انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زیدؓ بن ارقم نام ونسب زید نام، ابو عمر کنیت،قبیلۂ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،زید بن ارقم بن زید بن قیس بن نعمان بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر۔ والد نے صغر سنی میں ہی انتقال کیا تھا، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے اوران کے رشتہ میں چچا ہوتے تھے،اپنے ظل عاطفت میں لیا اوران کی پرورش پر داخت کی۔ اسلام ابن رواحہؓ عقبہ میں بیعت کرچکے تھے،زید کے ایمان لانے کا وہی سبب بنے احد میں صغیر السن تھے،اس لئے انحضرتﷺ نے غزوہ کے قصد سے باز رکھا ،خندق کے معرکہ میں شریک ہوئے اور پھر تمام غزوات میں شرکت کی ،صحیح بخاری میں ان سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ۱۹ غزوے کئے جن میں سے ۱۷ میں شریک تھے ۔ (کتاب مذکور:۴/۵۶۳) غزوۂ موتہ میں اپنے چچا کے ساتھ گئے تھے،انہوں نے چند اشعار کہے جن میں شہادت کی تمنا کی دونوں ایک ہی اونٹ پر سوار تھے،زید نے اشعار سن کر رونا شروع کیا ،ابن رواحہؓ نے درہ اٹھایا کہ تمہارا کیا حرج؟ مجھے شہادت نصیب ہوگی۔ خلفائے راشدین میں حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ سے دوستانہ مراسم تھے،جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور بنو کندہ کے محلہ میں مکان بنایا تھا۔ (طبقات ابن سعد:۶/۱۰) وفات ۶۸ھ میں کوفہ میں انتقال فرمایا،یہ مختار بن ابی عبید ثقفی کا دور امارت تھا ۔ فضل وکمال حضرت زید اپنے زمانہ میں مرجع علم و فضل تھے لوگ دور دور سے استفادہ کے لئے آتے تھے ،ایک شخص اقصائے قسطاس سے مسئلہ پوچھنے آیا تھا۔(مسند:۴/۳۷۲) جہاں کہیں جاتے تو شائقین حدیث آپ کی جانب رجوع کرتے ،ایک مرتبہ بصرہ یا مکہ گئے تو حضرت عباسؓ نے درخواست کی کہ فلاں حدیث جس کو آپ نے روایت کیا تھا اس کے سننے کا پھر مشتاق ہوں۔ (مسند:۴/۳۶۷) ایک مرتبہ عطیہ عوفی نے آکر کہا کہ آپ نے میرے داماد سے فلاں حدیث بیان کی تھی میں اس ارادہ سے حاضر ہوا کہ خود آکر آپ سے سنوں انہوں نے حدیث بیان کی تو عطیہ بولے یہ بھی فقرہ تھا فرمایا: انما انا اخبرک کما سمعت (مسند:۴/۳۹۸) بھائی میں نے جو کچھ سنا تھا تم سے بیان کردیا۔ حدیثوں کے علاوہ جو دعائیں آنحضرتﷺ سے سنی تھیں اوریاد تھیں وہ لوگوں کو بتلاتے تھے، ایک مرتبہ کہا: کان رسول اللہ ﷺ یعلمنا ھن ونحن نعلمکموھن (مسند:۴/۳۷۱) یعنی آنحضرتﷺ جس کو سکھلاتے تھے ہم تم کو سکھلاتے ہیں،لیکن آپ روایت حدیث میں بہت محتاط تھے۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں۔ كُنَّا إِذَا جِئْنَاهُ قُلْنَا حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا قَدْ كَبُرْنَا وَنَسِينَا وَالْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدٌ (مسند احمد،باب حدیث زید بن ارقمؓ،حدیث نمبر:۱۸۴۹۹) یعنی ہم حدیث کی درخواست کرتے تو جواب ملتا کہ میں بوڑھا ہوگیا اور بھول گیا رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرنا بڑا کام ہے۔ ایک مرتبہ چند آدمی سماع حدیث کے لئے حاضر خدمت ہوئے پہلے ان کی تعریف وتوصیف کی کہ اللہ نے آپ کو بڑی فضیلت عطا فرمائی ہے،آپ نے آنحضرتﷺ کا جمال باکمال دیکھا،حدیث سنی ،غزوات میں شریک ہوئے،نماز یں پڑھیں ،اس سے بڑھ کر اورکیا شرف ہوسکتا ہے،فرمایا برادر زاد ے میں بوڑھا ہوا، وہ زمانہ گذر چکا بہت سی باتیں خواب وخیال ہوگئیں، حدیثوں کا بڑا سرمایہ نسیان وسہو کے نذر ہوگیا، اس لئے جو حدیث خود بیان کردوں وہ سن لیا کرو، باقی روایت کی تکلیف دینا تو یہ مناسب نہیں۔ (مسنداحمد:۴/۳۶۶) اسی لئے روایتوں کی کل تعداد (۹۰) ہے آنحضرتﷺ اور حضرت علیؓ سے حدیثیں سنیں۔ اس سے روایت کرنے والوں میں حضرت انسؓ بن مالک (کتاب سے روایت کرتے تھے) عبداللہ بن عباسؓ،ابو الطفیلؓ، ابو عثمان مہندی،عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، عبد خیر ہمدانی ، طاؤس ،نضر بن انسؓ، ابو عمر شیبانی،ابو المنہال، عبدالرحمن بن معطم، ابو اسحاق سبیعی،محمد بن کعب، ابو حمزہ طلحہ، ابن یزید،عبداللہ بن حارث بصری،قاسم بن عوف، یزید بن جان زیادہ مشہور ہیں۔ اخلاق وعادات اسلام کی روحانی تربیت کا اثر زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے،سورۂ منافقین کی بعض آیات ان کے جوش ملی کی شاہد ہیں۔ ایک غزوہ میں جو نہایت عسرت و تنگی کے زمانہ میں پیش آیا تھا،اپنے چچا کے ساتھ تھے،عبداللہ بن ابی سرگروہ منافقین اپنی جماعت سے کہہ رہا تھا کہ مہاجرین کی مدد بالکل بند کردو تو وہ تنگ آکر خود بخود مدینہ سے واپس چلے جائیں گے اور میں یہاں سے چل کر ذلیل لوگوں کو شہر بدر کردوں گا، یہ جملے ان کو نہایت ناگوار گذرے،گو ابن ابی ان کا ہم قبیلہ اور رئیس خزرج تھا، مگر انہوں نے اپنے چچا سے شکایت کی ان کی غیرت ایمانی نے واقعہ کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا،آپﷺ نے زید اور ابن ابی کو بلاکر دریافت کیا،وہ اپنی جماعت کے ساتھ آیا اور قسم کھائی کہ میں نے کچھ نہیں کہا، ابن ارقم جھوٹ بولتے ہیں، اس پر تمام انصار بن ارقم کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ سے جھوٹ بیان کیا ،ان کے چچا بھی انصار کے ہم زبان ہوگئے کہ مفت میں رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرلیا۔ حضرت زید کو سخت افسوس ہوا، گھر میں جاکر بیٹھ رہے اسی حالت میں نیند آگئی،ابھی بیدار نہ ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پر سورۂ منافقین کی آیتیں نازل ہوئیں جن میں ان کی تصدیق اور منافقین کا سارا حال مذکور تھا،آپ ﷺ نے آدمی بھیجا کہ زید کو بلالاؤ،خدمت میں پہونچے تو آیتیں سناکر ارشاد ہوا کہ:ان اللہ صدقک یا زید(بخاری:۴/۷۲۷،۷۲۸)اے زید خدانے تمہاری تصدیق فرمائی۔ امر بالمعروف فرائض میں داخل تھا:مسجد قبا میں کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے،ادھر سے گذرے تو فرمایا کہ شاید ان کو معلوم نہیں کہ اوا بین کا اس سے بہتر ایک وقت ہے اوروہ جب ہے کہ گرمی کی شدت سے تلوے جلنے لگیں۔ (مسند:۳۶۷) ایک مرتبہ مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت علی ؓ کی شان میں نا ملائم الفاظ استعمال کیے، تو انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ مردوں کو برا کہنے سے منع کیا کرتے تھے،علیؓ کا انتقال ہوچکا اب ان کو براکیوں کہتے ہو۔ (مسند:۳۶۹) سنت نبویﷺ کے متبع تھے:جنازہ پر عموما ً۴ تکبیریں کہا کرتے تھے، ایک مرتبہ ۵ کہیں،ایک شخص نے ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ سہو تو نہیں ہوگیا، فرمایا یہ بھی آنحضرتﷺ کی سنت ہے اس کو میں کیونکر چھوڑدیتا۔ (مسند:۳۶۹) بارگاہ نبوی میں تقرب حاصل تھا،جب کبھی یہ بیمار پڑتے آنحضرتﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لیجاتے۔ ایک مرتبہ آنکھ میں درد اٹھا،آپ عیادت کو تشریف لائے،صحت یابی کے بعد پوچھا کیوں ابن ارقم! اگر یہ باقی رہ جاتا تو کیا کرتے؟ عرض کیا صبر کرتا اوراجر کا امیدوار رہتا،فرمایا اگر ایسا کرتے تو خدا کے سامنے بے گناہ جاتے۔(مسند:۳۶۸و۷۱) مصیبت میں لوگوں کی ہمدردی و غمگساری کرتے تھے۔ حرہ کے واقعہ میں حضرت انسؓ کا ایک لڑکا اوربعض اعزہ مارے گئے تو ان کو تعزیت کا ایک خط لکھا کہ میں تم کو خدا کی ایک بشارت سناتا ہوں:آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ خدایا!انصار ان کی اولاددر اولاد،ان کی عورتیں اوران کی تمام اولاد کی مغفرت فرما۔ معاصرین کے کمال کا اعتراف نہایت کشادہ دلی سے کرتے تھے اور سوال کرنے والوں کو ان کے پاس بھیج د یتے تھے۔ ایک مرتبہ ابو المنہال بیع صرف کے متعلق ان سے مسئلہ دریافت کرنے آئے ،انہوں نے کہا براءؓ سے پوچھو، وہ مجھ سے بہتر اورزیاد عالم ہیں، جب وہ حضرت براءؓ بن عازب کے پاس گئے تو انہوں نے مسئلہ بتاکر کہا کہ اس کی تصدیق زیدؓ سے کرالینا وہ مجھ سے بہتر اورزیادہ جاننے والےہیں۔(مسند:۳۷۰) امراء اورحکام سے ملتے رہتے تھے،عہدِ نبوت میں تجارت پر بسر اوقات تھی۔