انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اتباع اور عدم اتباع شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جو آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ صحیحہ سے صراحتاً ثابت ہیں، اس قسم کے احکام، مسائل منصوصہ کہلاتے ہیں؛ لیکن بعض احکام ایسے ہیں، جن میں کسی قدر ابہام واجمال ہے اور بعض آیات واحادیث ایسی ہیں جو چند معانی کا احتمال رکھتی ہیں یعنی بعض محکم ہیں، بعض متشابہ، کوئی مشترک ہے تو کوئی مؤول اور کچھ احکام ایسے ہیں جو بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یاکسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں؛ جہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا پڑتا ہے اور خود زبان نبوت سے اس کی تائید وتصویب بھی ہوتی ہے (ترمذی، باب ماجاء فی انقاضی کیف یقضی، حدیث نمبر: ۱۲۴۹) ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لیے الجھن اور دشواری یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ کس پر عمل کرے اور کونسا راستہ اختیار کرے؟۔ اس الجھن کو دور کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان اپنی فہم وبصیرت پر اعتماد کرکے اس کا خود ہی فیصلہ کرلے اور اس پر عمل کرنا شروع کردے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں ازخود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھے کہ قرآن وسنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف صحابہ، تابعین اور تبع تابعین جو علوم قرآن وحدیث میں ہم سے زیادہ ماہر، فہم وبصیرت میں اعلیٰ، تقویٰ وطہارت میں فائق اور حافظہ وذکاوت میں ارفع تھے؛ انہوں نے کیا سمجھا ہے؟ جو انہوں نے سمجھا ہے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوجائے، ظاہر ہے کہ پہلے کے مقابلہ میں یہ راستہ بہتر اور اسلم ہے؛ اسی لیے امام غزالیؒ نے لکھا ہے: "عوام کا فرض ہے کہ وہ ایمان واسلام لاکر اپنی عبادتوں اور اذکار میں مشغول رہیں، علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اور اس کو علماء کے حوالے کردیں، عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے بھی زیادہ خطرناک ہے؛ کیونکہ جو شخص دینی علوم میں بصیرت وپختگی نہیں رکھتا وہ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے مسائل میں بحث کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی رائے قائم کرے جو کفر ہو اور اس کو اس کا احساس بھی نہ ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے وہ کفر ہے، اس کی مثال اس شحص کی سی ہے جو تیرنا نہ جانتا ہو اور سمندر میں کود پڑے"۔ (احیاء علوم الدین، باب معنی الوسوسۃ وسبب غلبتھا: ۲/۲۳۸) عام مسلمانوں کو شرعی حکم معلوم کرکے ان پر عمل کرنا ضروری ہے، ان کو باریکیوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ ایک صاحب، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سوال کیا: "آپ مجھے علمی دقائق بتائیے، آپﷺ نے ان سے چند سوالات کئے، تو خدا کی معرفت حاصل کرچکا؟ تو نے خدا کے کتنے حقوق ادا کئے؟ تجھے موت کا علم ہے؟ تو موت کی تیاری کرچکا؟ آخر میں آپﷺ نے فرمایا کہ توجا، اولاً بنیاد مضبوط کر؛ پھرآ، تومیں تجھے علمی دقائق سے باخبر کردوں گا"۔ (جامع بیان العلم وفضلہ: ۲/۳۵۰۔ حدیث نمبر:۷۹۸) اسی لیے جن زمانوں کے بارے میں زبان نبوت سے خیروبھلائی کی پیشین گوئی دی گئی تھی ان میں احکام شرعیہ کے بارے میں خود رائی نہیں تھی، مسائل کی تحقیق اہل علم سے کرنے کے بعد ہی اس پر عمل کرنے کا تعامل رہا ہے، اہل مدینہ حضرت زید بن ثابتؓ سے دینی مسائل میں رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے، حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے: "أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ سَأَلُوا ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ امْرَأَةٍ طَافَتْ ثُمَّ حَاضَتْ قَالَ لَهُمْ تَنْفِرُ قَالُوا لَا نَأْخُذُ بِقَوْلِكَ وَنَدَعُ قَوْلَ زَيْدٍ" (بخاری، باب اذا حاضت المرأۃ بعد ماافاضت، حدیث نمبر: ۱۶۳۹) اہل مدینہ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جو طواف فرض کے بعد حائضہ ہوگئی ہو (تووہ عورت طواف وداع کئے بغیر وپس ہوسکتی ہے یانہیں؟) ابن عباسؓ نے فرمایا: وہ طواف کئے بغیر واپس جاسکتی ہے، اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے قول (فتوی) پر عمل کرکے زید بن ثابتؓ کے قول (فتویٰ) کو ترک نہیں کریں گے۔ اسی طرح اہل مکہ حضرت ابن عباسؓ سے دینی مسائل پوچھا کرتے تھے اور خودرائی سے احتراز کرتے تھے؛ اسی طرح اہل کوفہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے دینی مسائل میں رجوع کیا کرتے تھے، ایک مسئلہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے اہل کوفہ نے پوچھا: پھروہی مسئلہ جب انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے دریافت کیا تو دونوں کے جواب میں فرق تھا، یہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے یہاں پہونچے اور عبداللہ بن مسعودؓ کا جواب ان کو سنایا تو بے ساختہ انہوں نے فرمایا: "لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحِبْرُ فِيكُمْ"۔ (بخاری، باب میراث ابنۃالابن مع بنت، حدیث نمبر:۶۲۳۹) جب تک یہ متبحر عالم (یعنی ابن مسعودؓ) تم میں موجود رہیں تمام مسائل انہی سے دریافت کیا کرو اور وہ جو فتویٰ دیں اسی پر عمل کرو، مجھ سے دریافت نہ کرو۔ یہی مزاج بعد کے ادوار میں بھی رہا، اہلِ اجتہاد کتاب وسنت سے مسائل مستنبط کیا کرتے تھے اور اہل حاجت ان سے رجوع کرتے تھے اور وہ حضرات ان کی رہنمائی کیا کرتے تھے؛ الغرض دورِصحابہ کرامؓ سے ہی حضرات مجتہدین نے مسائل شرعیہ غیرمنصوصہ میں اجتہاد کرنا شروع کردیا تھا اور جو حضرات رتبۂ اجتہاد تک پہونچے ہوئے نہیں تھے؛ انہوں نے ان حضرات مجتہدین کے علم وتقویٰ، فہم وفراست اور دین ودیانت پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے بذریعۂ اجتہاد جو کچھ معلوم کیا ہے وہ درحقیقت رسول اللہﷺ کی وہ احادیث ہیں جو بغرض اختصار موقوفاً نقل کی گئی ہیں یاکتاب وسنت سے اصولِ شرعیہ کی روشنی میں استنباط کئے گئے ہیں، اس لیے وہ قابل اتباع ہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "وَيَسْتَدِلُّ بِأَقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابَعِيْنَ عِلْمًا مِنْهُمْ أَنَّهَا إِمَّاأَحَادِيْثُ مَنْقُوْلَةٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ اِخْتَصَرُوْهَا فَجَعَلُوْهَا مَوْقُوْفَةً.... أَوْيَكُوْنُ اِسْتِنْبَاطًا مِنْهُمْ مِنَ النُّصُوْصِ أَوْاِجْتِهَادًا مِنْهُمْ بِآَرَائِهِمْ وَهُمْ أَحْسَنُ صَنِيْعًا فِيْ كُلِّ ذٰلِكَ مِمَّنْ يَجِيْءُ بَعْدَهُمْ وَأَكْثَرُ إِصَابَةً وَأَقْدَمُ زَمَانًا وَأَوْعٰى عِلْمًا فَتَعَيَّنَ الْعَمَلُ بِهَا"۔ (الانصاف فی بیان سبب الاختلاف: ۹) اور (تبع تابعین) صحابہ کرامؓ اور تابعین کے اقوال سے استدلال کیا کرتے تھے؛ کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اقوال یاتو احادیث ہیں جو منقول ہیں، رسول اللہﷺ سے جن کو مختصر کرکے موقوف بنالیا ہے، یایہ اقوال حکم منصوص سے حضراتِ صحابہؓ وتابعینؒ کے استنباط ہیں، یاان کی آراء سے بطورِاجتہاد لیے گئے ہیں اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین ان سب باتوں میں ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ان کے بعد میں ہوئے، وہ صحت ودرستگی تک پہونچنے، زمانہ کے لحاظ سے مقدم اور علم کے اعتبار سے بہت اونچے ہیں، اس لیے ان کے اقوال پر عمل کرنا متعین ہے۔ خلاصہ یہ کہ اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسن ظن کامعاملہ رکھنا وہ دولت ہے جس کے طفیل میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھوں میں محفوظ ہے، شاہ ولی اللہؒ ہی لکھتے ہیں: "اِنَّ الْأُمَّةَ اِجْتَمَعَتْ عَلٰى أَنْ يَّعْتَمِدُوْا عَلىٰ السَّلَفِ فِيْ مَعْرِفَةِ الشَّرِيْعَةِ فَالتَّابِعُوْنَ اِعْتَمَدُوْا فِيْ ذٰلِكَ عَلىٰ الصَّحَابَةِ وَتَبْعُ التَّابِعِيْنَ اِعْتَمَدُوْا عَلىٰ التَّابِعِيْنَ وَهٰكَذَا فِيْ كُلِّ طَبَقَةٍ اِعْتَمَدَ الْعُلَمَاءُ عَلىٰ مَنْ قَبْلَهُمْ"۔ (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید: ۱۳) احکام شریعت کے جاننے کے سلسلے میں امت نے بالاتفاق اپنے سے پہلے بزرگوں پر اعتماد کیا ہے؛ چنانچہ تابعین نے صحابہ کرام پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا، اسی طرح بعد والے علماء اپنے سے پہلے علماء پر اعتبار کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ پھر آگے حقیقت پر مبنی بات بڑے سلجھے انداز میں یوں لکھتے ہیں: "وَالْعَقْلُ يَدُلُّ عَلىٰ حُسَنِ ذٰلِكَ لِأَنَّ الشَّرِيْعَةَ لَاتَعْرِفُ إِلَّابِالنَّقْلِ وَالْاِسْتِنْبَاطِ وَالنَّقْلُ لَايَسْتَقِيْمُ إِلَّابِأَنْ تَأَخُذَ كُلَّ طَبْقَةٍ عَمَّنْ قَبْلَهَا بِالْاِتِّصَالِ"۔ (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید: ۱۳) اور عقل سلیم بھی اس بات کو اچھا سمجھتی ہے؛ کیونکہ شریعت بغیر نقل اور استنباط کے معلوم نہیں ہوسکتی اور نقل اسی وقت صحیح ہوگی جب بعد والے پہلے والوں سے اتصال کے ساتھ لیتے چلے آئیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس امت پر خصوصی فضل وکرم کی وجہ سے امت میں بے شمار مجتہدین پیدا ہوئے؛ مگرابتداء میں کسی مجتہد کے اصول وقواعد منضبط اور مرتب نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان کے مسائل اجتہادیہ مدون ہوئے تھے، اس لیے کسی خاص مجتہد کے تمام مسائل اجتہادیہ پر مطلع ہونا اور اس پر عمل کرنا آسان نہ تھا؛ اسی وجہ سے جس کو جو مجتہد مل جاتا اس سے اپنی ضرورت کا مسئلہ دریافت کرکے اس مسئلہ پر عمل کرلیا جاتا اور عام طبائع میں دین وتقویٰ کے غلبہ کی وجہ سے ان میں نفس وخواہش کی اتباع کا جذبہ مغلوب بلکہ نہ ہونے کے درجہ میں تھا؛ یہی سلسلہ دوسری صدی کے آخر تک بلاکسی نکیر کے جاری رہا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: "لِأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَزَالُوْا مِنْ زَمَنِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ إِلىٰ أَنْ ظَهَرَتِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةُ يُقَلِّدُوْنَ مَنِ اتَّفَقَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ َغَيْرِ نَكِيْرٍ مِنْ أَحَدٍ يُعْتَبَرُ إِنْكَارُهٗ وَلَوْكَانَ ذٰلِكَ بَاطِلًا لَأَنْكَرُوْهٗ"۔ (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید: ۱۲) اس لیے کہ لوگ زمانۂ صحابہ کرامؓ سے مذاھبِ اربعہ کے ظاہر ہونے تک جو علماء انہیں مل جاتے تھے ان سے مسئلہ پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرتے تھے، اس پر کسی معتبر آدمی نے انکار بھی نہیں کیا؛ اگر یہ غلط ہوتا تو لوگ ضرور اس پر نکیر کرتے۔ دوسری صدی ہجری اجتہاد واستنباط اور تحقیق مسائل کے شباب اور اس کے ارتقاء وکمال کا عہد ہے، کتنے ہی اولوالعزم فقہاء اور مخلص وحوصلہ مند مجتہدین ہیں جنہوں نے اس عہد میں احکام شریعت کے استنباط میں اپنی شبانہ روز محنتین صرف کردیں اور اپنے خونِ جگر سے علم وتحقیق کے چراغ کو روشن کیا اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا؛ لیکن اتفاقی طور پر بہت سے مجتہدین کے فتاویٰ واجتہادات محفوظ نہیں رہ سکے اور ان کوایسے شاگرد میسر نہیں آئے جو ان کے علمی وفکری آثار کو محفوظ رکھتے اور جن لوگوں کے فتاویٰ مرتب ہوئے اور ان کو قبول عام حاصل ہوا؛ لیکن رفتہ رفتہ وہ مفقود ہوتے چلے گئے؛ حتی کہ پانچویں صدی ہجری کے اختتام تک ان کی فقہ کا عملی زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا اور ان کے متبعین بھی نہیں رہے۔ (مقدمہ ابن خلدون: ۱/۲۵۷) لیکن ائمہ اربعہ وہ خوش قسمت مجتہدین ہیں جن کی فقہ کو من جانب اللہ بقاء حاصل ہوا اور جو گیارہ بارہ سو سال سے عملی طور پر قائم ونافذ ہے، ان مکاتب فقہ میں شخصیتوں کا تسلسل رہا ہے اور ہرعہد میں اس کے تقاضوں کے مطابق علم وتحقیق کا کام انجام بھی پاتا رہا ہے اور پورے طور پر ان سب کے آراء واجتہادات مرتب ومدون بھی ہیں، زندگی کا کوئی شعبہ ان مذاہب اربعہ میں تشنہ نہیں رہا، ہرشعبۂ حیات میں ان چاروں مکاتب میں امت کے لیے رہنمائی موجود ہے؛ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "وَلَمَّا انْدَرَسَتِ الْمَذَاهِبُ الْحَقَّةُ إِلَاهٰذِهٖ الْأَرْبَعَةُ كَانَ اِتِّبَاعُهَا اِتِّبَاعًا لِلسَّوَادِ الْأَعْظَمِ وَالْخُرُوْجُ عَنْهَا خُرُوْجًا عَنِ السَّوَادِ الْأَعْظَمِ"۔ (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید: ۱۳) اور جب ان چاروں مکاتب فقہیہ (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کے علاوہ دیگر مذاہب حقہ ناپیدا ہوگئے تو اب ان کی اتباع ہی سواداعظم کی اتباع ہے او ران کی اتباع نہ کرنا سواداعظم سے انحراف کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ دیگر مذاہب کے ناپید ہوجانے کے بعد جتنے بڑے بڑے علماء اور محدثین گذرے ہیں وہ سب ان میں سے کسی نہ کسی کے مقلد ہوئے ہیں، امام بخاریؒ باوجود مجتہد ہونے کے صحیح قول کے مطابق مقلد تھے اور شافعی تھے، امام نسائی بھی درجۂ اجتہاد پر فائز ہونے کے باوجود شافعی تھے (الحطہ: ۱۲۷) امام ابوداؤد جو حدیث وعلل حدیث کے حافظ، علم وفقہ اور صلاح وتقویٰ میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے وہ ایک قول کے مطابق شافعی اور ایک قول کے مطابق حنبلی تھے (الحطہ: ۱۳۵) اس کے علاوہ امام مسلم، امام ترمذی، امام بیہقی، امام دارِقطنی اور امام ابن ماجہ بھی مقلد تھے اور صحیح قول کے مطابق شافعی تھے، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن سعید قطان، یحییٰ بن ابی زائدہ، وکیع بن جراح، امام طحاوی، امام زیلعی بھی مقلد اور حنفی تھے، علامہ ذہبی، ابن تیمیہ، ابن قیم جوزی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ حنبلی المسلک تھے۔ ہندوستان ہی کو دیکھ لیجئے کہ جس قدر علماء کبار اور اولیاء کرام گذرے ہیں وہ سب کے سب تقلید کے پابند تھے اور تقریباً سبھی امام ابوحنیفہؒ کے مقلد تھے، مثلاً: شیخ علی متقی صاحب کنزالعمال متوفی:۹۷۵ھ شیخ عبدالدول جونپوریؒ شیخ عبدالوہاب برہانپوریؒ متوفی:۱۰۰۱ھ شیخ محمدطاہر پٹنی صاحبؒ مجمع البحار متوفی:۹۸۷ھ محدث واصولی ملاجیون صدیقی متوفی:۱۱۳۰ھ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ صاحبِ اشعۃ اللمعات متوفی:۱۰۵۲ھ شیخ نورالحق صاحب تیسرالقاری شرح بخاری (فارسی) متوفی:۱۰۷۳ھ محدث شیخ سلام اللہ شارح موطا مسمی بمحلی متوفی:۱۲۲۹ھ شاہ عبدالرحیم محدث دہلویؒ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ متوفی:۱۱۷۶ھ شاہ عبدالعزیز متوفی:۱۲۳۹ھ شاہ عبدالقادر محدث ومفسر قرآن متوفی:۱۲۶۳ھ شاہ اسماعیل شہید متوفی:۱۲۴۶ھ شاہ اسحاق محدث دہلوی متوفی:۱۲۶۲ھ شاہ قطب الدین صاحب مظاہرحق قدیم متوفی:۱۲۸۹ھ شاہ رفیع الدین دہلویؒ متوفی:۱۲۳۳ھ شاہ محمدیعقوب دہلوی متوفی:۱۲۸۲ھ قاضی محب اللہ بہاری متوفی:۱۱۱۹ھ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ متوفی:۱۲۲۵ علامہ نورالدین گجراتی صاحب نورالقاری شرح بخار متوفی:۱۱۵۵ھ شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی متوفی:۹۹۸ھ محدث عبدالکریم نہروانی گجراتی صاحب نہرالباری شرح بخاری متوفی:۱۰۱۴ھ محدث محی الدین عبدالقادر احمد آبادی گجراتی متوفی:۱۰۳۸ھ محدث خیرالدین بن محمدزاہد سورتی متوفی:۱۲۰۶ھ بحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی صاحب شرح مسلم الثبوت متوفی:۱۲۲۵ھ مولانا عبدالحیی لکھنوی متوفی:۱۳۰۴ھ مولانا احمد علی سہارنپوری محشی صحاح ستہ متوفی:۱۲۹۷ھ مولانا قاسم نانوتویؒ متوفی:۱۲۹۸ھ مولانا رشید احمدگنگوہیؒ متوفی:۱۳۲۳ھ مولانا یعقوب نانوتویؒ متوفی:۱۳۰۲ھ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی متوفی:۱۳۹۹ھ مولانا انورشاہ کشمیریؒ متوفی:۱۳۵۲ھ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ صاحب بذل المجہود متوفی:۱۳۴۶ھ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب فتح الملہم متوفی:۱۳۶۹ھ وغیرہ وغیرہ۔ اوراولیاء ہند میں سے: شیخ احمد مجدد الف ثانی متوفی:۹۷۱ھ مرزامظہرجان جاناں متوفی:۱۱۹۵ھ خواجہ معین الدین چشتیؒ متوفی:۶۳۳ھ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ متوفی:۶۳۳ھ یا ۶۳۴ھ خواجہ فرید الدین گنج شکر متوفی:۶۶۴ھ یا ۶۶۸ھ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ متوفی:۷۳۵ھ خواجہ علاء الدین صابر کلیریؒ متوفی:۶۹۰ھ وغیرہ وغیرہ حضرات محدثین ومفسرین، فقہاء اور مشائخین عظام مقلد ہی گذرے ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو "نزھۃ الخواطر، حدائق حنفیہ، انوار الباری کے مقدمہ کا حصہ دوم اور تذکرۂ محدثین"۔ ائمہ اربعہ کے مذاہب کا باقی رہ جانا اور تقلید کا انہی میں منحصر ہوجانا اور جمہور اہل سنت والجماعت کا مذاہب اربعہ پر متفق ہوجانا خدا کی نعمت عظمی ہے، ہرزمانہ میں محدثین اور علماء حقہ اس کی تصریح کرتے رہے ہیں، ملاجیون صدیقی، متوفی:۱۱۳۰ھ لکھتے ہیں: "وَالْاِنْصَافُ أَنَّ اِنْحِصَارَ الْمَذْاھِبِ فِیْ الْاَرْبَعَۃِ وَاِتِّبَاعُھُمْ فَضْلُ اِلہِٰیّ وَقَبُوْلِیَّۃٌ مِنْ عِنْدِاللہِ لَامَجَالَ فِیْہِ لِلِتَّوْجِیْہَاتِ وَالْاَدِلَّۃِ"۔ (تفسیرات احمدیہ: ۳۴۶) انصاف کی بات یہ ہے کہ مذاہب کا چار میں منحصر ہوجانا اور انہی چار مذاہب کی اتباع کرنا فضل الہٰی اور من جانب اللہ قبولیت ہے اور یہ فضل الہٰی کی دلیل وتوجیہ کا محتاج نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "اِعْلَمْ أَنَّ فِي الْأَخْذِ بِهٰذِهِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ مَصْلِحَةً عَظِيْمَةً وَفِيْ الْإِعْرَاضِ عَنْهَا كُلِّهَا مَفْسَدَةً كَبِيْرَةٌ"۔ (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید: ۱۳) جاننا چاہئے کہ ان چار مذاہب کے اختیار کرنے میں بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض وروگردانی میں بڑا مفسدہ ہے۔ او رآپ ہی اپنی ایک مایۂ ناز کتاب "حجۃ اللہ البالغہ" میں تحریر فرماتے ہیں: "هٰذِهِ الْمَذَاهِبَ الْأَرْبَعَةُ الْمَدَوَّنَةُ اَلْمُحَرَّرَةُ قَدِ اجْتَمَعَتِ الْأُمَّةُ - أَوْ مَنْ يَعْتَدُّ بِهٖ مِنْهَا - عَلىٰ جَوَازِ تَقْلِيْدِهَا إِلىٰ يَومِنَا هٰذَا"۔ (حجۃ اللہ البالغہ: ۳۲۵) یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یاامت کے معتمد حضرات نے ان کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے، جو آج تک باقی ہے۔ علامہ ابن نجیم مصریؒ، متوفی:۹۷۰ھ لکھتے ہیں: "وَمَاخَالَفَ الْاَئِمَّۃُ الْاَرْبَعَۃُ فَھُوَ مُخَالِفً لِلْاِجْمَاعِ"۔ (الاشباہ: ۱/۳۷۱، مکتبہ فقیہ الامت، دیوبند) کوئی فیصلہ ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو وہ اجماع کے خلاف ہے (اس لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا)۔ علامہ ابن ھمام، متوفی: ۸۶۱ھ نے لکھا ہے: "وَعَلٰی ھٰذَا مَاذَکَرَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِیْنَ مَنَعَ تَقْلِیْدَ غَیْرِالْاَرْبَعَۃِ لِاَنْضِبَاطِ مَذَاھِبِھِمْ وَتَقْیِیْدِ مَسَائِلِھِمْ وَتَخْصِیْصِ عُمُوْمِھَا وَلَمْ یَدُرْمِثْلَہٗ فِیْ غَیْرِھِمْ اَلْآنَ لِاِنْقِرَاضِ اِتِّبَاعِھِمْ وَھُوَصَحِیْحٌ"۔ (التحریر فی اصول الفقہ مع تیسیرالتحریر: ۴/۳۷۳) اور اسی بنیاد پر بعض متأخرین نے ذکر کیا ہے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید ہی متعین ہے، نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور ان چار ائمہ میں تقلید کا منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ علامہ ابن حجر ہیثمی، متوفی: ۹۷۴ھ لکھتے ہیں: "وَلَایَجُوْزُ اِجْمَاعًا تَقْلِیْدَ غَیْرِالْاَئِمَّۃِ الْاَرْبَعَۃِ فِیْ قَضَاءٍ وَلاَاِفْتَاءٍ"۔ (تحفۃ المحتاج، فصل فی آداب القضاء وغیرھا: ۴۳/۱۲۲) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور کی تقلید فتویٰ دینے اور قضا کے باب میں جائز نہیں ہے۔ اور علامہ مناوی، متوفی: ۱۰۳۱ھ نے صراحت کی ہے: "اَمَّاالْیَوْمٌ فَلاَیَجُوْزُ تَقْلِیْدُ غَیْرِالْاَئِمَّۃِ الْاَرْبَعَۃِ فِیْ قَضَاءٍ وَلاَاِفْتَاءٍ لالِنُقْصِ فِیْ مَقَامِ اَحَدٍ مِنَ الصُّحُبِ وَلاَلِتَفْضِیْلِ اَحَدِ الْاَرْبَعَۃِ عَلٰی اُولَئِکَ بَلْ لِعَدَمٍ تَدْوِیْنِ مَذَاھِبِ اِلْاَوَّلِیْنَ وَضَبْطِھَا وَاِجْمَاعِ شُرُوْطِہَا"۔ (فیض القدیر: ۴/۶۶۴۔ حدیث نمبر:۶۰۹۶) اس زمانہ میں ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی کی تقلید نہ قضا میں جائز ہے اور نہ فتویٰ میں اور یہ بات اس لیے نہیں ہے کہ متقدمین مجتہدین میں کسی قسم کی کمی تھی یا ان ائمہ اربعہ کو دیگر مجتہدین پر کلی فضیلت ہے؛ بلکہ یہ اس لیے ہے کہ پہلے مجتہدین کے آراء مدون نہیں ہیں اورنہ ان کے قواعد وشرائط معروف ہیں۔ اور مشہور محدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ، متوفی: ۱۲۲۵ھ تحریر فرماتے ہیں: "فَاِنَّ اَھْلَ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ قَدِافْتَرَقَ بَعْدَ الْقَرْنِ الثَّلٰثَۃِ اَوِالْاَرْبَعَۃِ عَلیٰ اَرْبَعَۃِ مَذَاھِبٍ وَلَمْ یَبْقَ فِیْ فُرُوْعِ الْمَسَائِلِ سِوَی ھٰذِہِ الْمَذَاھِب اِلْاَرْبَعَۃِ فَقَدِ اِنْعَقَدَ الْاِجْمَاعُ الْمُرَکَّبُ عَلٰی بُطُلَانِ قَوْلِ مَنْ یُّخَالِفُ کُلَّہُمْ َوَقَدْ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: وَمَنْ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ"۔ (التفسیرالمظہری: ۲/۶۴) تیسری یاچوتھی صدی ہجری کے بعد فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے چار مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہ رہا؛ گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہو وہ باطل ہے اور خدا تعالیٰ کا فرمان ہے: اور جو شحص مؤمنین کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلے گا تو ہم اس کو وہ جو کچھ کرتا ہے کرنے دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔ اور محمدعلی بن محمد بن علان شافعیؒ، متوفی: ۱۰۵۷ھ لکھتے ہیں: لاَیَجُوْزَ تَقْلِیْدُ غَیْرِالْاَئِمَّۃِ الْاَرْبَعَۃِ الشَّافَعِیِّ وَمَالِکِ وَابِیْ حَنِیْفَۃَ وَاَحْمَدَ لِاَنَّ ھٰؤُلاَءِ عَرَفَتْ مَذَاھِبُہُمْ وَاسْتَقَرَّتْ اَحْکَامُہَا وَخَدَمُہَا تَا بِعُوْھُمْ وَحَرَّرُوْاھَا فَرْعًا فَرْعاً وَحُکْمًا حُکْمًا"۔ (دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین: ۲/۱۰۱) ائمہ اربعہ امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے قواعد معروف ہیں، ان کے مسائل کی تنقیح ہوچکی ہے اور ان کے متبعین نے ان کے مذاہب کی خدمت کی ہے اور تمام احکام کو فرعاً فرعاً لکھ دیا ہے اور ہرایک کا حکم بھی بیان کردیا ہے۔ اور علامہ ابن امیر حاج، متوفی: ۸۷۹ھ کی صراحت ان الفاظ میں نقل کی ہے: "مَنَعَ تَقَلِیْدُ غَیْرَالْاَئِمَّۃِ الْاَرْبَعَۃِ ابِیْ حَنِیْفَۃَ وَمَالِکِ وَالشَّافِعِیِّ وَاَحْمَدَ رَحِمَھُمُ اللہُ لاِنْضِبَاطِ مَذَاھِبِہَمْ وَتَقْیِیْدِ مُطْلَقٍ مَسَائِلَہُمْ وَتَخْصِیْصِ عُمُوْمِہَا وَتَحْرِیْرِ شُرُوْطِہَا اِلیٰ غَیْرِ ذٰلِکَ"۔ (التقریروالتحبیر: ۶/۲۳۳) ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدؒ کے علاوہ کی تقلید ممنوع ہے، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب منضبط ہوگئے ان کے مسائل میں جہاں قید لگانے کی ضرورت تھی یاعام حکم تھا اور اس کو نصوص کی روشنی میں تخصیص کی ضرورت تھی تو ایسا کردیا گیا اور ان کے شرائط کا ذکر ہوچکا اور اس کے علاوہ جو کمی تھی اس کی تلافی ہوچکی ہے (جب کہ دوسرے مذاہب میں اس طرح کی بات نہ ہوسکی)۔ اسی طرح سیداحمد طحطاوی، متوفی: ۱۲۳۳ھ لکھتے ہیں: "فَعَلَیْکُمْ یَامَعْشَرَالْمُسْلِمِیْنَ بِاِتّبَاعِ الْفِرْقَۃِ النَّاجِیَّۃِ الْمُسَمَّاۃِ بِاَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَاِنَّ نُصْرَۃَ اللہِ فِیْ مُوَافَقَتِہِمْ وَخُذْلاَنِہِ وَسَخْطِہٖ وَمَقْتِہِ فِیْ مُخَالَفَتِھِمْ وَھٰذِہِ الطَّائِفَۃُ النَّاجِیَّۃُ قَدِاجْتَمَعَتِ الْیَوْمَ فِی الْمَذَاھِب اِلْاَرْبَعَۃِ ھُمُ الْحَنَفِیُّوْنَ وَالْمَالِکِیُّوْنَ وَالشَّافَعِیُّوْنَ وَالْحَنْبَلِیُّوْنَ وَمَنْ کَانَ خَارِجاً عِنْ ھٰذِہِ الْمَذَاھِبِ الْاَرْبَعَۃِ فِیْ ذٰلِکَ الزَّمَانِ فَھُوَ مِنْ اَھْلِ الْبِدْعِ وَالنَّارِ"۔ (طحطاوی علی الدر، کتاب الذبائح: ۴/۱۵۳) اے گروہ مسلمانان! تم کو نجات پانے والی جماعت کی جو اہل سنت والجماعت کے نام سے موسوم ہے، پیروی کرنا واجب ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اہل سنت والجماعت کے ساتھ موافقت کرنے میں ہے اور ان کی مخالفت کرنے میں خدائے تعالیٰ کے غضب، رُسوائی وناراضگی کا خطرہ مول لینا ہے اور یہ نجات پانے والی جماعت آج چار مذاہب میں سمٹ گئی ہے اور وہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور جو آج اِن چار مذاہب سے خارج ہے وہ اہل بدعت اور اہل نار سے ہے (اہل سنت والجماعت میں داخل نہیں ہے)۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: "جمہور امت جس چیز پر ہے وہ یہ ہے کہ اجتہاد فی الجملہ جائز ہے اور تقلید بھی فی الجملہ جائز ہے، نہ تو جمہور نے ہرایک پر اجتھاد کو واجب کرتے ہوئے تقلید کو حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی ہرایک پر تقلید کو واجب کرتے ہوئے اجتہاد کو حرام بتایا ہے، جو شخص اجتہاد پر قادر ہے اس کے لیے اجتہاد جائز ہے اور جو اجتہاد سے عاجز ہے اس کے لیے تقلید جائز ہے"۔ (مجموع الفتاوی: ۳۰/۲۰۳) شیخ محمد بن عبدالوہاب کے صاحبزادے شیخ عبداللہ اپنے ایک رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں: "ہم فروع (فقہیات) میں امام احمد بن حنبل کے مذہب پر ہیں اور ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید کرنے والے پر انکار نہیں کرتے، ہاں! دوسرے مثلاً رافضی، زیدی وامامی وغیرہ، تو ہم ان کے غلط مذہب پر انکار کرتے ہوئے ان کو ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر مجبور کرتے ہیں"۔ (الہدیۃ السنیۃ: ۲۸) سعودیہ کے ممتاز علماء وارباب افتاء ائمہ اربعہ کی تقلید کو مطلقاً حرام وغلط قرار نہیں دیتے؛ چنانچہ ان کے ایک فتویٰ میں آیا ہے: "مذاہب اربعہ کے ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدممتاز اہل علم میں سے اور نبی کریمﷺ کے اتباع سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو احکام شرعیہ کے تفصیلی دلائل سے استنباط واجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کی تقلید کرنے والا کافر نہیں ہے؛ کیونکہ کوئی آدمی اگر ایسا ہو کہ وہ احکام شرعیہ کو نہ جانتا ہو اور چاروں مذاہب میں سے کسی کی اتباع کرے تو اس پر اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے"۔ (فتویٰ نمبر: ۱۲۵۴۸، محررہ: ۲۹/۱۴۰) رابطہ العالم الاسلامی مسلمانوں کا ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا صدر مرکز مکہ مکرمہ میں ہے، اس کے ماتحت بہت سی مجالس ہیں جن میں ایک فقہی مجلس بھی ہے، جس کے اراکین وممبران میں عالم اسلام کے ممتاز فقہاء شامل ہیں، اس مجلس فقہی کے دسویں سیمینار میں امت کے اندر پائے جانے والے مذاہب ومسالک کے اختلاف کی بابت ایک مبسوط تجویز پاس ہوئی، جس کا ضروری حصہ اس موقع سے نقل کیا جاتا ہے، اس تجویز وفیصلے پر دستخط کرنے والوں میں عالم اسلام کے چند ممتاز علماء وفقہاء میں سعودیہ کے متعدد علماء بھی تھے، جن میں نمایاں نام بحیثیت صدرِ مجلس شیخ ابن بازؒ کا ہے؛ نیز صالح فوزان اور شیخ محمدبن عبداللہ بن سبیل امام حرم کا بھی نام ہے، تجویز کی عبارت معمولی حذف ولفظی ترمیم کے ساتھ درجِ ذیل ہے: "اسلامی ممالک میں پائے جانے والے اختلافات دونوعیت کے ہیں: (۱)اعتقادی (۲)فقہی، اعتقادی اختلاف فی الواقع ایسی مصیبت ہے جس نے عالم اسلام میں بڑے بڑے حادثات برپا کئے ہیں..... اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے، پوری امت کا فرض ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کا مسلک اختیار کرلیں۔ دوسری نوعیت جو بعض مسائل میں فقہی اختلاف کی ہے اس کے پسِ پشت کچھ علمی اسباب ہیں، جن میں اللہ کی عظیم حکمت اور بندوں پر اس کی رحمت کارفرما ہے، ساتھ ہی اس کی وجہ سے نصوص سے استنباط احکام کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوئی ہے، یہ اختلاف ایک نعمت اور عظیم قانون وفقہی سرمایہ ہے، جس نے امت مسلمہ کو اپنے دین وشریعت کی بابت انتہائی کشادگی وآسانی عطا کی ہے، امتِ مسلمہ اس کی وجہ سے کسی شرعی تطبیق میں اس طرح محدود ہوکر نہیں رہ جاتی کہ اس سے تجاوز کا امکان نہ ہو؛ بلکہ اگر کبھی ایک مسلک کے لحاظ سے کوئی تنگی ودشواری آجاتی ہے تو دوسرے مسلک میں اس کے لیے کشائش وآسانی میسر ہوتی ہے، عبادات سے لیکر معاملات، خانگی امور اور قضاء وجنایات تک تمام میدانوں میں یہ کشائش میسر رہتی ہے۔ یہ فقہی اختلاف ہمارے دین میں کوئی نقص یاتناقض نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی طرح تناقض ونقص قرار دیاجاسکتا ہے، دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے پاس فقہ واجتہاد کے ساتھ قانون سازی کا مکمل نظام ہو اور اس میں یہ فقہی اور اجتہادی اختلاف نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے اختلافات کا نہ ہونا ناممکن ہے؛ کیونکہ نصوص بیشتر امور میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال رکھتی ہیں؛ نیزیہ نصوص تمام امکانی واقعات کا احاطہ بھی نہیں کرسکتیں؛ لہٰذا قیاس کی طرف رجوع اور احکام کی علتوں، شارع کی اغراض وشریعت کے عام مقاصد پر نظر رکھنا اور شریعت کو نئے پیش آمدہ امور میں حکم ماننا ضروری ہے اور اس تطبیق واجتہاد میں علماء کے فہم وفقاہت اور احتمالات کے درمیان ترجیح کی تعیین میں اختلاف ایک فطری امر ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع پر مختلف علماء کے احکام مختلف ہوجاتے ہیں؛ جبکہ حق کی تلاش ودریافت ہی ہرایک کا مقصود ہوتا ہے، اس میں جس کا اجتہاد صحیح ہوتا ہے وہ دہرے اجر کا مستحق ہوتا ہے اور جس سے غلطی ہوجائے وہ بھی ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے، اس طرح کشائش کا دائرہ وسیع ہوتا رہتا ہے اور دشواری وتنگی دور ہوتی ہے؛ لہٰذا اس فقہی اختلاف میں کہاں سے کوئی نقص ہوگا، یہ تو سراپا خیرورحمت اور فی الواقع بندوں پر اللہ کی رحمت وشفقت اور نعمت ہے اور ساتھ ہی فقہ وقانون سازی کی دنیا میں ایسا عظیم سرمایہ وامتیاز ہے جس پر امت مسلمہ بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ لیکن اسلام کو اپنی آنکھوں میں کھٹکنے والا کانٹا سمجھنے والے دشمنانِ اسلام مسلم نوجوانوں بالخصوص بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی اسلامی ثقافت ومعلومات میں کمی کا استحصال کرتے ہوئے انہیں یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ فقہی اختلاف بھی اعتقادی اختلاف کے مانند ظلم اور شریعت میں تناقض وتضاد ہے اور دونوں کے درمیان جو زبردست فرق ہے اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ جہاں تک دوسرے طبقہ کا تعلق ہے جو ان تمام مسالک ہی کو پس پشت ڈال دینا چاہتا ہے اور لوگوں کو ایک نئے اجتہاد کی دعوت دیتے ہوئے موجودہ فقہی مسالک اور ان کے ائمہ عظام کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتا ہے اوپر پیش کردہ ان فقہی مسائل کی اہمیت وامتیاز اور ان کے ائمہ کی عظیم خدمات کے پیش نظر اس طبقہ کو چاہئے کہ اس ناپسندیدہ اور گھٹیا طرزِ عمل سے گریز کرے، جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرتا ہے اور انہیں ایسے نازک وقت میں منتشر کرتا ہے جس میں دشمنانِ اسلام کی خطرناک سازشوں کے مقابلے میں پوری امت کو ایک جھنڈے تلے جمع ہوجانے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ (المجمع الفقہ الاسلامی، مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے: ۲۰۵۔ ۲۰۸، اُردو، شائع کردہ فقہ اکیڈمی، دہلی) ان نقول وتصریحات سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ مذاہب اربعہ کا اتباع درحقیقت سوادِ اعظم کا اتباع ہے، جو ازروئے حدیث واجب ہے اور مذاہب اربعہ سے خروج سوادِاعظم سے خروج ہے جو گمراہ کن ہے، امت کا مذاہب اربعہ کے ماننے پر متفق ہوجانا منجانب اللہ ایک الہامی راز ہے اور خدا کا فضل ہے اور آج چونکہ انہی مذاہب اربعہ کے مسائل منقح ہیں، مدون ہیں، انہوں نے اور ان کے متبعین نے ہرباب کے مسائل کو اس کے مناسب باب کے تحت ذکر کیا ہے، مسائل کی تحقیق وتدقیق میں غیرمعمولی جدوجہد کی ہے، ہرمسئلہ کو نصوص کی روشنی میں پرکھا، مسائل کے اصول ودلائل ذکر کئے، ان کی علتیں بیان کیں اور مسائل کی تہہ تک پہونچنے کی آخری کوشش صرف کرکے پیدائش سے لیکر موت تک کے سارے مسائل کو لکھا اور امت کی رہنمائی کا ہرباب کے تحت مکمل سامان فراہم کردیا، ظاہر ہے کہ اس طرح کی تحقیق وتدقیق ہرباب سے متعلق ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی امام ومجتہد کے یہاں نہیں ملتی؛ لہٰذا اگر کوئی ان مذاہب اربعہ کے علاوہ کسی اور کے مذہب کے مطابق عمل کرنا چاہے تو اسے ہرباب کے تحت صحیح رہنمائی نہ مل سکے گی اور نہ ہرمسئلہ کی دلیل وبنیاد اور اس کی علت مل سکے گی کہ ایک انسان کے لیے باعث اطمینان ہوسکے، اس کے باوجود اگر کوئی ان مذاہب اربعہ سے نکل کر کسی اور کی تقلید کرے گا تو یہ نفس وخواہش کی تقلید کے مترادف ہوگا، جس کے بڑے نقصانات ہیں، ذیل میں اس کے کچھ نقصانات ذکر کئے جارہے ہیں: آگے اعمال کے لحاظ سے ان کے کورے ہونے اور فسق وفجور میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ان فاسقوں (ائمہ اربعہ میں سے کسی کو نہ ماننے والوں) میں بعض تو کھلم کھلا جمعہ، جماعت اور نماز وروزہ چھوڑ بیٹھتے ہیں، سود شراب سے پرہیز نہیں کرتے اور بعض جو کسی مصلحتِ دنیاوی کے باعث فسقِ ظاہری سے بچتے ہیں وہ فسقِ خفی میں سرگرم رہتے ہیں، ناجائز طور پر عورتوں کو نکاح میں پھنسالیتے ہیں، کفر وارتداد اور فسق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں؛ مگردینداروں کے بے دین ہوجانے کا بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ کم علمی کے باوجود تقلید چھوڑ بیٹھتے ہیں"۔ (اشاعۃ السنۃ، جلد:۱۱، شمارہ:۱۱، صفحہ:۵۳) ائمہ اربعہ کو نہ ماننے والے غالی ومتعصب ہیں نواب صدیق حسن خان جو صاحب تصانیف علماء میں سے ہیں اور غیرمقلدین کے قابلِ احترام پیشوا ہیں، وہ خود اپنی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین کیوں کر اپنا نام خالص موحد رکھتے ہیں اور دوسروں کو (جو تقلیدِ ائمہ کرتے ہیں) مشرک کہتے ہیں، حالاں کہ یہ خود سب لوگوں سے بڑھ کر سخت متعصب اور غالی ہیں"۔ (الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ: ۱۳) نصوص سے بے اعتنائی مولانا نواب وحیدالزماں صاحب رحمہ اللہ جو غیرمقلدین کے نامور عالم ہیں اور صحاحِ ستہ کے ترجمہ میں ان کی غیرمعمولی خدمات ہیں، انہوں نے غیرمقلدین کے بارے میں خود اپنے قلم سے لکھا ہے کہ وہ نصوص تک کا انکار کربیٹھتے ہیں: "غیرمقلدین کا گروہ جو اپنے تئیں اہل حدیث کہتے ہیں انہوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ..... قرآن کی تفسیر صرف لغت سے اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جو تفسیر آچکی ہے اس کو بھی نہیں سنتے"۔ (لغات الحدیث: ۲/۹۱، مادہ ش از نواب وحیدالزماں) مولانا عبدالجبار غزنوی جو اہل حدیث کے قابل اعتماد عالم ہیں؛ انہو ں نے یہ لکھا ہے: "ہمارے اس زمانہ میں ایک فرقہ نیا کھڑا ہوا ہے جو اتباع حدیث کا دعوی رکھتا ہے اور درحقیقت وہ لوگ اتباع حدیث کے کنارے ہیں..... احادیث مرفوعہ کو چھوڑ رکھا ہے اور متصل الاسناد آثار کو پھینک دیا ہے اور ان کو دفع کرنے کے لیے وہ حیلے بناتے ہیں کہ جن کے لیے کسی یقین کرنے والے کا شرح صدر نہیں ہوتا اور نہ کسی مؤمن کا سراٹھتا ہے"۔ (فتاویٰ علماء اہل حدیث: ۷/۸۰) اجماعی مسائل سے بے توجہی صحاحِ ستہ کے مترجم مولانا نواب وحیدالزماں اس تعلق سے لکھتے ہیں: "غیرمقلدین کا گروہ جو اپنے تئیں اہل حدیث کہتے ہیں انہو ں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماع کی بھی پرواہ نہیں کرتے، نہ سلف صالحین، صحابہ اور تابعین کی"۔ (حدیث اور اہل حدیث: ۱۰۳) اور مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: "ہمارے اس زمانہ میں ایک فرقہ نیا کھڑا ہوا ہے جو اتباع حدیث کا دعویٰ رکھتا ہے اور درحقیقت وہ لوگ اتباع حدیث سے کنارے ہیں جو حدیثیں کہ سلف وخلف کے یہاں معمول بہا ہیں ان کو ادنی سی قدح اور کمزور جرح پر مردود کہہ دیتے ہیں..... اور ان پر اپنے بیہودہ خیالوں اور بیمار فکروں کو مقدم کرتے ہیں اور اپنا نام محقق رکھتے ہیں"۔ (فتاویٰ علمائے اہل حدیث: ۷/۸۰) صحابہؓ کی شان میں گستاخی ائمہ اربعہ کی تقلید نہ کرنے والوں کے یہاں پوری جماعت صحابہ ہی غیرمعتبر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کے سفاک ہاتھوں سے خلفاء راشدین، اہل بیت اطہار، ازواجِ مطہرات اور عام صحابہ کرام کا وقار واعتبار نہ بچ سکا، اس جماعت کی کتاب میں صحابہ کرام کے بارے میں لکھا ہے: "کچھ صحابہ فاسق تھے، جیساکہ ولید اور اس کے مثل کہا جائے گا معاویہ، عمرو، مغیرہ، سمرہ کے حق میں، لایجوز لہم الترضی"۔ (نزل الابرار: ۹۴) یعنی ان لوگوں کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا جائز نہیں ہے، عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بلااستشنا تمام صحابہؓ کو رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ فرمائیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو سبق سکھارہے ہیں کہ لایجوز لہم الترضی، اسی طرح حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروبن عاص کے بارے میں لکھا ہے: "دونوں باغی، سرکش اور شریر تھے"۔ (رسائل اہل حدیث: ۹۳) حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ صحابی رسول اور خلیفۂ دوم ہیں، احادیث میں ان کی اطاعت کا حکم موجود ہے، نبیﷺ نے ان پر اعتماد کیا اور ان کے قلب وزبان پر حق کے جاری ہونے کی بشارت دی گئی ہے؛ لیکن غیرمقلدین کو ان پر اعتماد نہیں ہے، ان کی تحریر ملاحظہ ہو: "بہت صاف صاف اور موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے ان میں غلطی کی، ان مسائل کے دلائل سے وہ بے خبر تھے"۔ (طریق محمدی: ۵۴) ان لوگوں کا تراویح کو بدعت عمری کہنا اور حضرت عثمان غنیؓ کے جاری کردہ اذان ثانی کو بدعت عثمانی قرار دینا، سب کو معلوم ہے، جب کہ ہرشخص جانتا ہے کہ بدعت بدترین گناہ اور دین میں زیادتی کی مذموم کوشش ہے، کیا اس سے حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ بے خبر تھے؟ اور کیا ان سے اس کا ارتکاب ہوسکتا تھا؟ اسی طرح حضرت علیؓ جو دامادِ رسولﷺ ہیں، علوم اسلامی اور علومِ نبوی کے امین ہیں، کتب حدیث ان کے فضائل سے بھری پڑی ہیں؛ مگران کے متعلق اس جماعت کا عقیدہ ہے: "سیدنا علیؓ کے خود ساختہ حکمرانہ عبوری دور کو خلافت راشدہ میں شمار کرنا صریحاً بددیانتی ہے"۔ (خلافتِ راشدہ: ۶۵، ازحکیم فیض عالم) حضرت عائشہ صدیقہؓ جو ام المؤمنین ہیں، جن کی پاکبازی کی شہادت قرآن پاک نے دی ہے؛ لیکن ان کے متعلق ان کی کتابوں میں ہے: "انہوں نے (یعنی حضرت عائشہؓ نے) حضرت علیؓ سے جنگ کرکے ارتداد کیا اور اگر بلاتوبہ ان کی موت ہوئی تو یہ کفر پر موت ہے"۔ (کشف الجواب: ۳۱، از عبدالحق بنارسی) صحابی رسول حضرت ابوذر غفاریؓ کو کمیونزم سے متاثر قرار دیا گیا، ذرا کلیجہ تھام کر پڑھئے: "ابن سبا کے کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوکر ہرکھاتے پیتے مسلمان کے پیچھے لٹھ لیکر بھاگ اٹھتے تھے"۔ (خلافت راشدہ: ۴۳، از حکیم فیض عالم) ائمہ جرح وتعدیل نے الصحابۃ کلہم عدول کہکر تمام صحابہ کو قابل اعتماد اور عادل ٹھہرایا ہے اور اہل سنت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہؓ قابل اعتماد، دیانت دار، پاکباز اور صادق القول تھے؛ لیکن نواب صدیق حسن خان صاحب کا کہنا ہے: "صحابی کا قول قابل حجت نہیں"۔ (التاج المکلل: ۲۹۲) فقہاء محدثین اور اولیاء اللہ کی بے ادبی جب صحابہؓ کا یہ حال ہے تو فقہاء محدثین اور اولیاء عظام کس شمار میں آسکتے ہیں؛ چنانچہ نواب وحیدالزماں حیدرآبادی اہل حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: "ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ اور حضرات صوفیاء کے حق میں بے ادبی اور گستاخی کے کلمات زبان پر لاتے ہیں"۔ (لغات الحدیث: ۲/۹۱، مادہ: ش) ابن شہاب زہریؒ ایک بڑے محدث ہیں، کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے تدوین حدیث کا شرف انہی کو حاصل ہے، ان کے حق میں ایک غیرمقلد نے لکھا ہے: "منافقین وکذابین کے دانستہ نہ سہی نادانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے، اکثر گمراہ کن، خبیث اور مکذدبہ روایتیں ان کی طرف منسوب ہیں"۔ (صدیقۂ کائنات: ۸۰) یہ تو صحابہؓ، فقہاء، محدثین اور اولیاء اللہ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی چند مثالیں تھیں، اس کے برخلاف دین سے دور بلکہ دین سے خارج اور کافر ومرتد کے بارے میں ان کے خیالات وآراء کو پڑھئے اور سردھنئے، صحابہؓ کو تو وہ فاسق، باغی اور سرکش وشریر قرار دیتے ہیں؛ لیکن قادیانی مرتدین کے بارے میں غیرمقلد کے ایک بڑے عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں: "میرامذہب وعمل یہ ہے کہ ہرکلمہ گو کے پیچھے اقتداء جائز سمجھتا ہوں، وہ شیعہ ہو یامرزائی"۔ (اخبار اہل حدیث: ۲۱/اپریل ۱۹۱۵ء) نماز کی طرح وہ قادیانی عورت سے نکاح کو بھی جائز سمجھتے ہیں: "میرے ناقص علم میں مرزائن سے نکاح جائز ہے"۔ (اخبار اہل حدیث: ۲/نومبر ۱۹۳۴ء) کفر وارتداد اس جماعت کی فکری آزادی اور مذہبی بے راہ روی نے اسے کہاں تک پہونچایا ہے اس کی چند مثالیں آپ پڑھ چکے ہیں، اس کے بعد ہرایک صاحب سمجھ اس نتیجہ پر بآسانی پہونچ جائے گا کہ ترک تقلید دراصل گمراہی کا ایک دروازہ ہے، اس میں داخل ہونے والا ضلالت کی کسی بھی حد تک پہونچ سکتا ہے، ایک غیرمقلد عالم مولانا عبدالواحد خانپوری کا ارشاد ملاحظہ ہو: "اس زمانہ کے جھوٹے اہل حدیث، مبتدعین، مخالفینِ سلف صالحین جو حقیقت میں ماجاءبہ الرسول سے جاہل ہیں، وہ صفت میں وارث وخلیفہ ہوئے ہیں شیعہ ورافضی کے، یعنی شیعہ جس طرح پہلے زمانوں میں مسلمانوں میں باب اور دہلیز کفرونفاق تھے اور مدخل ملاحدہ وزنا دقہ تھے اسلام کی طرف، اس طرح یہ جاہل بدعتی اہل حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اورمدخل ہیں"۔ (التوحید والسنتہ فی رداھل الالحاد والبدعۃ: ۲۹۲) اور مولانا حسین احمد بٹالوی اپنا پچیس سالہ تجربہ یوں بیان کرتے ہیں: پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں آخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں۔ (اشاعت السنۃ، شمارہ:۲/جلد:۱۱/سنہ۱۸۸۸ء) اب ذیل میں کچھ تاریخی حقائق بھی دیکھ لیجئے: v حافظ محمداسلم جیراجپوری پہلے غیرمقلد تھے (نوادرات: ۳۴۳۔۳۷۱) پھرمنکرین حدیث میں شامل ہوئے۔ v قادیانی کا خلیفۂ اوّل حکیم نورالدین پہلے غیرمقلد تھا (تاریخ احمدیت: ۴/۶۹) پھر قادیانی بنا۔ v عبداللہ چکڑالوی غیرمقلد تھا (موج کوثر: ۵۲) بعد میں منکر حدیث بن گیا۔ v نیاز فتحپوری ترک تقلید کی راہ سے ملحد ہوئے۔ (من دیزداں: ۱/۵۴۷) v ڈاکٹراحمددین پہلے غیرمقلد تھے (پیغام توحید: ۱۶) پھر منکر حدیث بنے۔ v مرزا غلام احمد قادیانی بھی غیرمقلدین کا ہم مسلک تھا، وہ کہتاتھا کہ: ۱۔ تین کوس کے سفر میں نماز میں قصر کرنا درست ہے۔ (ملفوظاتِ احمدیہ: ۱/۱۹۹) ۲۔ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھتا تھا۔ (ملفوظات احمدیہ: ۱/۲۰۱۔ مجدداعظم: ۲/۲۳۳) ۳۔ وہ سینہ پر ہاتھ باندھتا تھا۔ (ذکرحبیب: ۲۴، ازمفتی محمدصادق) ۴۔ آٹھ رکعت تراویح کا قائل تھا۔ (سیرۃ المہدی: ۲/۱۳) v سرسیداحمدخان پہلے غیرمقلد پھرمنکرحدیث ہوئے۔ v عنایت اللہ مشرقی پہلے غیرمقلد پھر ملحدوبے دین ہوئے۔ v غلام احمد پرویز پہلے غیرمقلد تھے پھرمنکرحدیث ہوئے۔ v مسعود احمد پہلے غیرمقلد تھے پھرامام مفترض الطاعۃ ہوئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، التوحید والسنۃ فی رداہل الالحاد والبدعۃ) یہ ترکِ تقلید کی وہ دینی مضرتیں ہیں جس کے پیشِ نظر علماء متقدمین نے مسلمانوں کو تقلید کا پابند کرکے ان مضرتوں اور نقصانات سے محفوظ کرلیا تھا، کیسے کیسے علماء ومحدثین، مینارۂ علم وعمل اور جبالِ دین ودیانت نے تقلید کا اہتام کیا ہے، آخر کس طرح ان کے کمالات اور دینی خدمات کا انکار کیا جاسکتا ہے؛ انہی حضرات کے دم سے اسلام زندہ رہا اور ہے؛ لہٰذا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن وحدیث پر عمل کے لیے ان علماء ربانیین پر اعتماد کریں اور سبیل المؤمنین کی اتباع کے مسلم ومتوارث طریق کو ان گمراہان فکروخیال سے متاثر ہوکر ترک نہ کریں؛ ورنہ جو حشر ان کا ہوا ہے وہ ہمارا بھی ہوسکتا ہے۔ "اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ"۔ برحمتک یاارحم الراحمین، آمین یارب العالمین۔