انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقلی دلائل ہر چیز کی تخلیق (پیداکرنے کا کام)اللہ تعالی نے خود ہی بغیر کسی کو شریک کئے ہوئے کیا ہے اس لیے کہ تمام انسانوں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ تخلیق کا کوئی مدعی(دعوی کرنے والا)ہے نہ اللہ کے سوا کسی کو یہ طاقت ہی حاصل ہے، مکمل جسم تو دور کی بات ہے صرف معمولی اشیاء، مثلا انسانی یا حیوانی جسم میں بال، پرندے کے بازوکا چھوٹا سا پر، تر وتازہ ٹہنی کا پتہ، یہ سب اسی کی کرشمہ سازی اور کاریگری کا شاہکار ہیں، اس کے خالقِ مطلق ہونے کا بایں الفاظ اظہار کیا گیا ہے: "أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ"۔ (الاعراف:۵۴) اور یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا،بڑی خوبیوں کے بھرے ہوئے ہیں اللہ تعالی جو تمام عالم کے پروردگار ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) روزی پہچانےوالاصرف اللہ تعالی ہے، زمین کےاطراف میں پھرنے والے جانور، پانی میں تیرنے والی، مخلوق، یا چھپی جگہوں میں پوشیدہ زندہ حقیقتیں، ان سب کے روزی کی خالق اللہ کی ذات ہے، اور اسی کی رہنمائی سے اس کے حاصل کرنے کی معرفت ،لینے کی کیفیت، اور اس سے فائدہ اٹھانے کاطریقہ معلوم ہوتاہے،چیونٹی جیسےمعمولی کیڑے سے لے کر انسان جیسی کامل نوع تک،سب اپنےوجود اوراپنی غذاوروزی میں ایک اللہ کے محتاج ہیں، اور وہی اللہ تعالی ان کا وجود بخشنے والا، بنانے والا، غذا مہیا کرنے والا، اور روزی پہچانے والا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے: "فَلْیَنظُرِالْإِنسَانُ إِلَی طَعَامِہِo أَنَّاصَبَبْنَاالْمَاء صَبّاًo ثُمَّ شَقَقْنَاالْأَرْضَ شَقّاًo فَأَنبَتْنَا فِیْہَاحَبّاًo وَعِنَباًوَقَضْباًo وَزَیْتُوناً وَنَخْلاً o وَحَدَائِقَ غُلْباًo وَفَاکِہَۃً وَأَبّا"۔ (عبس :۲۴۔۳۱) سو انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے کہ ہم نے عجیب طورپر پانی برسایا پھر عجیب طورپر زمین کوپھاڑا پھر ہم نے اس میں غلہ اور انگوراور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا۔ (ترجمہ حضر ت تھانویؒ) اور ایک جگہ آیا ہے: "وَمَامِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللہِ رِزْقُہَاوَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا "۔ (ہود:۶) اور کوئی جاندارروئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو اور وہ ہر ایک کی زیادہ رہنے کی جگہ کو اور چندروز رہنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) جب بغیر کسی نزاع واختلاف کے یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالی سب کو روزی مہیا کررہا ہے تو پھر مخلوق کا پالنے والابھی وہی ٹھہرا۔ ۳۔ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالی ہی ہے، اور اس میں اسی کا تصرف کارفرما ہے یہ بھی اس کی ربوبیت کی نشانی ہے، دیکھئے! جب انسان اس دنیا میں آتا ہے، ننگا ہوتا ہے ،بدن پر کپڑا نہ پاؤں میں جوتا، اور جب اس دنیا سے جاتا ہے تو بھی خالی ہاتھ، چند گزکپڑا اس کے جسم کو ڈھانپے ہوتا ہے، تو کیسے کہا جائے کہ انسان کسی چیز کا مالک ہے۔ اشرف المخلوقات انسان کی حالت جب یہ ہےتو باقی مخلوق کس طرح اشیاء کی مالک ٹھہرائی جاسکتی ہے؟ چنانچہ ثابت ہواکہ حقیقی مالک صرف اللہ تعالی ہی ہے اور اس میں کوئی جھگڑا یا شک و شبہ نہیں؛ تصرف اور تدبیر وغیرہ سب ہی داخل ہیں، اور بت پرستوں نےبھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: "قُلْ مَن یَرْزُقُکُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أَمَّن یَمْلِکُ السَّمْعَ والأَبْصَارَوَمَن یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیَّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَن یُدَبِّرُالأَمْرَفَسَیَقُولُونَ اللّہُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَo فَذَلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّی تُصْرَفُونَ"۔ (یونس:۳۱۔۳۲) آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے،ضروروہ یہی کہے گا کہ اللہ، تو ان سے کہئے کہ پھرکیوں نہیں پرہیز کرتے ،سو یہ ہے اللہ جو تمہاراحقیقی رب ہے ،پھر حق کے بعد اورکیا رہ گیا بجزگمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ)