انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آنحضرتﷺ کی استقامت جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد خوب زور شورسے ہنگامہ کارزار گرم تھا،ایک شقی نے دور سے ایک پتھر پھینک مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہونٹ زخمی ہوا اورنیچے کا ایک دانت شہید ہوگیا،اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پائے مبارک ایک گڑھے میں جاپڑا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے،حضرت علیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اورحضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت طلحہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُٹھا کر باہر نکالا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جب صحابہ کرامؓ کی ایک مختصر جماعت فراہم ہوگئی اورلڑائی شدت سے جاری ہوئی تو کفار کے حملوں میں سستی پیدا ہونے لگی اورصحابہ کرامؓ نے کفار کو مار مار کر ہٹادیا،اس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا اورصحابہ کرامؓ کی جماعت کے ساتھ پہاڑ کی ایک بلندی پر چڑھ گئے،مدعا اس سے یہ تھا کہ کفار کے نرغہ سے نکل کر پہاڑ کو پشت پر لے لیں اورلڑائی کا ایک محاذ قائم ہوجائے؛چنانچہ یہ تدبیر یعنی لڑائی کے لئے بہترین مقام کو حاصل کرنا بہت مفید ثابت ہوا،مسلمانوں کے بلند مقام پر چڑھ جانے کے بعد ابو سفیان نے بھی پہاڑ پر چڑھنا چاہا اور وہ کفار کی ایک جماعت کو لے کر دوسرے راستے سے زیادہ بلند مقام پر پہنچنا چاہتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروقؓ کو حکم دیا کہ ان کو اوپر چڑھنے سے باز رکھو،حضرت عمر فاروقؓ چند ہمراہیوں کے ساتھ اُس طرف روانہ ہوئے اورابو سفیان کی جماعت کو نیچے دھکیل دیا۔ اب مسلمانوں کی جمعیت جلد جلد بڑھنے لگی،مسلمان جو منتشر ہوگئے تھےپہاڑ کی اس بلندی پر آ آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہونے لگے،کفار کو اب یہ جرأت نہ ہوئی کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوں مگر ایک کافر اُبی بن خلف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پہلے سے ارادہ کرکے آیا تھا، اپنے گھوڑے پر سوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا، اس کو آتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو آنے دو وہ قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی حارث بن صمہ کے ہاتھ سے نیزہ لے کر اس پر وار کیا،نیزہ کی انی اس کی ہنسلی یعنی گردن کی نیچے کی ہڈی میں لگی،یہ زخم بہت معمولی سا معلوم ہوتا تھا لیکن وہ یہ زخم کھاکر نہایت بدحواسی کے ساتھ بھاگا،وہ جب حملہ آور ہوا تھا تو یہ شور مچاتا ہوا چلا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کرکے آؤں گا،اس بدحواسی وسراسمیگی کے ساتھ جب بھاگ کر گیا تو مشرکین نے اس کا مذاق اُڑایا ؛چنانچہ اسی زخم کی وجہ سے وہ واپسی میں مکہ پہنچنے سے پہلے راستہ ہی میں مرگیا اوریہی ایک شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےہاتھ سے قتل ہوا۔ ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا:اَنِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ(کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا:اس کو جواب نہ دو،پھر اس نے پوچھا:کیا تم میں ابوبکرصدیقؓ ہیں؟ اس طرف سے کچھ جواب نہ ملا پھر اس نے پوچھا:کیا تم میں عمر بن الخطابؓ ہیں؟ اس پر بھی سکوت رہا،پھر وہ بولا:معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب قتل ہوگئے،اس پر حضرت عمر فاروقؓ کو تاب نہ رہی فوراً چلا کر بولے:‘‘اے دشمنِ خدا یہ سب زندہ ہیں اورتو رسوا ہوگا، یہ سُن کر کچھ متعجب سا ہوا اورفخریہ لہجے میں کہنے لگا:اَعْلُ ھَبْلُ اَعْلُ ھَبْلُ(ہبل کی جے ہبل کی جے)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے کہا:اس کو جواب دو کہ اللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُ(اللہ برتروبزرگ ہے) ابو سفیان نے حضرت عمرؓ کی زبان سے یہ سن کر کہا: لَنَا عُزَّیٰ وَلَا عُزَّیٰ لَکُمْ(عزیٰ بت ہمارا ہے تمہار انہیں ہے)عمر فاروقؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق جواب دیا: اَللہُ مَوْلٰنا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ (اللہ ہمارا ولی ہے تمہارا ولی نہیں ہے)ابو سفیان نے کہا کہ یہ لڑائی جنگ بدر کے برابر ہوگئی،یعنی ہم نے جنگِ بدر کا بدلہ لے لیا،حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق جواب دیا:‘‘نہیں،برابری نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین دوزخ میں ہیں،اس کے بعد ابو سفیان خاموش ہوگیا ،پھر اُس نے بلند آواز سے کہا کہ اب ہمارا تمہارا مقابلہ آئندہ سال پھر بدر میں ہوگا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کہہ دو: نَعَمْ ھُوَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ مَوْعِدٌ(اچھا ہم کو یہ وعدہ منظور ہے)ابو سفیان یہ باتیں کہہ سُن کر وہاں سے چل دیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ابو سفیان کے پیچھے بھیجا کہ ان کی روانگی کا نظارہ دیکھو،اگر انہوں نے اونٹوں پر کجاوے کسے اورگھوڑے کو تل رکھے تو یہ مکہ کو جانا چاہتے ہیں اوراگر اس کے خلاف گھوڑوں پر سوار ہوئے اوراونٹوں پر کجاوے نہیں کسے تو مدینے پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں،اگر انہوں نے مدینے پر حملہ کا قصد کیا تو ہم ان پر ابھی حملہ آور ہوں گے،حضرت علیؓ گئے اورتھوڑی دیر میں واپس آکر خبر لائے کہ وہ اونٹوں پر سوار ہوکر گھوڑوں کو کوتل رکھے ہوئے ہیں۔