انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک خدشہ کا جواب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا تذکرہ حتم کرنے سے پیشتر ایک خدشہ کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت کردہ آپ کے اہلِ بیت میں شامل آپ کے ساتھ ہمیشہ رہنے والے اور آپ کے چچازاد بھائی اور داماد تھے، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی، آپ کے دوست، آپ کے سالے، یعنی حضرت اُمِّ حبیبہ کے بھائی اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ واتسلیم کے صحابی تھے، ان دونوں یعنی علی ومعاویہ میں مخالفت اور لڑائی کیوں ہوئی؛ پھرعمروبن العاص، طلحہ، زبیر، حضرت عائشہ وغیرہ صحابہ کی ایک معقول تعداد نے ان آپس کی مخالفتوں اور لڑائی جھگڑوں میں کیوں حصہ لیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ان مشاجرات اور آج کل کی دنیاداروں کی لڑائیوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا؛ پس کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ ان لوگوں پرصحبت نبوی کا وہ اثر نہیں ہوا جوہونا چاہیے تھا، اس خدشہ کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہرایک صحابی یقیناً نجم ہدایت ہے اور اس بزرگ وبرتر پاک جماعت پرصحبت نبوی کا بے شبہ وریب وہی اثر ہوا ہے جوہونا چاہیے تھے۔ سنو! اور غور سے سنو! کہ آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جوشریعت لے کر آئے اس میں نوعِ انسان کی بہبود وفلاح کے جمیع اصول اتم واکمل طور پرموجود ہیں، آپ نے اس کامل ومکمل شریعت کی تعلیم وتبلیغ کا فرض پورے طور پرانجام دیا، اس شریعت کے بعد اب قیامت تک کوئی دوسری شریعت نازل ہونے والی نہیں جب کہ اس شریعت کا دامن قیامت کے دامن سے ملا ہوا ہے اور نوعِ اسنان کواپنی سعادت اور صلاح وفلاح تک پہنچنے کے لیئے اسی شریعت کی احتیاج ہے تواس جیسی عظیم الشان اور کامل شریعت کودوسری شریعتوں کی مانند بگڑنے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیئے کوئی ایسا ہی عظیم الشان سامان اور بندوبست بھی ہونا ضروری تھا؛ چنانچہ نوعِ انسان کی تسکین خاطر اور اطمینانِ قلب کے لیئے خدائے تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔ (الحجر:۹) ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (توضیح القرآن:۲/۸۰۰، مفتی تقی عثمانی، فریدبکڈپو،نیودہلی) پس معلوم ہوا کہ اس شریعت کی حفاظت کے سامان حدائے تعالیٰ خد ہی حسب ضرورت پیدا کرتا رہے گا اور اس ساڑھے تیرہ سوسال کے عرصہ میں ہم نے دیکھ لیا ہےکہ خدائے تعالیٰ نے شریعت حقہ کی حفاظت کے سامان خود ہی پیدا کیئے ہیں، جس طرح ہم نے رحم مادر میں اپنی حفاظت کے سامان خود ہی تجویز اور فراہم نہیں کئے تھے، جس طرح اپنی کھیتوں کوسرسبز رکھنے کے لیئے سمندر سے بخارات اُٹھانے، بادل بنانے، ہوائیں چلانے اور مینہ برسانے کا مشورہ ہم نے خدائے تعالیٰ کو نہیں دیا تھا؛ اسی طرح ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اسلامی شریعت کی حفاظت کے سامان اور طریقے خود تجویز کریں اور خدائے تعالیٰ کومجبور کرنے کی جرأت کریں کہ وہ فلاں طریقہ استعمال کرے اور فلاں سامان کوکام میں نہ لائیں، ہمارا توجی چاہتا ہے کہ آسمان سے پکی پکائی روٹی برس جایا کریں اور سالن کی پکی پکائی دیگچیاں زمین سے خود بخود اُبل پڑا کریں؛ لیکن خدائے تعالیٰ ہماری اس خواہش کا پابند وماتحت نہیں بن سکتا، اس نے تمازت آفتاب سے سمندروں کے پانی کوبھاپ بنایا کرّۂ ہوائی کی بلندیوں نے بادلوں کواپنے کاندھوں پراُٹھایا، ہواؤں نے چل کران بادلوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا، طبقاتِ ہوا کی حرارت وبرودت نے تغیرات پیدا کرکے بادلوں کوبرسایا، کاشت کاروں نے زمین کواپنے بیلوں اور آلات کشاوری کے ذریعہ نرم کیا، بیج بکھیرا، بدلوں سے بارش ہوئی، درخت اُگے، ان کی حفاظت کی گئی، پک جانے کے بعد کھیتی کاٹی گئی، غلہ اور بھس الگ کیا گیا، غلہ کوچکی میں پیس کرآٹا تیار ہوا؛ پھراس کوگوندھا گیا؛ پھرخاص صنعت کے ذریعہ روٹی پک کر تیار ہوئی، غور کرو اور سوچو کہ ایک روٹی کے مہیا کرنے میں خدائے تعالیٰ نے کس قدر طویل وپیچیدہ کاموں کا سلسلہ فرمایا ہے۔ مگر یہ ہماری حماقت اور کج فہمی ہوگی اگرہم خدائے تعالیٰ کوملزم ٹھہرائیں اور اپنے مجوزہ اختصار کوترجیح دیں، خدائے تعالیٰ کے کاموں کوطوالت پسندی سے مہتم کرنا حقیقتاً ہماری نابینائی وبے بصیرتی ہے؛ کیونکہ وہ لاتعداد حکمتیں جواس سلسلہ کار وپیچیدہ راہِ عمل میں مضمر ہیں ہماری چشم کوتاہ وفہم ناتمام سے چھپی ہوئی ہیں۔ اس تمہید کوذہن میں رکھ کرسوچوگے تویقیناً تسلیم کرلوگے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشاجرات درحقیقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک سامان تھا، حفاظتِ شریعت کا اور آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: إِخْتِلَافُ أُمَّتِىْ رَحْمَةٌ۔ (جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي:۱/۱۱۶۴، حدیث نمبر:۸۲۲، شاملہ،موقع ملتقى أهل الحديث) ایک باب تھا، حق وحکمت کا؛ لیکن ہم نالائقوں نے رحمت کواپنے لیے زحمت بنالیا اور بجائے اس کے کہ بصیرت اندوز وعبرت آموز ہوتے، گمراہی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے تمام اختلافات ان کے اجتہادات پرمبنی تھے، ان میں سے اگرکسی سے غلطی بھی ہوتی تووہ اجتہادی غلطی تھی، نیت اور ارادے پرمبنی نہ تھی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جودیدہ ودانستہ شریعت اسلام اور احکامِ خداوندی وارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرآمادہ ہوسکتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جوکچھ کیا، اپنے نزدیک حق سمجھ کرکیا؛ اسی طرح حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ جوکچھ کرتے تھے اپنے آپ کوحق وراستی پرسمجھ کرکرتے تھے؛ یہی حالت دوسرے صحابہ کرام کی تھی، جس نے جس کوحق سمجھا وہ اسی کاطرف داروحامی بن گیا اور یہ سب کچھ منشائے الہٰی کے ماتحت ہوا خدائے تعالیٰ نے یہ اندرونی جھگڑے پیدا کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کوتوان کاموں میں مصروف کردیا اور دوسری جماعت نے اُن آپس کے تنازعات سے بددل ہوکر حکومت وسلطنت کے کاموں سے بالکل بے تعلقی اختیار کرکے تنہائی وگوشہ نشینی اختیار کرلی، جب تک یہ اندرونی اختلافات پیدا نہیں ہوئے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تمام ترکوشش وہمت کفار کا مقابلہ کرنے اور جنگ وپیکار کے میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے میں صرف ہوتی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافتوں کا تمام زانہ ایسی معرکہ آرائیوں اور جنگ آزمائیوں سے پر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے تمام طبقات کی نگاہیں میدانِ کارزار اور فتوحات ملکی کی طرف لگی رہتی تھیں، ان دونوں متبرک خلافتوں کے زمانہ میں بھی اگرچہ جمع قرآن کا کام انجام دیا گیا، حواسی ابتدائی زمانہ میں ہونا چاہیے تھا؛ لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ کرام کی کوئی معقول تعداد اور بزرگ جماعت یک سوہوکر اور فارغ بیٹھ کراپنی تمام ترتوجہ اور پوری مفاہمت فقہی مسائل کی ترتیب وتنظیم اور احادیثِ نبوی کی حفاظت وتبلیغ میں صرف کرسکے، مدینہ منوّرہ ایک ایسا فوجی کیمپ بنا ہوا تھا، جس کے شہنشاہ نشین خیمہ میں گویا میدانِ جنگ کے نقشے ہروقت کھلے رہتے اور بڑے بڑے مدبر جنگی پالیسی متعین کرنے اور سردارانِ لشکر کی نقل وحرکت کے پروگرام تیار کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔ جوں جوں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا تھا، یہ جنگی مصروفیت بڑھتی جاتی تھی اور وہ لوگ جوایک استاد کی حیثیت سے درسِ شریعت دیتے اور نکاتِ حکمت سمجھاتے، تلواروں کے گھاٹ اور تیروں کی پرورست کرنےمیں مصرف اور نیزوں کی انی کے مقابلے میں اپنے سینوں کوسپربنانے میں زیادہ مشغول ہوتے جاتے تھے، اس جنگی مظاہرہ کی بھی اس زمانے کی دنیا میں اسلام کوقائم رکھنے اور مسلمانوں کوبے خوف بنانے کے لیئے بے حد ضرورت تھی، خلافتِ عثمانیہ میں وہ مطلوبہ حالت پیدا ہوگئی اور اسلام تمام دنیا میں ایک غالب مذہب اور زبردست طاقت تسلیم کرلیا گیا، اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلام کا مکمل نظام اور شریعت کے تمام پہلو محفوظ ومامون ہوجائیں اور صحابہ کرام کی محترم جماعت کوموقع وفراغت میسر ہوکہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیئے تابعین کی ایک ایسی جماعت تیار کرسکیں جوان کے بعد اوروں کوتعلیم دے سکے اور یہ سلسلہ آئندہ جاری رہ کراسلام کی حفاظت کاموجب ہو؛ پس خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی قدرتِ کاملہ سے عبداللہ بن سبا اور اس کے اتباع یعنی مسلم نمایہودیوں کی ایک جماعت پیدا کرکے حضرت عثمان کی شہادت، جنگ جمل اور جنگ صفین کے سامان یکے بعد دیگرے مہیا کردیئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے صحابی جومیدانِ جنگ میں رستم واسفندیار کے کارناموں کوحقیر ثابت کررہے تھے اپنی اپنی کاموں اور تلواروں کوتوڑ کرگھروں میں آبیٹھے اور سپہ سالاری کے کام سے جدا ہوکر معلمی کے کام میں مصروف ہوگئے، گذشتہ اوراق میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص فاتح ایران جن کی سپہ سالاری میں جنگ قادسیہ کا خون ریز میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا تھا۔ ان اندرونی اختلافات کے وقت گوشہ نشینی وگم نامی کی زندگی اپنے لیئے پسند کرکے اونٹوں، بکریوں کے ریوڑ کی نگہداشت میں مصروف ہوگئے تھے؛ یہی حالت اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تھی، فتوحات کا سلسلہ رکھنے اور اندرونی مخالفتیں برپاہونے کے بعد بہت سے صحابہ شمشیر وتیر کے استعمال کو برا سمجھنے لگے؛ حالانکہ اور کوئی صورت ایسی ممکن ہی نہ تھی کہ ان کومیدانِ جنگ کی صف اوّل سے ہٹاکر پیچھے لایا جاسکتا۔ حضرت عبداللہ بن عمروہ شخص تھے جن کوخلیفۂ وقت تسلیم کرنے کے لیئے تمام عالمِ اسلام متفق اور ہم آہنگ ہوسکتا تھا؛ لیکن ان اندرونی جھگڑوں نے ان کوبالکل گوشہ گزین وزاویہ نشین بنادیا تھا، اس کتاب میں جن لوگوں کے نام اب تک تم بار بار پڑھ چکے ہو ان میں زیادہ تروہی لوگ ہیں جوکسی نہ کسی حیثیت سے اندرونی اختلافات میں شریک تھے؛ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنھوں نے ان جھگڑوں میں کوئی حصہ نہیں لیا اور اسی لیے ان کا نام ان واقعات میں نہیں لیا جاسکا، اس عظیم الشان جماعت نے ان اختلافات کے زمانے میں ان لوگوں کوجوادب وعقیدت لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، شریعتِ اسلام کی حقیقت سمجھائی اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کوآگاہ کیا، ان میں سے ہرایک شخص ایک مدرس اور لوگوں کوحقیقت شرع سمجھانے میں مصروف تھا۔ مدینہ منوّرہ مہاجرین وانصار کا گہوارہ اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی وجہ سے مکہ معظمہ دوسرا مرکز اسلام تھا، جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوتعلیم وتدریس کی فرصت میسر نہ تھی، مدینہ منورہ دارالخلافہ رہا؛ لیکن جب حدائے تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے تعلیم اسلام کا کام لینا چاہا تومدینہ منورہ سے مرکز خلافت ہٹادیا اور وہ مدینہ جوکچھ دنوں پہلے جنگی طاقت کا مرکز اور فوجی کیمپ بناہوا تھا ایک دارالعلوم کی شکل میں تبدیل ہوگیا، حدیث اور فقہ کی کتابوں کوتحقیق وتدقیق کی نگاہ سے دیکھو تویہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ حدیث وفقہ وتفسیر کا تمام ترمواد صرف اسی زمانے کا رہین منت ہے، جس زمانہ میں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان مشاجرات برپا تھے۔ اگریہ مشاجرات برپا نہ ہوتے اگرحضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی کی معرکہ آرائیاں نہ ہوتیں توہم آج شریعتِ اسلام کے ایک بڑے اور ضروری حصے سے محروم وتہی دست ہوتے؛ مگریہ کیوں ہونے لگا تھا، خدائے تعالیٰ خود اس دین کا محافظ ونگہبان ہے، وہ خود اس کی حفاظت کے سامان پیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس نے وہ سامان یعنی حضرت علی اور امیرمعاویہ میں اختلاف پیدا کیا، اب اسی مذکورہ مدعا کے ایک دوسرے پہلو پرنظر کرو؛ ہرایک حکومت، ہرایک سلطنت اور ہرایک نظامِ تمدن کے لیئے جس جس قسم کی رکاوٹیں دقتیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونی ممکن ہیں اور آج تک دنیا میں دیکھی گئی ہیں، ان سب کے نمونے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشاجرات میں موجود ہیں، ان مشکلات کے پیدا ہونے پرعام طور پرحکمرانوں، حکمراں خاندانوں اور بادشاہوں نے آج تک جن اخلاق اور جن کوششوں کا اظہار کیا ہے ان سب سے بہتر اور قابل تحسین طرزِ عمل وہ ہے جوصحابہ کرام نے ایسی حالتوں میں ظاہر کیا، سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے، قوموں کے گرنے اور ابھرنے، خاندانوں کے ناکام رہنے اور بامراد ہونے کے واقعات سے اس دنیا کی تمام تاریخ لبریز ہے، چالاکیوں، ریشہ دوانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد حکومت خالی نظر نہیں آتا، ان سب چیزوں کے متعلق ہم جب تلاش کرتے ہیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفتوں کی روئداد ہمارے سامنے یک جاسب کے نمونے پیش کردیتی ہے اور ہم اپنے لیئے بہترین طرز کار اور اعلیٰ ترین راہ عمل تجویز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، یہ ہماری نابینائی اور بدنصیبی ہے کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اجتہادی مخالفتوں اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ وحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشاجرات کوبجائے اس کے کہ اپنے لیے موجب عبرت وبصیرت اور باعثِ خیرونافع بناتے، اپنی نااتفاقی ودرندگی اور اپنی فلاکت ونکبت کا سامان بنالیا ؎ ہرچہ گیرد علتی علّت شود آنچہ گیرد کاملے ملت شود مندرجہ بالا سطور کی نسبت شاید اعتراض کیا جائے کہ تاریخ نویسی کی حدود سے باہر قدم رکھا گیا ہے؛ لیکن میں پہلے ہی اقرار کرچکا ہوں کہ میں لامذہب مؤرخ بن کراس کتاب کونہیں لکھ رہا، میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں ہی کے مطالعہ کی غرض سے میں نے اس کتاب کولکھنا شروع کیا ہے، لہٰذا اس اظہارِ خیال سے کوئی چیز مجھ کوروک نہیں سکتی تھی۔ اب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات ختم کرنے سے پیشتر ان الفاظ کا نقل کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جوآنریبل سیدامیرعلی صاحب سابق جج ہائی کورٹ، کلکتہ نے جن کوشیعہ اور معتزلی کہا جاتا ہے، اپنی کتاب تاریخِ اسلام میں مسعودی کے حوالے سے درج کئے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد مقامی فوج داریاکپتان پولیس کی رپورٹ سنتے، اس کے بعد وزرا اور مشیران ومصاحبین خاص، امورسلطنت اور مہمات ملکی سرانجام دہی کے لیئے حاضر ہوتے؛ اسی مجلس میں پیش کاروبار اور محکمہ جات کے ناظم صوبجات سے آئی ہوئی رپورٹیں اور تحریریں سناتے، ظہر کے وقت نماز ظہر کی امامت کے لیئے وہ محل سے باہر نکل جاتے اور نماز پڑھا کرمسجد ہی میں بیٹھ جاتے، وہاں لوگوں کی زبانی فریادیں سنتے، عرضیاں لیتے، اس کے بعد محل میں واپس آکررئیسوں کوشرفِ ملاقات بخشتے؛ پھردوپہر کا کھانا کھاتے اور تھوڑی دیرقیلولہ کرتے، نمازعصر سے فارغ ہوکر وزیروں، مصاحبوں اور مشیروں سے ملاقات کرتے، شام کے وقت سب کے ساتھ دربار میں کھانا کھاتے اور ایک مرتبہ لوگوں کوملاقات کا موقع دے کرآج کا کام ختم کردیتے، بہ حیثیت مجموعی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں سلطنت کے اندر اور باہر فتوحات کا سلسلہ قائم رہا۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے امیرمعاویہ سے بڑھ کرمستقل مزاج وبردبار شخص نہیں دیکھا، ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ میں امیرمعاویہ کی مجلس میں موجود تھا اور وہ مسند پرتکیہ لگائے بیٹھے تھے، ان کے پاس تحریری رپورٹ پہنچی کہ قیصر روم اپنی فوج کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہتا ہے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کاغذ کوپڑھ کرمیری طرف ڈال دیا، میں نے پڑھا اور منتظر رہا کہ دیکھوں اب یہ کیا کہتے ہیں؛ مگروہ اسی طرح بیٹھے رہے اور کچھ نہ کہا، تھوڑی دیر میں ایک اور تحریر پہنچی کہ نائل بن قیس جوخوارج کا ایک سردار ہے اس نے ایک جمعیت فراہم کرلی ہے اور فلسطین پرحملہ کرنا چاہتا ہے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس تحریر کوبھی پڑھ کرمیری طرف پھینک دیا اور کچھ نہ کہا، میں اس تحریر کوپڑھ کر اوربھی زیادہ منتظر ہوا کہ اب یہ کیا کہتے ہیں؛ مگروہ اسی طرح بیٹھے رہے اور اُن کے چہرہ سے کوئی تغیر محسوس نہ ہوا، تھوڑی دیرگذری تھی کہ ایک تیسرا خط پہنچا کہ موصل کے جیل خانہ کوتوڑ کرخوارج قیدی فرار ہوگئے اور موصل کے قریب ان کا اجتماع ہورہا ہے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ تحریر بھی پڑھ کرمیری طرف پھینک دی اور اسی طرح تکیہ لگائے بیٹھے رہے، کچھ عرصہ کے بعد ایک اور خط پہنچا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک بڑی فوج کے ساتھ شام پرحملہ آور ہونے والے ہیں، اس خط کوبھی پڑھ کرمیری طرف پھینک دیا اور اسی طرح بیٹھے رہے۔ مجھ سے صبر نہ ہوسکا، میں نے کہا کہ چار طرف سے غم کی خبریں آئی ہیں، اب آپ کیا کریں گے؟ انھوں نے کہا کہ قیصر اگرچہ بڑی فوج رکھتا ہے؛ لیکن وہ مجھ سے صلح کرکے واپس چلا جائے گا، نائل بن قیس اپنے مذہب اور عقیدہ کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، وہ جس ایک شہر پرقابض ہوگیا ہے، چاہتا ہے کہ اس کواپنے قبضے میں رکھے میں اس کوچھوڑدوں گا تاکہ وہ اسی میں مشغول رہے، وہ خوارج جوجیل خانہ توڑ کربھاگ گئے ہیں، خدائے تعالیٰ کے قید خانے سے کہاں بھاگ کرجائیں گے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں ہم کوسوچنے اور تدبیر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اُن سے خون عثمان کا بدلہ لیا جائے، اس کے بعد وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے؛ اسی وقت ہرایک معاملہ کے متعلق بندوبست کرکے احکام جاری کردیئے اور پھربدستور سابق تکیہ لگاکر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ملکِ شام میں امیرمعاویہ کے شان وشکوہ کودیکھ کرفرمایا تھا کہ جس طرح ایران میں کسریٰ اور روم میں قیصر ہے؛ اسی طرح عرب میں معاویہ ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حکومت کا سلسلہ اب ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد عبداللہ بن زبیر کی خلافت صحابہ کرام کی سب سے آخری حکومت وسلطنت ہوگی جس کا ذکر آئندہ صفحات میں آنے والا ہے۔