انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دینی گمراہیاں تمام انبیائے کرام کی تعلیم میں یہ بات مشترک رہی ہے کہ عزت وشرافت اور آخرت کی فلاح وسعادت کا مدار اور خدا کے نزدیک محبوبیت اور مقبولیت کا معیار ایمان وعمل ہے، نہ کہ نسل وذات؛ مگریہودیوں کی ایک بنیادی غلطی اور گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے شرافت ونجابت کا معیار ہی سرے سے بدل دیا، اس کا مدار ایمان وعمل کے بجائے نسل وذات پررکھا، ان کے نزدیک یہودی گھرانے میں پیدا ہونا ہی دُنیا کا سب سے بڑا شرف اور نجات آخرت کے لیے کافی تھا، کہتے تھے کہ: نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ۔ (المائدۃ:۱۸) ترجمہ: ہم اللہ کے لڑکے اور اس کے محبوب ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں متعدد یہودِ مدینہ کا نام بھی لیا ہے، طَبری میں ان کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تویہود میں عام طور پریہ خیال تھا۔ اور سمجھتے تھے کہ: لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً۔ (البقرۃ:۸۰) ترجمہ:ہم دوزخ میں چند دن کے لیے ڈالے جائیں گے۔ ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخطاب کرکے فرمایا گیا: قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔ (البقرۃ:۹۴) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اگرتمہارے لیے (اے یہود!) آخرت کی فلاح مخصوص ہے توپھرموت کی تمنا کرکے دکھلاؤ؛ اگرتم سچے ہو۔ دوسری جگہ قرآن مجید نے ان کوخطاب کرکے فرمایا: قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔ (الجمعۃ:۶) ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اے یہود! اگرتم کوزعم ہے کہ تم اللہ کے محبوب ہو توموت کی تمنا کرو؛ اگرتم سچے ہو۔ اسی غلط تصور کانتیجہ تھا کہ ان کے نزدیک کسی بدعقیدگی، بدمعاملگی اور بداخلاقی کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی تھی، یہودیت کی سند مل جانے کے بعد وہ سمجھتے تھے کہ ان کی کوئی برائی برائی نہیں رہ جاتی؛ یہی وہ تھی کہ ان میں وہ تمام برائیاں گھس آئیں جن کا کم ازکم ایک صاحب شریعت قوم میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا، عقائد میں سب سے اہم اور اساسی چیز عقیدۂ توحید ہے؛ اسی کی صحت اور اسی میں اخلاص کی بنیاد پرسارے دین کی عمارت تعمیر ہوتی ہے؛ اگراس میں کہیں سے کوئی نقص اور کمی آجاتی ہے توپھردین کمزور اور اس کے دوسرے اقدار بالکل بے روح ہوکررہ جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم یہی رہی ہے: لَاإِلَهَ إِلَّاأَنَا فَاعْبُدُونِ۔ (الأنبیاء:۲۵) ترجمہ:میرے سوا کوئی معبود نہیں توتم میری ہی عبادت کرو یہود ایک صاحب صریعت قوم تھی جس کوحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ پہلے ہی دن یہ سبق دیا گیا تھا: لَاإِلَهَ إِلَّاأَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي۔ (طٰہٰ:۱۴) ترجمہ:میرے سوا کوئی معبود نہیں توتم میری ہی عبادت کرو! اور میری ہی یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔ مگریہود کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ عقیدۂ توحید میں رخنہ اندازی کی اور اس چشمہ صافی کوکفروشرک اور فسق وفجور سے گدلا کرنے کی برابر کوشش کی، جزیرۂ عرب کے یہود بھی اس جرم میں دنیا کے دوسرے یہود سے پیچھے نہیں تھے، قرآن توواضح طور پران پرکفروشرک کے ارتکاب کا الزام عاید کرتا ہے: لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ۔ (البقرۃ:۸۸) ترجمہ: اُن کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پرلعنت کی۔ سورۂ نساء کے آخر میں ان کے بارے میں وَبِكُفْرِهِمْ کےالفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں؛ گویا کفر، کفرباللہ نہ ہو؛ مگرباحکام اللہ توضرور تھا؛ جیسا کہ ایک جگہ قرآن مجید نے اُن کے بارے میں وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ: اور ان میں سے اکثرفاسق ہیں؛ اسی بناء پرقرآن مجید اُن سے کہتا ہے: تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ۔ (آل عمران:۶۴) ترجمہ: (اے اہلِ کتاب!) آؤ ایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے یہ کہ بجز اللہ کے کسی اور کی عبادت نہ کریں۔ وہ شرک میں بھی مبتلا تھے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ عزیز کوخدا کا بیٹا کہتے تھے (بعض مستشرقین نے لکھا ہے کہ صحفِ قدیم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور نہ اس وقت یہود کا یہ عقیدہ ہے، یہ بحث طویل ہے اس لیے ہم نظرانداز کرتے ہیں، مختصراً اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ یہودیوں میں یہ خیال عیسائیوں کے اثر اور ان کی ضد سے پیدا ہوا ہے اور عرب کے یہودیوں میں ظہورِ اسلام کے وقت یہ عقیدہ تھا؛ چنانچہ طبری وغیرہ نے متعدد یہود کا نام بھی لیا ہے، مثلاً: فنحاص، سلام بن مشکم وغیرہ؛ پھران کے اس قول: نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ (المائدۃ:۱۸) اور اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ (التوبۃ:۳۱)وغیرہ کوسامنے رکھا جائے تواس میں کوئی تعجب باقی نہیں رہ جاتا)۔ وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ۔ (التوبۃ:۳۰) ترجمہ:اور یہود نے کہا کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ انھوں نے اپنے علماء اور احبار کووہ مرتبہ اور درجہ دے دیا تھا جوصرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہے: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ۔ (التوبۃ:۳۱) ترجمہ: انھوں نے خدا کوچھوڑ کراپنے علماء ومشائخ کواپنا رب بنا رکھا ہے۔ یہ آیت یہود اور نصاریٰ دونوں کے بارے میں ہے، نصاریٰ کے سوء اعتقاد کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم کی روایت حدیث کی تمام کتابوں میں مذکور ہے، یہود سے متعلق اس آیت کی تفسیر میں طبری میں یہ روایت ہے کہ: قَالَ الرَّبیع قُلْتُ لِأَبِیْ الْعَالِیَہ کَیْفَ كَانَتْ الرُّبُوبِيَّة فِي بَنِي إِسْرَائِيل؟ قَالَ: مَاأَمَرُونَا اِئْتَمَرْنَا، فَانَهَوْنَا عَنہُ اِنْتَهَيْنَا! لِقَوْلِهِمْ: وَهُمْ يَجِدُونَ فِي كِتَاب اللَّه مَاأُمِرُوا بِهِ وَمَانُهُوا عَنهُ، فَاسْتَنْصَحُوا الرِّجَال۔ (طبری:۱۰/۷۰) ترجمہ: ربیع نے ابی العالیہ سے پوچھا: کہ بنواسرائیل نے کس طرح سے اپنے احبار کوارباب بنالیا تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ: جس چیز کا وہ احبارحکم دیتے تھے اس کوہم کرتے تھے اور جس بات سے وہ روکتے تھے ہم رُک جاتے تھے، یہ سب ان کے کہنے کی وجہ سے کرتے تھے؛ حالانکہ وہ باتیں کتاب میں موجود ہوتی تھیں؛ چنانچہ اس طرح انھوں نے احبار وعلماء کے اقوال وافعال کواختیار کرلیا اور کتاب اللہ کوپسِ پشت ڈال دیا۔ (اس اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوالعالیہ بھی اہلِ کتاب میں تے، یہ غلام تھے، اس لیے ان کے اہلِ کتاب ہونے کا اور بھی قوی امکان ہے)۔ اس کفر وطغیان نے ان کے قلوب کواتنا سخت اور ان کے ذہن ودماغ کو اس قدر ماؤف کردیا تھا کہ وہ خدائے قدوس کے بارے میں گستاخانہ اور طنزآمیز الفاظ استعمال کرنے لگے تھے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ۔ (المائدۃ:۶۴) ترجمہ: یہود کہتے تھے کہ اللہ کا ہاتھ تنگ ہوگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ کہتے تھے: إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ۔ (آل عمران:۱۸۱) ترجمہ:اللہ فقیر اور ہم غنی ہیں۔ کتاب الہٰی (توراۃ) کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ کچھ اچھا نہیں تھا وہ کتاب کی تاویل وتفسیر اپنی خواہشات اور دنیاوی اغراض کے تحت کرتے تھے، قرآن مجید میں ہے: ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ:۷۵) ترجمہ:پھراس کواچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اُس میں تحریف کرڈالتے تھے۔ (توضیح القرآن:۱/۷۴، مفتی تقی عثمانی) يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا۔ (البقرۃ:۷۹) ترجمہ:جواپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں؛ پھر(لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے؛ تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کمالیں۔ (توضیح القرآن:۱/۷۴، مفتی تقی عثمانی) جب اس معنوی تحریف سے کام نہ چلتا توکلامِ الہٰی کوچھپادیتے (مائدہ) اگرضرورت پڑتی تولفظی تحریف بھی کرڈالتے (اس سلسلہ میں متعدد واقعات عہدِ نبوی میں پیش آئے جن میں سے بعض کا تذکرہ اُوپرآچکا ہے)۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ۔ (المائدۃ:۴۱) ترجمہ:کلامِ الہٰی کواس کے موقع ومحل سے بدل دیتے ہیں۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ۔ (المائدۃ:۱۳) ترجمہ:وہ کلامِ الہٰی کواس کے موقع سے بدلتے رہتے ہیں۔ یہ توپڑھے لکھے یہودیوں کا حال تھا، جواپنی ہرخواہش اور غرض کی تکمیل کے لیے کتاب اللہ کوآلۂ کار بناتے تھے اور اس کی من مانی تفسیریں کرتے تھے؛ لیکن ان کے عوام جواس اسلحہ کا استعمال نہیں جانتے تھے، وہ صرف اپنی خواہشوں اور تمناؤں ہی کوآخری سند سمجھتےتھے: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّاأَمَانِيَّ۔ (البقرۃ:۷۸) ترجمہ:اور ان میں بہت سے ناخواندہ ہیں جوکتابی علم نہیں رکھتے؛ لیکن دل خوش کن باتیں۔ حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں تحریف کی ایک مثال آئے گی، جس سے آپ کواندازہ ہوگا کہ وہ اس میں کس درجہ بے باک تھے، ختم رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں تورات میں جوپیشین گوئیاں اور بشارتیں تھیں اور جن کوپڑھ کرمتعدد صالح الفطرت یہود حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، ان کوانھوں نے چھپانے کی کوشش کی؛ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ رجم کے متعلق تورات کے حکم کوبھی انھوں نے پوشیدہ رکھنا چاہا؛ مگربعض حق پرست علمائے یہود نے اسے آپ پرظاہرکردیا اور آپ نے اس کے مطابق عمل کیا۔ (بخاری ومسلم) انبیاء ورسل کے ساتھ بھی انھوں نے ہمیشہ طغیان وسرکشی ہی کی روش اختیار کی؛ یہاں تک کہ ان نفوس قدسیہ میں سے بعض کوانھوں نے قتل کرڈالا؛ اسی وجہ سے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان پرلعنت کی۔ (مائدۃ) جزیرۂ عرب کے یہود بھی اس بارے میں اپنے پیشروؤں سے کچھ مختلف نہیں تھے، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ یہودی تھی (آل عمران) قرآن نے ان کے اس خیال کی تردید کی (آل عمران) نبوت ورسالت صرف یہود کے لیے مخصوص سمجھتےتھے (جمعۃ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی انھوں نے وہ سب کچھ کیا جوان کے پیش روؤں نے اپنے وقت کے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ کیا، تفصیل آگے آتی ہے۔ فرشتوں کے متعلق ان کے خیالات عربوں سے بالکل مختلف تھے، عرب ان کوخدا کا شریک ٹھہراتے تھے اور اُن سے دشمنی وعداوت رکھتے تھے، خصوصیت سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ ان کا قدیم دشمن ہے، قرآن نے ان کے اس خیال کی شدت سے تردید کی (اس سلسلہ میں طبری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہود کی گفتگو کونقل کیا ہے (طبری:۳۲۷))۔ مشرکانہ اوہام وخرافات، جادو، گنڈا اور عملیات وغیرہ پران کا اعتقاد تھا، لبید، عاصم وغیرہ بہت سے یہودی عامل تھے، جوکنگھیوں اور بالوں میں منتر پڑھ کرپھونکتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الطب، جلد دوّم) یہ ان کے دینی معائب کا ایک مختصر خاکہ ہے، جن میں وہ دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم تک مبتلا تھے، اب ان کے اخلاق ومعاملات پرروشنی ڈالی جاتی ہے۔