انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نویں شہادت "إِنَّاأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَاأَرَاكَ اللَّهُ وَلَاتَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا"۔ (النساء:۱۰۵) ترجمہ:بیشک ہم نے حق پرمشتمل کتاب تم پر اس لیے اُتاری ہے؛ تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرو جواللہ نے تم کوسمجھادیا ہے اور تم خیانت کرنے والوں کے طرف دار نہ بنو۔ (توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۲/۲۹۴، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی) ایک مقدمے میں ایک مسلمان نے اپنا جرم ایک یہودی کے ذمہ لگانا چاہا، وہ یہودی اس سے بری تھا، اس مسلمان کے ساتھیوں نے ایسے حالات پیدا کردیئے اور کیس کچھ اس طرح پیش کیا کہ چوری اس یہودی پر ثابت ہورہی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر برحق کوحقیقتِ حال پر مطلع فرمایا کہ چور وہ مسلمان ہے، یہودی نہیں، وہ وحیِ خداوندی کہ یہودی چور نہیں، قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں؛ مگراس کا اقرار "بِمَاأَرَاكَ اللَّهُ" (جودکھادیا اللہ نے آپ کو) قرآنِ پاک میں صاف طور پر موجود ہے، یہ وہ وحی غیرمتلو ہے جس کے ذریعہ حضورﷺ کوحقیقتِ حال پرمطلع کیا گیا تھا، اسے یہاں اِراءتِ ربانی سے تعبیر فرمایا، جووحی غیرمتلو کی لطیف ترین صورت ہے۔ خیبر کی بستی میں ایک مسلمان قتل ہواپایا گیا، قاتل کا پتہ نہیں چلتا تھا، حضورﷺ نے وہاں کے یہودیوں کواظہار وجوہ کا نوٹس دیا، یہودیوں نے کہا کہ ایک ایسا ہی واقعہ بنواسرائیل میں پیش آیا تھا تواللہ تعالیٰ نے ان پر ایک حکم اُتارا تھا، آپ بھی اگرخدا کے نبی ہیں تووہی حکم جاری کردیں، آنحضرتﷺ نے جوجواب لکھا وہ یہ ہے: "أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَرَانِي أَنْ أَخْتَارَ سبْعِیْنَ رَجُلًا فَيَحْلِفُونَ بِاَللَّهِ مَاقَتَلْنَاهُ وَلَانَعْلِمْ لَهُ قَاتِلًا ثُمَّ یَرُدُّوْنَ الدَّیْۃَ"۔ (فتح القدیر، لابن الہمام:۸/۳۸۷) ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میں تم میں سے ستر آدمیوں کوچن لوں، وہ قسم کھائیں کہ ہم نے قتل نہیں کیا اور ہمیں اس کے قاتل کا بھی علم نہیں؛ پھروہ سب مل کر اس کی دیت ادا کریں۔ اس روایت میں اس اللہ کے بتلانے کو "أَرَانِیْ" سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ وہی تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں "بِمَاأرَاکَ اللہ" کے الفاظ میں ذکر کی ہے سو! "أَرَانِیْ" میں بھی اسی وحی غیرمتلو کا ذکر ہے جس کے توسط سے حضوراکرمﷺ کوبغیروحی قرآنی حقیقتِ حال سے مطلع کیا گیا۔