انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معتضد باللہ معتضد باللہ بن موفق باللہ بن متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصلی نام احمد اور کنیت ابوالعباس تھی، ربیع الاوّل سنہ۴۳ھ میں صوآب نامی اُم ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اپنے چچا معتمد باللہ کے بعد ماہ رجب سنہ۷۹ھ میں تخت نشین ہوا، خوبصورت، بہادر اور عقلمند شخص تھا، سخت گیری وخوں ریزی سے بھی اگرضرورت ہوتی تھی تودرگزر نہیں کرتا تھا، باہیبت اور معاملہ فہم تھا، منجموں اور افسانہ گولوگوں کا دشمن تھا، مامون کے زمانہ سے فلسفہ کا بہت چرچا ہوگیا تھا، معتضد نے فلسفہ اور مناظرہ کی کتابوں کی اشاعت سے روک دیا تھا؛ تاکہ مذہبی فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا سدباب ہو، رعایا کے خراج میں اس نے کمی کردی تھی، عدل کا شائق تھا، رعایا پرسے ظلم وستم کودور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مکہ میں دارالندوہ کی عمارت ابھی تک موجود تھی، معتضد نے اس کوگراکر مسجد بیت الحرام کے پاس ایک مسجد بنادی، مجوسی النسل لوگوں کی کثرت نے بغداد میں نوروز (یہ پارسیوں، یعنی آتش پرستوں یامجوسیوں، کی قومی عید ہے، اسے جشن بزرگ بھی کہتے ہیں، وہ اپنے ماہ فرورین کے چھٹے دن یہ تہوار مناتے ہیں، پارسی زیادہ ترایران میں رہتے ہیں، دورِقدیم سے ایران پارسیوں کی آماج گاہ چلا آرہا ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے سینکڑوں سال پہلے سے ایران پر، آتش پرستوں کا غلبہ تھا اور یہ ملک اس وقت دنیا کی ایک بڑی مملکت تھی، جوجناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح ہوا اور یوں مجوسیوں کا غلبہ ختم ہوگیا؛ بلکہ مجوسی اسٹیٹ ختم ہوگئی، فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ) کے دن عید منانے اور آگ جلانے کی رسم بھی جاری کردی تھی، معتضد نے اس مجوسی رسم کوحکماً بند کردیا، حماردیہ بن احمد طولون حاکم مصر کی لڑکی سے اس نے عقد کیا، اس نے دفتر میراث قائم کیا اور ذوی الارحام کوبھی میراث میں سے حصہ دلانے کا التزام کیا، اس سے لوگوں نے اس کوبہت دعائیں دیں اور اس کی قبولیت رعایا میں بڑھ گئی۔ معتضد نے ایک مرتبہ قاضی ابوحازم کے پاس کہلا کربھیجوایا کہ آپ نے فلاں شخص سے لوگوں کا مال دلوایا ہے، میرا بھی کچھ مال اس کے پاس ہے، مجھ کوبھی دلواؤ، قاضی نے جواباً کہلا بھجوایا کہ آپ گواہ پیش کریں توآپ کوبھی ڈگری دی جائےگی، معتضد کے گواہوں نے قاضی ابوحازم کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا کہ کہیں قاضی ہم کوناقابل شہادت نہ ٹھہرائے، اس لیے معتضد کواس کا مال نہیں ملا، معتضد نے خلافتِ عباسیہ کے بہت نازک اور خراب حالات پائے تھے؛ مگراس نے بہت کوشش کی کہ خلافتِ عباسیہ کی حالت سقیم درست ہوجائے؛ چنانچہ اس کی وجہ سے کچھ ترقی کے آثار نمایاں بھی ہوئے؛ مگراس کے جانشینوں میں یہ قابلیت نہ تھی کہ رفتار ترقی کوقائم رکھ سکے۔ معتضد کے تخت نشین ہونے کے چند روز بعد ہی نصر بن احمد سامانی فوت ہوگیا تھا، اس کی جگہ اس کا بھائی اسماعیل بن سامانی ماوراءالنہر کا حکمران ہوا، موصل کے علاقہ میں خوارج کے دوگروہ آپس میں لڑرہے تھے، ایک گروہ کا سردار ابوجوزہ سنہ۲۸۰ھ میں گرفتا رہوکر بغداد میں آیا، معتضد نے اس کوبڑی تکلیفوں سے قتل کرایا، دوسرے گروہ کا سردار ہارون شاری بہ دستور مصروفِ بغاوت وسرکشی رہا، سنہ۲۸۰ھ میں معتضد نے جزیرے پرخود فوج کشی کی اور قبائل بنی شیبان کوقرارواقعی سزا دے کراور بہت سامالِ غنیمت لے کربغداد واپس آیا، معتضد نے اپنے غلام بدرنامی کوپولیس افسری اور عبیداللہ بن سلیمان بن وہب کوقلمدان وزارت عطا کیا، سنہ۲۸۱ھ میں حمدان بن حمدون کوجوقلعہ ماردین پرقابض اور ہارون شاری خارجی سے دوستی پیدا کرچکا تھا، خلیفہ معتضد نے گرفتار کیا اور قلعہ ماردین کومسمار کراکر زمین کے برابر کردیا۔ سنہ۲۸۱ھ میں خلیفہ معتضد نے اپنے بیٹے علی المعروف بہ مکتفی کورے، قزوین، زنجان، قم، جدآن کی حکومت پرمامور کیا، ماہ ربیع الاوّل سنہ۲۸۳ھ میں خلیفہ معتضد نے اطراف موصل میں پہنچ کرہارون شاری خارجی کے استیصال کی کوشش میں کامیابی حاصل کی، ہارون کوگرفتار کرکے قید کردیا اور بغداد کی طرف واپس آیا، بغداد میں ہارون کوتشہیر کرکے قتل کرادیا، سنہ۲۸۵ھ میں معتضد نے آذربائیجان پرچڑھائی کی، قلعہ آمد کوفتح کرکے احمد بن عیسیٰ بن شیخ کوگرفتار کیا اور ماہِ ربیع الثانی سنہ۲۸۶ھ میں بغداد واپس آیا۔