انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سب سے بڑا عذاب دیدار الٰہی سے محروم اہل جہنم کو سب سے بڑا عذاب اللہ تعالی سے ان کے پردہ میں ہونا ہے اور خدا سے ان کا دور ہونا،ان سےروگردانی کرنا اورناراض ہونا ہے جس طرح اللہ کی رضا اہل جنت کے لئے تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا کَانُوا يَكْسِبُونَ ، کَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ ، ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ ، ثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُکَذِّبُونَ" (المطففین:۱۴،۱۷) (ترجمہ)ہرگزایسا نہیں؛بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال بدکا زنگ بیٹھ گیا ہے،ہرگز ایسا نہیں یہ لوگ اس روز(ایک تو)اپنے رب (کادیدار دیکھنے)سے روک دئے جائیں گےپھر(صرف اسی پر اکتفاء نہ ہوگا؛بلکہ)یہ دوزخ میں داخل ہوں گے پھر(ان سے)کہا جائے گا کہ یہی ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے(ان آیات میں تین عذاب ذکر فرمائے ہیں (۱) ان کا اللہ تعالی سے پردہ میں رہنا (۲)پھر جہنم میں داخل ہونا (۳)پھر ان کے جھٹلانے پر اللہ تعالی کا ان کو سرزنش فرمانا،اور ان کے دلوں کو زنگ آلود حالت میں بیان فرمانا،اوریہ کہ یہ زنگ ان کے گناہوں کا ہے جس نے ان کے دل سیاہ کردئے جس کی وجہ سے نہ تو تھوڑی سی معرفت خداوندی ان کے قلوب کو دنیا میں حاصل ہوئی اورنہ خدا کی بزرگی نہ خوف وخشیت اورمحبت حاصل ہوئی پس جس طرح ان کے قلوب دنیا میں اللہ تعالی سے پردہ میں رہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی خدا کے دیدار سے محروم رہیں گے۔ ان کا یہ حال اہل جنت کے حال کے برعکس ہے (جیسا کہ)اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ "لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ" (یونس:۲۶) (ترجمہ)جن لوگوں نے نیکی کی ہے(یعنی ایمان لائے ہیں)ان کے واسطے خوبی(یعنی جنت) ہے اورمزید براں(خداکادیدار)بھی اوران کے چہروں پر نہ کدروت(غم کی)چھائے گی اورنہ ذلت (یعنی جن لوگوں نے نیکی کی وہ نیک ہیں اور نیکی یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے جیسا کہ حضورﷺ نے حضرت جبریل ؑ کے سوال کرنے پر شرح فرمائی ہے،پس اللہ تعالی نے "احسان" کا بدلہ حسنی فرمایا ہے اورحسنی جنت ہے اور زیادہ کا معنی اللہ تعالی کے چہرہ کا دیدار کرنا ہے جیسا کہ یہ تفسیر رسول اللہ ﷺ سے حضرت صہیب کی حدیث میں منقول ہے۔ جعفر بن سلیمان کہتے ہیں میں نے ابو عمران الجوفی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کی طرف نظر نہیں فرماتے مگر اس پر مہربان ہوجاتے ہیں اور اگر اہل دوزخ کی طرف نظر فرمالیں تو ان پر بھی مہربان ہوجائیں لیکن اللہ تعالی نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ ان کی طرف(کبھی بھی)نہیں دیکھیں گے۔ ابو مریم احمد بن ابی الحواری حضرت احمد بن موسیؒ سے نقل فرماتے ہیں کہ دوزخی درخواست کریں گے اے ہمارے پروردگار ہم سے راضی ہوجا،اس کے بعد اپنے عذاب کی جس قسم سے ہمیں چاہے عذاب دیدے آپ کی ناراضی ہم پر اس عذاب سے بھی زیادہ سخت ہے جس میں ہم مبتلا ہیں،احمد کہتے ہیں میں نے یہ بات سلیمان بن ابی سلیمان سے ذکر کی تو انہوں نے فرمایا یہ دوزخیوں کا کلام نہیں ہوگا یہ خدا کے فرمانبرداروں کا کلام ہوگا،اس کے بعد میں نے یہ بات ابو سلیمان سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ سلیمان بن ابی سلیمان نے سچ کہا ہے،یہ سلیمانؒ ابو سلیمان دارانی کے بیٹے تھے اور عظیم المرتبہ عارف تھے اللہ تعالی ان پر رحمت فرمائے انہوں نے جو فرمایا سچ فرمایا ہے کیونکہ دوزخی تو جاہل لوگ ہیں ایسی سمجھ ان کے بس میں نہیں ہے،اگرچہ یہ بات اپنے طور پر درست ہے،یہ بات اس سے صادر ہوسکتی ہے،جو خدا کو بھی پہچانتا ہو اوراس کا فرمانبردار بھی ہو، شاید یہ بات بعض گناہگار مسلمانوں کی ہوسکتی ہے جو دوزخ میں ڈالے جائیں گے جیسا کہ بعض دوزخی صرف خدا سے فریاد کریں گے اورکسی سے نہیں تو اللہ تعالی انہیں وہاں سے نکال لیں گےاور بعض محض خدا پر امید کی وجہ سے وہاں سے نکلیں گے اوربعض وہ لوگ جن کو جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا جائے گا کسی سے جان پہچان کی وجہ سے اللہ تعالی سے شفاعت کرائی جائے گی تو اللہ تعالی اسے جہنم سے بچالیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں(میدان محشر میں)ایک آدمی کو اللہ تعالی کےسامنے پیش کیا جائے گا جس کے ساتھ ایک نیکی بھی نہیں ہوگی تو اللہ عزوجل اسے فرمائیں گے:جا اگر تو نیک بندوں میں سے کسی کو پہچانتا ہے تو میں اس سے(اپنی)معرفت کی وجہ سے تمہیں بخش دوں گا، پس وہ چلاجائے گا اورتیس سال کی مدت تک گھومتا رہے گا مگر کسی کو اپنا واقف نہیں پائے گا، پس اللہ عزوجل کے پاس لوٹ کر آئے گا اور کہے گا اے میرے پروردگار مجھے کوئی نہیں ملا تو اللہ عزوجل حکم فرمائیں گے اسے جہنم میں لے جاؤ،تو جہنم کے فرشتے اس سے چمٹ جائیں گے اور گھسیٹنے لگیں گے تو وہ کہے گا،اے پروردگار آپ مجھے مخلوقات کی معرفت سے بخشنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو آپ کی وحدانیت کا واسط دیتا ہوں آپ صاحب اختیار ہیں خود ہی میری مغفرت فرمادیجئے تو اللہ تعالی جہنم کے فرشتوں کو حکم دیں گے میری پہچان والے کو واپس لے کر آؤ یہ مجھے جانتا ہے اسے عزت کی پوشاک پہنادو اور اسے ریاض الجنہ کے درمیان میں داخل کردو ؛کیونکہ یہ مجھے پہچانتا ہےاور میں اس کا پہچاناہوا ہوں۔