے خود حضرت حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیش قیمت جواہرات کا ایک صندوقچہ جو اُس کے پاس شاہی امانت کے طور پررکھا تھا پیش کیا، حضرت حذیفہؓ نے مال غنیمت لشکر میں تقسیم کیا اورخمس کے ساتھ وہ جواہرات کا صندوقچہ بھی فاروق اعظمؓ کی خدمت میں سائب بن الافرع کے ہاتھ روانہ کیا،فاروق اعظمؓ کو چند روز سے کوئی خبر جنگ کی نہیں پہنچی تھی،وہ بہت پریشان تھے کہ سائب ؓ بن الاقرع خمس معہ جواہرات اورفتح کی خوش خبری لے کر پہنچے،فاروق اعظمؓ بہت خوش ہوئے جواہرات کو بیت المال میں داخل کراکر سائب ؓ کو واپس جانے کا حکم دیا،سائب کوفہ میں داخل ہی ہوئے تھے کہ فاروق اعظمؓ کا فرستادہ قاصد بھی ان کے پیچھے کوفہ میں داخل ہوا اور سائب کو پھر مدینہ کی طرف لوٹا کر لے گیا،فاروق اعظمؓ نے فرمایا،میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ فرشتے ان جواہرات کے رکھ لینے پر مجھے عذاب کی دھمکی دیتے ہیں،لہذا میں ان کو بیت االمال میں ہرگز نہ رکھوں گا،تم ان جواہرات کو لے جاؤ اورفروخت کرکے ان کی قیمت لشکر اسلام پر تقسیم کردو،سائب نے کوفہ میں ان جواہرات کو عمرو بن حریث مخزومی کے ہاتھ دو لاکھ درہم پر فروخت کیا اور دو لاکھ درہم مسلمانوں میں تقسیم کردئے،عمرو بن حریث نے ان جواہرات کو فارس میں لے جا کر چار لاکھ درہم کو فروخت کردیا، فاروق اعظمؓ کا قاتل ابو لولو نہاوند کا باشندہ تھا،اور اسی لڑائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔