انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جارود بن عمرو نام ونسب بشر نام، ابومنذر کنیت، جارود لقب، نسب نامہ یہ ہے، جارود بن عمروابن معلی عبدی قبیلہ عبدقیس کے سردار تھے، جارود کا لقب ایک خاص واقعہ کی یادگار ہے زمانہ جاہلیت میں انھوں نے قبیلہ بکربن وائل کولوٹ کربالکل صاف کردیا تھا، جرد کے معنی بے برگ وبار کے ہیں، اس لیے جارود ان کا لقب پڑگیا، اسی واقعہ کوبطورِ مثال شاعر کہتا ہے ؎ وَدُسْنَاهُمْ بِالْخَيْلِ مِنْ كُلّ جَانِبٍ كَمَا جَرّدَ الْجَارُودُ بَكْرَ بْنَ وَائِلِ (الروض الأنف:۴/۳۵۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ہم نے ہرطرف سے دشمن کواپنے لشکر کے ذریعہ روند ڈالا جس طرح کہ جارود نے بکر بن وائل کوصاف کیا تھا۔ اسلام جارود مذہباً عیسائی تھے، قبیلہ عبدقیس کے وفد کے ساتھ سنہ۱۰ھ میں مدینہ آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا؛ انھوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں ایک مذہب پرتھا، اب تمہارے مذہب کے لیے اپنے مذہب کوچھوڑ نے والا ہوں، میرے تبدیل مذہب کے بعد تم میرے ضامن ہوگے؟ فرمایا: ہاں! میں تمہارا ضامن ہوں، خدا نے تم کوتمہارے مذہب سے بہترمذہب کی ہدایت کی ہے، اس مختصر سوال وجواب کے بعد جارود اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے، ان کے ساتھ ان کے اور ساتھی بھی مشرف بہ اسلام ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان کےا سلام لانے پربڑی مسرت ہوئی، آپ نے ان کی بڑی عزت وتوقیر کی (اسدالغابہ:۱/۲۶۱) قبول اسلام کے بعد وطن لوٹنے کا قصد کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگی؛ لیکن سواری کا انتظام نہ ہوسکا توجارود نے اجازت مانگی کہ یارسول اللہ! راستے میں ہم کودوسروں کی بہت سی سواریاں ملیں گی، ان کے استعمال میں لانے کی اجازت ہے؟ فرمایا نہیں، انہیں آگ سمجھو، غرض جارود خلعت اسلام سے سرفراز ہونے کے بعد وطن واپس گئے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۶) فتنہ ارتداد فتنہ ارتداد میں ان کے قبیلہ کے بہت سے آدمی مرتد ہوگئے؛ لیکن ان کے استقامت ایمانی میں کوئی تزلزل نہ آیا؛ چونکہ سردارِ قبیلہ تھے، اس لیے اپنے اسلام کا اعلان کرکے دوسروں کوارتداد سے روکتے تھے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۶) شہادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بصرہ میں اقامت اختیار کرلی اور ایران کی فون کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے باختلاف روایت فارس یانہاوند کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ (اصابہ، جلد اوّل:۲۱۷) اولاد آپ کے ایک صاحبزادہ منذر تھے جن کی نسبت سے آپ کی کنیت ابومنذر ہے۔ فضل وکمال ابومسلم الجذمی، ابوالقموس، زید بن علی اور محمد بن سیرین نے ان سے روایت کی ہے (تہذیب التہذیب:۲/۵۴) جارودشاعر تھے، اشعار ذیل بارگاہِ نبوی میں بطورِ نذرِ عقیدت پیش کیے تھے۔ (اصابہ:۱/۲۲۶) شهدت بأن الله حق وسامحت بنات فؤادي بالشهادة والنهض ترجمہ: میں نے گواہی دی کہ اللہ حق ہے اور میرے جذبات نے بھی اس شہادت اور عمل میں میرا ساتھ دیا۔ فأبلغ رسول الله عني رسالة بأبي حنيف حيث كنت من الأرض ترجمہ:میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ پیغام پہنچادو کہ میں زمین کے جس حصہ پربھی رہوں گا موحد رہوں گا۔ واجعل نفسي دون كل ملمة لكم جنة من دون عرضكم عرضي ترجمہ:ہرمصیبت کے وقت میں اپنی جان پیش کردونگا، اے مسلمانو! تمہاری عزت کے لیے میری عزت ڈھال ہے۔ فإن لم تكن داري بيثرب فيكم فإني لكم عند الإقامة والخفض ترجمہ:اگرچہ میرا مستقل قیام یثرب میں نہیں ہے؛ مگراس عارضی اقامت میں بھی میں تمہارا ہی ہوں۔ (الإصابة في تمييز الصحابة،ابن حجر:۱/۴۴۲، شاملہ، الناشر:دارالجيل،بيروت، تحقيق: علي محمد البجاوي) اخلاق جارود کے صحیفہ کمال میں آزادی، جرأت اور اظہار حق میں بے باکی کا عنوان نہایت جلی تھا، جس بات کوحق سمجھ لیتے تھے پھراس کے اظہار میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ بحرین کے گورنرقدامہ بن مظعون کوبعض رومیوں نے شراب پیتے ہوئے دیکھا جارود کواس کا علم ہوا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ امیرالمومنین قدامہ نے شراب پی ہے، ان پرشرعی حد جاری کیجئے، آپ نے شہادت طلب کی، جارود نے ابوہریرہ کوپیش کیا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے قدامہ کوطلب کیا، وہ آئے ان کے آنے کے بعد جارود نے پھرکہا: امیرالمؤمنین کتاب اللہ کی رو سے حد جاری کیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمھیں اتنا اصرار کیوں ہے؟ تم گواہ ہو، مدعی نہیں ہو، تمہارا کام شہادت دینا تھا، جسے تم پورا کرچکے، اس وقت جارود خاموش ہوگئے؛ لیکن دوسرے دن پھراصرار کیا، شہادت ناکافی تھی، اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ کوجارود کا بے جااصرار ناگوار ہوا اور فرمایا: تم تومدعی بنے جاتے ہو، شہادت صرف ایک ہے، اس اعتراض پرجارود نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ! میں تم کوخدا کی قسم دلاتا ہوں کہ حد میں تاخیر نہ کرو، آخر میں جارود کی بے جاضد پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کوتنبیہ کرنا پڑی کہ جارود خاموش رہو؛ ورنہ میں بری طرح پیش آؤنگا، اس تنبیہ پرجارود نے غضب آلود ہوکر کہا: عمر رضی اللہ عنہ! حق اس کا نام نہیں ہے کہ تمہارا ابن عم شراب پئے اور تم اُلٹے مجھے برے سلوک کی دھمکی دو، آخر میں جب قدامہ کی بیوی نے شہادت دی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حد جاری کرائی (اس واقعہ کوتمام ارباب سیر نے قدامہ کے حالات میں لکھا ہے)۔ روایت آپ چونکہ متاخر الاسلام تھے اس لیے آپ کی روایتوں کی تعداد بہت ہی کم ہے، مسند میں یہ ایک روایت ہے: ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ۔ (مسنداحمدبن حنبل، حَدِيثُ الْجَارُودِ الْعَبْدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۲۰۷۷۸،شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ: مؤمن کی گم شدہ چیز کوجس نے اپنی ملکیت بنایا اس نے اپنے کوآگ میں جلایا۔ آپ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص اور تابعین میں ابومسلم الجذامی، ومطرف ابن عبداللہ بن شخیروزید بن علی وابوالفحوص بن سیرین وغیرہ نے روایت کی۔