انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عرب کا انتخاب اس سوال کا سب سے زبردست،نہایت معقول اورمسکت جواب یہ ہے کہ نبی آخر الزماں خواہ کسی ملک میں پیدا ہو، ہر حالت میں یہی اعتراض ہوسکتا ہے ؛کیونکہ بہرحال وہ کسی ایک ہی ملک میں ہوگا اور دوسرے ممالک اس کی پیدائش ووجود سے محروم رہیں گے،پس جبکہ یہ صورت بہرحال شدنی ہے تو معترض کے لئے اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے تمام مشہور ممالک کسی نہ کسی قدیم زمانے میں ایک ایک مرتبہ ضرور ترقی یافتہ اورعروج کی حالت میں رہ چکے تھے، ان کی تہذیب،تمدن،اخلاق،علوم وغیرہ ایسی حالت کو دیکھ چکے تھے کہ انہوں نے کوس انا ولا غیری دنیا کی قوموں کے سامنے بجایا تھا،نیز ہر ملک کو دوسرے ملک کا حاکم یا محکوم بننے کا موقع مل چکا تھا،پھر یہ کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی زبان اس زمانے میں ایسی مکمل اور ادائے بیان پر قادر نہ تھی جیسی کہ عرب کی زبان عرب کے جغرافیائی حالات اور باشندوں کے بے شغلی کے سبب مکمل ہوچکی تھی،اگر عرب کے سوا کسی دوسرے ملک میں وہ کامل نبی مبعوث ہوتا تو اس ملک کے باشندے یعنی اول المخاطبین چونکہ پہلے دوسرے ملکوں پر قابض ومتصرف رہ چکے تھے لہذا اس نبی کی ہدایت اورہدایت نامے کا قوی اثر اپنی پوری اورحقیقی شان دنیا پر ثابت نہ کرسکتا اوراس کا ایک بڑا حصہ اس ملک کی قدیم روایات کی طرف منسوب ہوجاتا ،اس نبی کے ذریعے تہذیب،اخلاق اور تہذیب نفس کا جو عظیم الشان کام انجام پانے والا تھا وہ بھی اس ملک و قوم کی قدیمی روایات سے منسوب ہوکر نبی آخر الزماں اورخاتم الکتب کے عظمت وجلال کا ظاہر اورثابت کرنے والا نہ ہوتا، کامل ہدایت نامہ کے لیے ضرورت تھی کہ وہ ایسی زبان میں نازل ہو جو دنیا کی زبانوں میں حدِ کمال کو پہنچ چکی ہو،عربی کے سواکوئی دوسری زبان ایسے ہدایت نامہ کی جوقیامت تک کے لئے اورہر ملک اور ہر قوم کے لئے نازل ہو متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔اس لیے ضرورت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملک عرب میں پیدا ہوں،اہل عرب نہ کسی غیر ملک کے محکوم بنے اورنہ کسی غیر ملک پر قابض ومتصرف ہوئے تھے،عربوں کے لئے دنیا کا ہر ایک ملک اورہر ایک قوم یکساں حیثیت رکھتی تھی،وہ جب اسلام کو لے کر نکلے ہیں تو ہسپانیہ یعنی بحر اطلانتک کے ساحل مشرقی سے چین یعنی بحیرہ چین کے مغربی ساحل تک ساری آباد ومتمدن دنیا کے ملک اورقومیں اُن کی نظر میں یکساں تھیں وہ سب سے اجنبی تھے اور سب ان سے اجنبی لہذا خدائے تعالی نے جب ساری دنیا کے لئے ایک مذہب تجویز کیا تو وہ مذہب ایک ایسی قوم کے ذریعے ساری دنیا میں شائع کیا جو سب کے لئے یکساں بے تعلق قوم تھی،عرب کے اخلاق تہذیب اور تمدن نے چونکہ اس سے پہلے کوئی ترقی نہیں کی تھی لہذا اس عالمگیری مذہب نے اُن کو یکایک سب سے زیادہ شائستہ ،سب سے زیادہ مہذب،سب سے زیادہ بااخلاق،سب سے زیادہ متمدن اورساری دنیا کا اُستاد اوررہبر بناکر ثابت کردیا کہ عرب کی ان تمام محیر العقول ترقیات کا سبب اسلامی تعلیم کے سوا اورکچھ نہیں ہے اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت ایسی زبردست ہے کہ دنیا کی ہر قوم اورہر ملک،ہر زمانہ میں اس سے فیضیاب ہوسکتا ہے،نیز یہ کہ دنیا کے تمام ہادی اورتمام انبیاء قوموں کے لئے جس قدر تعلیمات اورہدایت نامے لے لے کر آئے تھے وہ سب کے سب اصولی طورپر قرآن مجید میں موجود ہیں، فیھا کتب قیمۃ اوررسول عربی امی لقب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات جامع جمیع کمالات نبویہ وانسانیہ ہے۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری: مذکورہ بالا آخری چند فقرات غالباً تاریخ نویسی اورمورخ کی شان سے کسی قدر الگ سمجھے جائیں لیکن چونکہ میں یہ تاریخ مسلمانوں کے مطالعہ کے لئے لکھ رہا ہوں اورمجھے امید ہے کہ مسلمان ہی اس کو سب سے زیادہ مطالعہ کریں گے،میں خود بھی بحمد اللہ تعالی مسلمان ہوں پس اسلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات شروع کرتے ہوئے ان بے ساختہ زبان قلم تک آجانے والے فقرات کو واپس نہیں لوٹا سکتا تھا،اگر مورخین یا تاریخ نویسوں کی مجلس میں یہ کوئی عیب کی بات مجھ سے سرزد ہوئی ہے تو میں بہت خوش ہوں کہ مورخین کے گروہ سے خارج ہوکر مسلمین کے گروہ میں ضرور شامل کیا جاؤں گا ۔