انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے اللہ رب العزت جن برگزیدہ افراد کو بزرگی بخشتے ہیں اورانہیں اپنے غیوب پر بھی اطلاع بخشتے ہیں،وہ صرف انبیاء ہیں جنہیں اس انداز میں امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے کہ اس میں قطع ویقین کی ضمانت ہو،ہاں علم غیب بیشک خاصہ باری تعالی ہے کسی مخلوق کو علم غیب حاصل نہیں،نہ کسی انسان کو شان ہے، کہ جب چاہے غیب کی بات معلوم کرلے جب ضرورت ہو ضرورتمند خدا کے ہی محتاج ہوں گے،اتنی بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقربین خاص کو اطلاع علی الغیب کی شان سے نوازتے ہیں۔ "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ"۔ (آل عمران:۱۷۹) اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبردے غیب کی؛ لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے۔ یہاں حرف لٰکِنّ سے استدراک فرمایا، یہ اس بات کی صراحت ہے کہ استثنا منقطع ہے، اس مضمون کو کسی دوسرے مقام پر اگر الا کہہ کر بیان کیا جائے تو وہاں بھی اس آیت کی روشنی میں ہم استثنا منقطع ہی مراد لیں گے، اللہ تعالی اپنے کسی کسی برگزیدہ بندے کو کسی غیبی بات پر اطلاع بخشیں اور وہ اس کا اظہار عام کردے بلکہ تحدی سے کہے کہ ایسا ہی ہوگا اورپھر وہ خبر بھی واقع کے بالکل مطابق اترے،واقعات اسی طرح ظہور پذیر ہوں جس طرح اس نے کہا تھا تو اس قسم کی خبروں سے یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ یہ (پیغمبرؑ) اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا تھا؛ بلکہ اس کے پیچھے آسمانی شہادت کار فرما تھی، اسے وحی کہیں یا الہام لیکن اس کا موافق واقع نکلنا بتلاتا ہے کہ اطلاع واقعی اس ذات پاک کی طرف سے تھی جس کے قبضہ قدرت اوردست تصرف سے کوئی فرد اور کوئی جگہ اور کوئی وقت خارج نہیں، ان برگزیدہ بندوں میں سب کے سردار اورقافلہ سالار جناب محمد رسول اللہﷺ تھے، اللہ تعالی نے آپ پر اولین وآخرین کے علوم کھولے اور کروڑوں غیبوں پر آپﷺ کو اطلاع بخشی اور پھر آپﷺ نے بھی ان غیوب کے بارے میں تنگدلی سے کام نہ لیا، جو ملتا گیا آگے دیتے گئے، قرآن کریم میں ہے: "وَمَاهُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ"۔ (التکویر:۲۴) ترجمہ:اوریہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی غیب کی بات بتائیں اور حضورﷺ اسے اپنے صحابہؓ سے بھی مخفی رکھیں، وہ علم ہی کیا جس کا آگے تعدیہ نہ ہو۔ یہاں کچھ اس قسم کی روایات کا مطالعہ کیجئے جن کی تصدیق واقعات نے کی، ان اخبار الحدیث کی روشنی میں یقین کیجئے کہ حدیث کا منبع و مصدر بھی بے شک خدا ہی کی ذات ہے اب کوئی شخص نہ کہے کہ حدیث میں خدائی حجت نہیں ہے۔ حدیث کا سب سے پہلا باقاعدہ مرتب مجموعہ موطا امام مالک ہے، پہلے اسی کی شہادت لیجئے پھر صحیح بخاری اور مسلم سے چند نظائر پیش کی جائیں گی اورپھر عام کتب حدیث سے چند روایات اخبار الحدیث کے طورپر پیش ہوں گی۔