انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مدینہ منورہ میں بلوائیوں کی حکومت مصر، کوفہ اوربصرہ کے باغیوں نے جب سے مدینہ منورہ میں داخل ہوکر حضرت عثمانؓ کو گھر سے نکلنے اور مسجد میں آنے سے روک دیا تھا ،اسی روز سے مدینہ منورہ میں ان کی حکومت تھی؛ لیکن چونکہ خلیفۂ وقت گو حالتِ محاصرہ ہی میں کیوں نہ ہو، موجود تھے، لہذا بلوائیوں کی ظالمانہ حکومت کو حکومت کے نام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، لیکن حضرت عثمان غنیؓ کے شہید ہونے کے بعد مدینہ میں تقریباً ایک ہفتہ غافقی بن حرب مکی بلوائیوں کے سردار کی حکومت رہی، وہی ہر ایک حکم جاری رکھتا اور وہی نمازوں کی امامت کراتا تھا،ان بلوائیوں میں بعض لوگ مآل اندیش اورسمجھ دار بھی تھے، انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر ہم لوگ اسی طرح قتل عثمان ؓ کے بعد یہاں سے منتشر ہوگئے تو ہمارے لئے بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا، ہم جہاں ہوں گے قتل کئے جائیں گے اور یہ شورش محض فساد اور بغاوت سمجھی جائے گی، پھر اس طرح بھی ہم جائز احتجاج کا جامہ نہیں پہنا سکیں گے،لہذا انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے سب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب کسی کو جلد خلیفہ منتخب کراؤ اور بغیر خلیفہ منتخب کرائے ہوئے یہاں واپس ہونے اور جانے کا نام نہ لو، انہیں ایام شورش کے دوران میں یہ اطمینان کرلینے کے بعد کوفہ و بصرہ سے بھی اس تجویز و قرارداد کے موافق لوگ روانہ ہوکر مدینہ پہنچ گئے،عبداللہ بن سبا بھی مصر سے روانہ ہوا، اورنہایت غیر مشہور اورغیر معلوم طریقے پر مدینہ میں داخل ہوکر اپنے ایجنٹوں اوردوستوں میں شامل ہوگیا؛چونکہ بلوائیوں کے اس تمام لشکر میں سب کے سب ہی ایسے اشخاص نہ تھے جو عبداللہ بن سبا کے راز دار ہوں ؛بلکہ بہت سے بے وقوف وواقعہ پسند اور دوسرے ارادوں کے لوگ تھے،لہذا عبداللہ بن سبا نے یہاں آکر خود کوئی سرداری یا نمبر داری کی شان مصلحتاً حاصل نہیں کی ؛بلکہ اپنے دوسرے ایجنٹوں ہی کے ذریعہ تمام مجمع کو متحرک کرکے اپنے حسب منشاء کام لیتا رہا،یہ انتخاب خلیفہ کی تجویز بھی عبداللہ بن سبا کی تھی ؛چنانچہ یہ لوگ جمع ہوکر حضرت طلحہؓ ،حضرت زبیرؓ، حضرت علیؓ کے پاس الگ الگ گئے اور ان بزرگوں میں سے ہر ایک سے درخواست کی کہ آپ خلافت قبول فرمالیں اورہم سے بیعت لیں،ہرایک بزرگ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکار کیا اوریہ مجبور ونامراد ہوکر رہ گئے،آخر عبداللہ بن سبا نے ایک تدبیر سجھائی اورمدینہ منورہ میں ان باغیوں اوربلوائیوں نے ایک ڈھنڈورا پٹوادیا کہ اہل مدینہ ہی ارباب حل وعقد ہیں اوراہل مدینہ ہی ابتدا سے خلیفہ کا انتخاب کرتے آئے ہیں اور اہل مدینہ ہی کے مشورے اور انتخاب سے منتخب کئے ہوئے خلیفہ کو مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ تسلیم کیا ہے،لہذا اہم اعلان کرتے ہیں اوراہل مدینہ کو آگاہ کئے دیتے ہیں کہ تم کو صرف دودن کی مہلت دی جاتی ہے، اس دوران کے عرصہ میں کوئی خلیفہ منتخب کرلو،ورنہ دو دن کے بعد ہم علیؓ ،طلحہؓ،زبیرؓ تینوں کو قتل کردیں گے، اس اعلان کو سُن کر مدینہ والوں کے ہوش وحواس جاتےرہے وہ بیتابانہ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس گئے، اسی طرح باقی دونوں حضرات کے پاس بھی مدینہ والوں کے وفود پہنچے،حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے تو صاف انکار کردیا اور کہا کہ ہم خلافت کا بار اپنے کندھوں پر لینانہیں چاہتے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اولاًانکار ہی کیا تھا جب لوگوں نے زیادہ اصرار ومنت سماجت کی تو وہ رضامندہوگئے، اُن کے رضا مند ہوتے ہی لوگ جوق درجوق ٹوٹ پڑے،اہل مدینہ نے بھی اور بلوائیوں کی جمعیت نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔