انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کتاب الآثار __________ ایک تعارف امام الائمہ، سراج الامت نعمان بن ثابت قدس سرہٗ (امام ابوحنیفہؒ)تمام فقہاء،مجتہدین اور ماہرینِ حدیث کے امام، عابدوں کے رہنما، زاہدوں کے قافلہ سالار، صوفیوں کے پیشوا ہیں؛ الغرض نبوت وصحابیت کے بعد ایک انسان میں جس قدر محاسن اورفضائل ہوسکتے ہیں وہ ان سب کے جامع بلکہ ان اوصاف میں سب کے لیے ہادی اور مقتدی تھے۔ امام صاحب کوبعض حضرات احادیث نبویہ سے نآشنا اور تہی دامن سمجھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مخالفین نے آپ کے سلسلہ میں بغور مطالعہ نہیں فرمایا اور سنی سنائی باتوں پر اکتفاء کرلیا اور اسی بنیاد پر لوگوں نے کچھ سے کچھ لکھ دیا، جس سے لوگوں میں یہ تشہیر ہوگئی کہ آپ علیہ الرحمہ فن حدیث سے ناواقف تھے اور اس میں کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی حالانکہ امام صاحب علیہ الرحمہ کوبعض ایسے امتیازات حاصل ہیں، جن میں مؤلفین حدیث میں سے کوئی بڑے سے بڑا صاحب فن ان کا شریک وہمسر نہیں ہے۱؎۔ امام صاحبؒ کی طرف حدیث کی کئی کتابیں منسوب ہیں، مثلاً: (۱)کتاب الآثار (۲)مسندامام ابی حنیفہؒ (۳)اربعینات امام ابی حنیفہؒ (۴)وحدانیات امام ابی حنیفہؒ، ان میں سے اوّل الذکر "کتاب الآثار" جوبلاشک وشبہ آپ کی تصنیف کردہ ہے؛ مگربہت سے حضرات نے اس کتاب کو ان لوگوں کی تصنیف قرار دے دیا ہے جواس کتاب کے رواۃ میں سے ہیں جوصحیح نہیں ہے؛ البتہ اس کے علاوہ باقی تینوں کتابیں آپ علیہ الرحمہ کی تصنیف کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں نے ان میں امام صاحب علیہ الرحمہ کی روایت حدیث کوموضوع کے لحاظ سے جمع کیا ہے۲؎۔ (۱)علم الحدیث:۳۸۳۔ (۲)قلائد الازھار:۲۔ جامعین کتاب الآثار کتاب الآثار کوامام صاحب علیہ الرحمہ سے آپ کے مختلف تلامذہ نے مختلف دور میں روایت کیا ہے، جونسخے دنیا میں رائج ہیں اورجوتحقیق وتفتیش کے بعد معلوم ہوئے ہیں ان کویہاں پر ذکر کیا جاتا ہے، ان کے علاوہ بھی کئی ایسے نسخے ہیں جومعلوم نہ ہوسکے ہیں، جومعلوم ہوسکے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: (۱)کتاب الآثار بروایت امام محمدؒ (۲)کتاب الآثار بروایت امام ابی یوسفؒ (۳)کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد لؤلویؒ (۴)کتاب الآثار بروایت حماد بن امام ابی حنیفہؒ (۵)کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاثؒ، یہ نسخہ زیادہ مشہور نہیں ہے (۶)کتاب الآثار بروایت محمد بن خالد وہبیؒ جوکہ "مسنداحمد بن محمد کلاعی" کے نام سے مشہور ہے (۷)کتاب الآثار بروایت امام زفرؒ جو کہ "سنن زفر" کے نام سے بھی معروف ہے۳؎۔ (۳)مسانید الامام:۷۶۔ قلائد الازھار:۳۔ ترتیب وتبویب اس کتاب "کتاب الآثار" کی ترتیب کتاب وار، وباب وار ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ نے صرف ابواب کے عناوین تجویز فرمائے، کتب کے عناوین تجویز نہیں فرمائے؛ مگران کے سامنے کتب کی رعایت بھی تھی؛ کیونکہ ایک اصل سے متعلق ابواب آپ نے ترتیب وار ذکر کئے ہیں؛ البتہ "کتاب المناسک" کا عنوان خود آپ نے قائم فرمایا ہے، اس کے بعد پھرابواب کا ذکر کیا ہے۔ امام محمدعلیہ الرحمہ کے نسخے میں کل ۳۰۵/ابواب ہیں، اس کی ترتیب درحقیقت فن فقہ میں لکھی جانے والی کتاب کی ترتیب کے مطابق ہے؛ کیونکہ فن فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا بیان کرتے ہیں؛ پھراس کے بعد کتاب الصلوٰۃ؛ جیسا کہ امام ابوداؤد اور امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب کوفقہی طرز پر مرتب کیا ہے، برخلاف بخاری ومسلم وغیرہ کے انہوں نے اس کا لحاظ نہیں کیا، بس من وعن اسی فقہی انداز پر امام صاحب علیہ الرحمہ کی کتاب "کتاب الآثار" مرتب کی گئی ہے۔ امتیازات یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے مصنف کوتابعیت کا شرف حاصل ہے، آج دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں پائی جاتی ہے، جس کویہ ناقابل فراموش فضیلت حاصل ہو؛ نیزاسلام میں فقہ کے نہج پر جوکتاب لکھی گئی، اس میں اوّلین کاوش امام صاحبؒ ہی کی ہے، اس اعتبار سے یہ کتاب اسلام کی اولین مؤلفات میں سے ہے، اس لیے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ کا زمانہ سنہ۱۵۰ھ تک کا ہے؛ مگراس سلسلہ میں عموماً اولیت امام مالک اور ان کی کتاب "موطا" کی بتائی جاتی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انداز پر اولین تالیف امام صاحبؒ کی "کتاب الآثار" ہے، امام مالکؒ ودیگر حضرات جواس انداز سے کام کرنے والے ہیں، وہ ثانوی درجہ میں اس مذاق ومزاج کواپنانے والے ہیں۴؎۔ نیزاس "کتاب الآثار" کوامام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے چالیس ہزار احادیث کے مجموعہ سے منتخب فرمایا ہے اور ان میں سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں انیس ہزار احادیث کوجمع فرمایا ہے؛ پھرآپ سے امام محمدؒ نے روایت کرکے کتابی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔ امام ممدوح کی جلالتِ قدر کے لیے اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے کہ وہ امت میں امام اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کے اجتہادی مسائل پر اسلامی دنیا کی دوتہائی آبادی تقریباً چودہ سوبرس سے برابر عمل کرتی آرہی ہے اور تمام اکابر ائمہ آپ کے فضل وکمال کے معترف ہیں، اس کتاب میں علم شریعت کوباقاعدہ ابواب پر مرتب کیا گیا ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد کتاب الآثار کی احادیث وروایات پر مبنی ہے۵؎۔ بعض حضرات کی تصریح کے مطابق امام صاحب نے اپنے مقرر کردہ اصول وشروط کے پیش نظر اپنی صوابدید سے چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے اپنے تلامذہ کواس کا املاء کرایا ہے اور انتخاب کے بعد اس میں جومرویات لی ہیں وہ مرفوع بھی ہیں اور موقوف ومقطوع بھی، زیادہ ترحصہ غیرمرفوع کا ہے، مرویات کی مجموعی تعداد نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے مختلف بھی ذکر کی گئی ہے، امام ابویوسفؒ کے نسخے میں ایک ہزار ستر کے قریب ہے اور امام محمدؒ کے نسخے میں صرف مرفوعات ایک سو بائیس ہیں۶؎۔ سابق میں جونسخوں کی تعداد ذکر کی گئی تھی، ان میں سے سب سے مشہور نسخے دو ہیں، ایک امام محمدؒ کا اور دوسرا امام ابویوسفؒ کا اور یہی دونوں نسخے شائع بھی ہوئے ہیں اور ان میں بھی امام محمدؒ کا نسخہ زیادہ معروف متداول ہے اور علماء نے بھی اس پر زیادہ کام کیا ہے، مثلاً امام طحاویؒ، شیخ جمال الدین قونویؒ، ابوالفضل علی بن مراد موصلیؒ اور ماضی قریب میں مفتی مہدی حسن صاحبؒ شاہجہاں پوری "سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند" نے "قلائدالازھار" کے نام سے اس کی نہایت ضخیم شرح لکھی ہے۷؎، جوکہ "باب تخفیف الصلاۃ" تک ہی پہونچ سکی، مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ اور مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کا کتاب الآثار پر حاشیہ بھی ہے؛ نیز شیخ عبدالعزیز بن عبدالرشید اور شیخ محمدصغیرالدین نے اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے اور شیخ عبدالعزیز نے ترجمہ کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کیا ہے اور اردو ترجمہ کے ساتھ مولانا عبدالرشید نعمانی کا کتاب الآثار کے تعارف سے متعلق ایک مبسوط مقدمہ بھی ہے، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے دونوں نسخوں کے ساتھ علامہ ابوالوفا افغانی کے عربی میں مقدمے بھی ہیں، ان کے علاوہ دیگر شراح ومحشین نے بھی مقدمے لکھے ہیں، امام ابویوسفؒ کے نسخے پر مولانا ابوالوفاء کی تالیقات بھی ہیں اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگردِ رشید قاسم بن قطلوبغا حنفی، دونوں حضرات نے کتاب الآثار لمحمد کے رجال پر "الایثار بمعرفۃ رجال کتاب الآثار" کے نام سے کتابیں لکھی ہیں، کتاب الآثار کے متعدد نسخے، یا ان کے کافی اجزاء "مسانید امام اعظم" کے مجموعے "جامع المسانید" میں بھی شامل ہیں، مثلاً امام ابویوسف کے نسخے کی مرفوع روایات اور امام زفر وحفص بن غیاث کے علاوہ دیگر حضرات کے نسخے بھی اس میں شامل کردیئے گئے ہیں۸؎۔ (۴)مقدمہ حالات امام اعظمؒ:۱۶۔ (۵)مقدمہ حالات امام اعظمؒ:۱۶۔ (۶)ابوحنیفہ واصحابہ المحدثون:۱۵۔ (۷)علوم الحدیث:۳۸۶۔ (۸)علوم الحدیث:۳۸۷۔