انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۶۱۵ء دوسری ہجرت حبشہ پہلی ہجرت حبشہ سے واپس ہونے کے بعد مسلمانوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ میں تھا، اس کے باوجود کفّار قریش نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا،یہ حال دیکھ کر اوائل ۶ نبوی میں آنحضرت ﷺنے مسلمانوں کو دوبارہ حبشہ کو ہجرت کرنے کی اجازت دی،یہ سن کر کفار مکہ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی ؛لیکن اس کے باوجود بھی (۸۳) مرد اور(۱۸ )عورتیں حبشہ پہنچ گئے، عورتوں میں منجملہ( ۱۸ )کے گیارہ عورتیں قریش سے تعلق رکھتی تھیں، پہلی مرتبہ ہجرت کرنے والے صحابہ میں سے بعض اس دوسرے قافلہ میں بھی شریک ہو گئے، دوسری بار بھی حضرت عثمانؓ معہ زوجہ حضرت رقیہؓ اور حضرت اُبوسلمہ ؓ بن عبدالاسد معہ زوجہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے ہجرت کی، ان کے علاوہ عبیداللہ بن جحش معہ زوجہ حضرت اُم حبیبہؓ بنت ابو سفیان بھی مہاجرین میں شامل تھے، حضرت ابو سلمہؓ اور حضرت عبیداللہ ؓ کی وفات کے بعد یہ دونوں خواتین یعنی حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت اُم حبیبہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں داخل ہوئیں ، دیگر مہاجرین میں ابو جہل کے سوتیلے بھائی حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ ، رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے حضرت ابوحذیفہ ، حضرت مصعبؓ بن عمیر، حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت زبیر ؓ بن عوام ، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود ، حضرت مقدادؓ بن عمر و ، حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفرؓ بن ابو طالب اور حضرت خالد ؓ بن حزام ابن ِ خویلد ( حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے) قابل ِذکر ہیں ، حضرت خالد ؓ بن حزام کی وفات حبشہ جاتے ہوئے راستہ میں سانپ کاٹنے سے ہوئی، حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب کی بیوی حضرت اسماء ؓ بنت عمیس تھیں جن کے بطن سے حبشہ میں تین فرزند پیدا ہوئے ،حبشہ جاتے وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفرؓ کو نجاشی کے نام ایک تعارفی خط دیا تھا جسے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی تصنیف " رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی" میں طبری ابن القیم اور قسطلانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ ( ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، رسول اکرم کی سیاسی زندگی ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبی ۱) تعارفی خط بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ کی طرف سے نجاشی اصحم بادشاہ حبشہ کے نام : " میں اس خدا کی تعریف تمہیں لکھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بادشاہ ِ مقدس ،سلامتی والا ، امان دہندہ اور سلامت رکھنے والا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیاتو وہ خداکی روح اور پھونک سے حاملہ ہوئیں جیسا کہ خدا نے حضرت آدم ؑ کواپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا ، میں تجھے خدا وحدہٗ لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اورمجھ پر نازل شدہ چیز پر ایمان لائے کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں اور میں تجھے اور تیرے لشکروںکو خدائے عزو جل کی طرف بلاتا ہوں ، میں نے پیام پہنچا دیا اور بہی خواہی کی ہے ، اب تم میری بہی خواہانہ نصیحت کو قبول کرو اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو بھیجا ہے جس کے ہمراہ چند مسلمان بھی ہیں،جب وہ تیرے پاس آئیں تو ان کی مہمان داری کر اور تکبّر چھوڑ دے ،سلام اُس پر جو ہدایت پر چلے" ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق اس تعارفی خط کے واقف کارانہ انداز سے گمان ہوتا ہے کہ شاید نبوت سے قبل بھی حضوراکرمﷺ خود حبشہ بہ سلسلہ تجارت تشریف لے گئے ہوں( دیگر مکی تاجروں کے ساتھ) اس لئے پہلی بار مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرتے وقت آپﷺ کا یہ فرمانا کہ " حبشہ میں ایک ایسے بادشاہ کی حکومت ہے جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا " ، واقف کارانہ انداز بتلاتا ہے ، حبشہ کا پایہ تخت اس زمانے میں اکسوم تھا ، بعد میں عدیس اباباپایہ تخت بنا، اس وقت کے نجاشی حکمرانوں کا نام اصمحہ تھا ، ابن اسحاق نے " مصمحہ " َلکھا ہے ، عربی زبان میں یہ لفظ عطیہ کے ہم معنی ہے،یہ فرمانروا اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا،حبشہ کی ہجرت کرنے والے دوسرے قافلہ میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا اس لئے مکہ کے ہر گھر میں کہرام مچ گیا، مسلمان حبشہ میں چین سے رہنے لگے ،یہ خبر سن کر قریش ِ مکہ بہت مضطرب ہوئے اور انھیں اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں مسلمان حبشہ میں جمع ہو کر ہم پر حملہ نہ کر دیں،یہ مسئلہ دارالندوہ میں پیش ہوا اور بعد غور و خوض طئے کیا گیا کہ ایک سفارت نجاشی کے پاس بھیجی جائے ، چنانچہ عمرو بن العاص ( بعد میں فاتح مصر) اور عبداللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کا ماں جایا بھائی) کو بہت سے تحفے دے کر حبشہ روانہ کیا گیا، انھوں نے حبشہ جا کر سب سے پہلے نجاشی کے امرأ اور مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کی اور ان سے نجاشی کے دربار میں اپنے معروضہ کی تائید کرنے کی درخواست کی،دوسرے دن مسلمان حضرت جعفربن ابی طالب کو اپنا ترجمان بنا کر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے، اندر داخل ہونے سے قبل انھوں نے آواز دی،" بادشاہ سلامت ! اللہ والوں کا گروہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے، نجاشی نے یہ آواز سن کر دربان سے کہلوایا کہ ان کلمات کو پھر سے دہرائیں، مسلمانوں نے ان کلمات کو دہرایا تو نجاشی نے جواب میں کہا،" اللہ کے حکم سے داخل ہوجاؤ کہ تم اس کی ہی حفاظت میں ہو، مسلمان " السلام علیکم" کہتے ہوئے دربار میں داخل ہوئے ؛لیکن نجاشی کو سجدہ نہیں کیا تو امراء نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی، مسلمانوں نے جواباً کہا کہ ہم اللہ کے سِوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، اس کے بعد نجاشی نے کفّار قریش سے کچھ سوالات کئے، عمرو بن العاص نے عرض کیا، اے بادشاہ ! ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر تھے، انھوں نے اسے چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کیا ہے ،" نجاشی نے اس بارے میں حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے آبا و اجداد کے بُت پرستی کے دین کو چھوڑ کر دین اسلام کو اختیار کر لیا ہے جسے ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھایا ہے جن پر بذریعہ وحی اللہ کے احکام نازل ہو رہے ہیں،یہ آسمانی کتاب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل جیسی ہے ،یہ سن کر نجاشی نے دربار میں راہبوں ، مذہبی پیشواؤں اور علماء کو جمع کر کے ان سے پوچھا " کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روزِ قیامت کے درمیان کوئی اور نبی آئے گا ؟انھوں نے کہا قسم ہے اللہ کی، ایک رسول ضرور آئے گا جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے اور فرمایا کہ جو اس رسول پر ایمان لائے گا وہ مجھ پر ایمان لائے گااور جو ان کے ساتھ کفر کرے گا وہ مجھ سے کفر کرے گا۔ (نعیم صدیقی ، محسن انسانیت ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ)