انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کنویں کے پانی کے احکام جب کنویں میں نجاست گرجائے اگرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، جیسے خون کا قطرہ تو کنویں کے پورے پانی کو نکالنا ضروری ہوگا- حوالہ عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ؛ أَنَّ عَلِيًّا سُئِلَ عَنْ صَبِيٍّ بَالَ فِي الْبِئْرِ؟ قَالَ:تُنْزَحُ۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۱۷۳۲، صفحہ نمبر:۱/۱۶۲، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) بند جب کنویں میں نجس العین جانور گرجائے جیسے خنزیر تو کنویں کے تمام پانی کا نکالنا ضروری ہوگا، خواہ خنزیر کنویں میں مرجائے یا زندہ نکل آئے ، خواہ پانی اس کے منہ تک پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، جب کنویں میں کوئی ایسا جانور گرجائے جو نجس العین نہ ہو؛ لیکن اس کا جھوٹا نجس ہو تو کنویں کے تمام پانی کا نکالنا ضروری ہوگا؛ جب پانی میں گرنے والے کا تھوک پانی میں پہنچ جائے تو وہ اس کے جھوٹے کے حکم میں ہوگا۔ حوالہ قُلْ لَاأَجِدُ فِي مَاأُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّاأَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْدَمًا مَسْفُوحًا أَوْلَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْفِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ (الانعام:۱۴۵) بند جب کنویں میں کوئی ایسا جاندار مرجائے جس میں بہنے والا خون نہ ہو جیسے پسو، مکھی، بھیڑ اور بچھو تو پانی نجس نہ ہوگا۔حوالہ عَنْ إبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ لَمْ يَرَبَأْسًا بِالْعَقْرَبِ وَالْخُنْفُسَاءِ وَكُلِّ نَفْسٍ لَيْسَتْ بِسَائِلَةٍ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۶۵۷، صفحہ نمبر:۱/۵۹، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) بند اسی طرح جب کنویں میں کوئی ایسا جانور مرجائے جو کنویں ہی میں پیدا ہوتا ہو اور اسی میں زندگی گذارتا ہو جیسے مچھلی ، مینڈک اور کیکڑا تو پانی نجس نہ ہوگا۔حوالہ عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ۔ (سنن الترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي مَاءِ الْبَحْرِ أَنَّهُ طَهُورٌ ،حدیث نمبر:۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) بند اگر کنویں میں ایسا بڑا جانور جیسے کتا بکری مرجائے یا اس میں انسان مرجائے اور پھٹنے سے پہلے نکال دیا جائے تو پانی نجس ہوگا اور کنویں کے تمام پانی کو نکالنا ضروری ہوگا-حوالہ عَنْ أَبِى الطُّفَيْلِ رضى الله عنه أَنَّ غُلاَمًا وَقَعَ فِى بِئْرِ زَمْزَمَ فَنُزِحَتْ۔ (سنن دارِقطنی، حدیث نمبر:۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) بند ان تمام مسائل میں جن میں کنویں کا پورا پانی نکالنا ضروری ہوتا ہے اگر کنویں کا سارا پانی نکالنا ممکن نہ ہو تو دوسو درمیانی ڈول کا نکالنا کافی ہوگا-حوالہ عَنْ عَطَاءٍ؛ أَنَّ حَبَشِيًّا وَقَعَ فِي زَمْزَمَ فَمَاتَ، قَالَ:فَأَمَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أنْ يُنْزَفَ مَاءُ زَمْزَمَ، قَالَ:فَجَعَلَ الْمَاءُ لاَيَنْقَطِعُ، قَالَ فَنَظَرُوا فَإِذَا عَيْنٌ تَنْبُعُ مِنْ قِبَلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ، قَالَ:فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ:حَسْبُكُمْ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۱۷۳۳، صفحہ نمبر:۱/۱۶۲، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة)- بند اصل توپورا پانی ہی نکالنا ہے؛ مگرجتنا پانی موجود ہو وہ نکال دیا جائے اور پھر نیا پانی آجائے تواس کا نکالنا ضروری نہیں ہے اور اہلِ عرب کے کنوؤں میں عام طور پردوسو ڈول ہی پانی ہوا کرتا تھا؛ اس لیے اسی مقدار کی تعیین کی گئی ہے۔ جب کنویں میں بلی یا مرغی جیسا جاندار مرجائے تو چالیس ڈول نکالنا کافی ہوگا- حوالہ عَنْ حَمَّادٍ؛ فِي الْبِئْرِ يَقَعُ فِيهَا الدَّجَاجَةُ وَالْكَلْبُ وَالسِّنَّوْرُ فَيَمُوتُ، قَالَ:يَنْزِحُ مِنْهَا ثَلاَثِينَ، أَوْأَرْبَعِينَ دَلْوًا۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۱۷۲۹، صفحہ نمبر:۱/۱۶۲، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) عَنْ إبْرَاهِيمَ فِي الْبِئْرِ يَقَعُ فِيهِ الْجُرَذُ أَوْ السِّنَّوْرُ فَيَمُوتُ ؟ قَالَ :يَدْلُو مِنْهَا أَرْبَعِينَ دَلْوًا (شرح معاني الاثار كتاب في الطهارة ۱۳/۱) بند جب کنویں میں گوریایا چوہے جیسا جاندار مرجائے تو بیس ڈول نکالنا کافی ہوگا-حوالہ عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : إذَا وَقَعَ الْجُرَذُ فِي الْبِئْرِ نُزِحَ مِنْهَا عِشْرُونَ دَلْوًا۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، في الفأرة وَالدَّجَاجَةِ وَأَشْبَاهِهِمَا تَقَعُ فِي الْبِئْرِ حدیث نمبر:۱۷۲۶، صفحہ نمبر:۱/۱۶۱، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) بند جب پانی کی واجب مقدار نکل جائے تو کنواں پاک ہوجائے گا۔اسی طرح رسی ڈول اور اس شخص کا ہاتھ جس نے پانی نکالا ہو پاک ہو جائے گا۔ حوالہ وَأَمَّا حُكْمُ طَهَارَةِ الدَّلْوِ وَالرِّشَاءِ فَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ الدَّلْوِ الَّذِي يُنْزَحُ بِهِ الْمَاءُ النَّجِسُ مِنْ الْبِئْرِ أَيُغْسَلُ أَمْ لَا ؟ قَالَ : لَا بَلْ يُطَهِّرُهُ مَا طَهَّرَ الْبِئْرَ وَكَذَا رُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ أَنَّهُ قَالَ إذَا طَهُرَتْ الْبِئْرُ يَطْهُرُ الدَّلْوُ وَالرِّشَاءُ ، كَمَا يَطْهُرُ طِينُ الْبِئْرِ وَحَمْأَتُهُ ؛ لِأَنَّ نَجَاسَتَهُمَا بِنَجَاسَةِ الْبِئْرِ ، وَطَهَارَتُهُمَا يَكُونُ بِطَهَارَةِ الْبِئْرِ أَيْضًا ، كَالْخَمْرِ إذَا تَخَلَّلَ فِي دَنٍّ ، أَنَّهُ يُحْكَمُ بِطَهَارَةِ الدَّن(بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ مَا يَقَعُ بِهِ التَّطْهِيرُ۳۷۳/۱) بند جب کنویں میں لید یا مینگنی یا گوبر گرجائے تو کنواں نجس نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ اس قدر زیادہ ہو کہ کوئی ڈول مینگنی سے خالی نہ رہے تو کنواں نجس ہوگا۔ اسی طرح جب کنویں میں کبوتر یا گوریا کی بیٹ گر جائے تو پانی نجس نہ ہوگا-حوالہ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ:كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ إذْوَقَعَ عَلَيْهِ خُرْءُ عُصْفُورٍ، فَقَالَ لَهُ:هَكَذَا بِيَدِهِ، نَفَضَهُ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۱۲۶۱، صفحہ نمبر:۱/۱۱۷، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) بند جب کنویں میں کوئی جاندار گر جائے اور اس میں پھٹ جائے اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کب وہ جانور وہاں گرا ہے تو تین دن اورتین رات سے کنویں کے نجس ہونے کا حکم لگا یا جائے گا، اگر اس کنویں کے پانی سے وضو کیا گیا ہو تو ان نمازوں کی قضا کی جائے گی؛ اگراس کنویں کے پانی کو اس مدت میں غسل کرنے یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال کیا گیا ہو تو بدن اور کپڑوں کو بھی دھویا جائے گا- حوالہ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ:سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ:إذَااسْتَيْقَنْت أَنَّك تَوَضَّأَت وَهِيَ فِي الْبِئْرِ، فَالثِّقَةُ فِي غَسْلِ الثِّيَابِ وَإِعَادَةِ الصَّلاَةِ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۶۶۱، صفحہ نمبر:۱/۶۰، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) و لأبي حنيفة رحمه الله تعالى أن للموت سببا ظاهرا وهوالوقوع في الماء فيحال به عليه إلا أن الانتفاخ والتفسخ دليل التقادم فيقدر بالثلاث وعدم الانتفاخ والتفسخ دليل قرب العهد فقدرناه بيوم وليلة لأن ما دون ذلك ساعات لا يمكن ضبطها (الهداية: ۲۴/۱) بند جب کنویں سے مردہ جاندار پھٹنے سے پہلے نکال لیا جائے اور وہ کنویں میں کب گراہے معلوم نہ ہوسکے تو صرف ایک دن اور ایک رات سے کنویں کی نجاست کا حکم لگایا جائے گا،اور ایک دن اور ایک رات کی نمازوں کی قضا کی جائے گی- حوالہ عَنِ الشَّعْبِيِّ؛ فِي دَجَاجَةٍ مَاتَتْ فِي بِئْرٍ، قَالَ:تُعَادُ مِنْهَا الصَّلاَةُ وَتُغْسَلُ الثِّيَابُ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، حدیث نمبر:۶۵۹، صفحہ نمبر:۱/۶۰، شاملہ، تحقيق :محمد عوامة) و لأبي حنيفة رحمه الله تعالى أن للموت سببا ظاهرا وهوالوقوع في الماء فيحال به عليه إلا أن الانتفاخ والتفسخ دليل التقادم فيقدر بالثلاث وعدم الانتفاخ والتفسخ دليل قرب العهد فقدرناه بيوم وليلة لأن ما دون ذلك ساعات لا يمكن ضبطها (الهداية: ۲۴/۱) بند