انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ (۱)فرمایا کہ جمیع اولیاء اللہ و مشائخ سے محبت لازم ہے اور اپنے پیر کے حق میں اگر بوجہ نفع و استفادہ فرط محبت میں افضلیت کا عقیدہ رکھتا ہو تو مضائقہ نہیں ۔ (۲)اس زمانہ میں عزیمت پر عمل کرنااور تقویٰ اختیار کرنا سخت دشوار ہے اس لئے کہ معاملات تباہ ہوگئے ہیں اور شرع پر عمل کرنا گویا موقوف ہوگیا ہے ، اگر روایتِ فقہ اور ظاہری فتوی پر کوئی عمل کرلے اور محدثاتِ امور و بدعات سے بچتا رہے تو بہت غنیمت ہے۔ (۳)عجز و انکسار کی صفت پیدا کرنی چاہئے اور خلق کی جفا پر صبر و تحمل کی عادت ڈالنا چاہئے ۔ (۴)توسط و اعتدال کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اور اعمال و عبادات میں بہت مشکل ہے ، کوشش کرنا عاہئے کہ اوقات موافقِ سنتِ خیر البشر ﷺ کے ضبط ہوجائیں ، اور انبیاء علیہم السلام کی اتباع توسط و اعتدال حاصل کرنے ہی کے واسطے ہوتی ہے،اس پر نصِّ قاطع "لیقوم الناس بالقسط" ہے (ترجمہ : تاکہ لوگ عدل کے ساتھ قائم ہوجائیں )۔ (۵)اگر ادائے شکر کے لئے مزے دار کھانا کھائے تو احسن معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ بدمزگی کی صورت میں دل سے شکر نہیں نکلتا ، طعامِلذیذ کو پانی ملا کر بے مزہ کرنا نعمتِ الٰہی کو خاک میں ملانا ہے ، پیغمبر ﷺ طعامِ مرغوب تناول فرمایا کرتے تھے، اور اگر رغبت نہ ہوتی تھی توہاتھ نہیں ڈالتے تھے ، ہمارے نفوس جنید و شبلی کے نفوس جیسے نہیں ہیں کہ تلخی کو شَکر جانیں۔ (۶)طریقہ ٔ ورع و تقویٰ و متابعتِ مصطفےٰ ﷺ اختیار کرنا چاہئے اپنے احوالِ باطنی کو کتاب و سنت پر پیش کرنا چاہئے ، اگر موافق ہے تو قابل قبول ہے اور اگر مخالف ہے تو مردود جاننا چاہئے ، عقیدۂ اہلسنت والجماعت کا ملتزم ہوکر حدیث و فقہ سیکھنا چاہئے ۔ (۷)رمضان شریف میں نسبت باطن میں نہایت ترقی ہوتی ہے ، روزہ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ،غیبت اور کذب سے بچنا چاہئے ورنہ روزہ فاقہ ہوجاتا ہے روزہ نہیں رہتا ، جس کی وجہ سے روزہ دار روزہ کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔ (۸)اس ماہ مبارک میں جو جمعیت و حضور حاصل ہوتا ہے وہ سال بھر کے واسطے ذخیرہ ہوجاتا ہے ، اور اگر اس میں فتور آجاتا ہے تو سال بھر اس کا اثر رہتا ہے۔