انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان محمد کے عہد حکومت پرتبصرہ سلطان محمد کے عہد حکومت میں اندلس پر بدامنی طاری رہی اس کو ایک روز بھی مطمئن ہوکر بیٹھنا نصیب نہیں ہوا اندرونی بغاوتوں اور بیرونی سازشوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلہ نے سلطان محمد کو ہمیشہ مصروف وپریشان رکھا سلطان محمد کے زمانے میں خاندان بنو امیہ کی حکومت بہت ہی کمزور اور بے وقار ہوگئی تھی کہ معمولی او رادنی درجہ کے لوگوں کو بھی بغاوت وسرکشی کی جرأت ہوگئی تھی سلطنت اموی کے اس ضعف واختلال نے عیاسئیوں کو بہت فائدہ پہنچایا ،انھوں نے اپنے آپ کو خوب طاقتور بناکر اس بات کو ممکن سمجھا کہ ہم اندلس میں پھر عیسائی حکومت قائم کرسکیں گے۔ سلطان محمد ذاتی طور پر بہادر اور مستعد بادشاہ تھا مگر اندرونی بغاوتوں اور خود مسلمان سرداروں کی بغاوتوں کی حالت کو اس قدر نازک بنادیا تھا کہ ان کی مخالفتوں اور سازشوں کا یہ طوفان سلطان محمد کے زمانے میں سلطنت اسلامیہ کی خرابی وبے عزتی کا باعث ہوا،اس کے علاوہ عیسائی سلطین اور عباسی خلفاء اندلسی مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا کرانے میں کوشاں تھے لیکن اب عباسیوں کا جوش مخالفت توسرد ہوچکا تھا اور ان کو اس قدر ہوش ہی نہ رہا کہ وہ سلطنت اندلس کی طرف توجہ کرتے عیسائیوں کی مخالفت کوئ،ی پوشیدہ چیز نہ تھی ،اب جو مسلمانوں میں نااتفاقی اور عاوتیں پیدا ہوئی تھیں یہ فقہاء کی کوتاہ اندیشیوں کا نتیجہ تھا اندلس کے قاضیوں اور علموں کو عام طور پر مقابلہ دیگر ممالک اسلامیہ کے ہمیشہ زیادہ اقتدار حاصل رہا ہے اور اسی مناسبت سے اندلس سے مسلمانوں میں ہمیشہ زیادہ نااتفاقی پائی گئی ہے جس کا پہلا قابل تذکرہ اور اہم مظہر سلطان محمد کازمانہ تھا اس زمانے میں جو سب سے زیادہ نقصان اسلام کو اندلس میں پہنچا وہ یہ تھا کہ اس سے پہلے تک عیسائی برابر اسلام میں داخل ہوتے رہتے تھے اور باوجودیکہ شمالی پہاڑی عیسائیوں کی طرف سے طرح طرح کی کوششوں میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اسلام سے عیسائیوں کو متنفر بنانے کے لیے ہوتی رہتی تھیں تاہم سمجھ دار شخص عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کرتے جاتے تھے اور اس طرح نومسلموں کی ایک بڑی تعداد ہر زمانے میں موجود تھی۔ سلطان محمد کے زمانے میں علماء وفقہاء نے ایسے قوانین جاری کیے جس سے نہ صرف عیسائیوں کے قدیمی حاصل شدہ حقوق کو صدمہ پہنچایا بلکہ نومسلموں کے متعلق بھی بے اعتمادی اور بے اعتباری پیدا ہوئی او راس کے نتیجےمیں ارتداد کا سلسلہ جاری ہوا نو مسلم لوگ اسلام کو چھوڑ کر پھر عیسائیت اختیار کرنے لگے مسلمانوں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عبرت کا مقام نہیں ہوسکتا کہ مولویوں کی تنگ نظری وسخت گیری نے قابو یافتہ ہوکر سلطان محمد کے آخر عہد حکومت میں مرتدین کا ایک بہت بڑاگروہ پیدا مردیا جو شمالی اندلس میں نہیں بلکہ دارلسلطنت قرطبہ کے نواح میں پیدا ہوکر شمالی عیسائیوں سے خطرناک ثابت ہوا۔ من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہرچہ کرد آن آشنا کرد سلطان محمدکے آخر عہد حکومت میں اندلس کے اندر مختلف جماعتیں اور مختلف گروہ پیدا ہوئے جن میں سے ہر ایک کے مقاصد الگ الگ تھے۔ (۱)خالص عربی النسل لوگ ان کے اندر بھی آپس میں اتفاق نہ تھا اور کئی گروہ تھے مثلاً شامی ،یمنی،مجازی،حضرمی وغیرہ (۲)مولدین یعنی وہ لوگ جن کے باپ عرب اور مائیں عیسائیان اندلس سے تھیں ان کو دوغلے عرب کہنا چاہیے مگر یہ سب کے سب اپنے اندر عربی خون نہ رکھتے تھے بلکہ ان کا زیادہ حصہ بربری باپ اور اندلسی ماؤں کی اولاد پر مشتمل تھا۔ (۳)نومسلم یعنی وہ لوگ جو پہلے عیسائی تھے اوراب مسلمان ہوگئے تھے ان لوگوں کی اولاد بھی نومسلم ہی کہلاتی تھی اور یہ مذہب اسلام کے زیادہ پابند نظر آتے تھے (۴)خالص بربری لوگ ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ مجوسی یہ ان لوگوں کی اولاد تھی جن کو بطور غلام مختلف ملکوں سے خریدکراکر منگوایا گیا تھا ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ (۶)یہودی یہ بھی اندلس کے قدیم باشندے تھے ان کا پیشہ زیادہ تر تجارت تھا اور فساد وبغاوت سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ (۷)عیسائی یہ اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عامل تھے ان کی تعداد بھی ملک میں زیادہ تھی۔ (۸)مرتدین یہ وہ لوگ تھے جو سلطان محمد کے زمانے میں اسلام سے روگرداں ہوکر پھر حالت کفر میں واپس چلے گئے تھے ان مرتدین کے ساتھ ہی ایک ایسا فرقہ بھی شامل تھا جو کسی مذہب کی قید میں نہ تھا اور اس کا پیشہ لوٹ مار اور غارت گری ہی تھا۔ اول الذکر چاروں گروہ مسلمان اور اصل اسلامی طاقت سمجھے جاتے تھے ،بادشاہ اور علماء کا اولین فرض یہ تھا کہ ان کی نگاہ میں ان چاروں کا مرتبہ مساوی ہوتا، مگر سلطان محمد سے اس معاملہ میں سخت غلطی اور کمزوری کا اظہار ہوا اور مولدین کو جن کی تعداداور طاقت بڑی ہوئی تھی ،شکایتیں پیدا ہوئیں،علماء کی گروہ بندی اور مالکی،حنبلی تفریق نے نومسلموں کے جوش کو سرد کردیا،بربری لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اندر سے بحثیت مجموعی روحانیت جاتی رہی ،اخلاق فاضلہ ضعیف ہوگئے،دینی جہاد کا شوق سرد پڑگیا وہ تلواریں جو خدا کی راہ میں بےنیام ہوتی تھیں اب نفسانی اغراض وخواہشات کے پورا ہونے میں چمکنے لگیں ہر ایک گروہ ککی تفریق نمایاں ہوکر نمایاں تر ہوتی گئی ،سلطان نے جس قدر فقہاء کے اقتدار کو بڑھایا اسی قدر عوام کے اعتماد فقہاء کی نسبت کمزور ہوتا گیا اس بے اعتمادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی محبت دلوں سے جاتی رہی اور دنیا دین پر مقدم ہوگئی۔ مسلمانوں اور مسلمانوں کی سلطنت کا حال یہ تھا ادھر عیسائیوں کی ریاستیں جو وسیع ہوتے ہوتے اسلامی سلطنت کی ہمسر بن گئی تھیں،روز افزوں ترقی پر تھیں،الفانسو سوم شاہ ایسٹریاس مسلمانوں سے اندلس کی خالی کرانے کاپروگرام تیار کررہا تھا پرتگال کے عیسائی اپنی الگ ریاست قائم کرنے کی تیاری کرچکے تھے ،اشبیلیہ پر ابن مروان اور مالقہ وغیرہ پر ابن حفصون خود مختار انہ حکمران تھے ،طلیطلہ نے خود مختار ہوکر عیسائی مقبوضہ کو قرطبہ کے قریب تک وسیع کردیا تھا ،جلیقیہ وارا گون وغیرہ نے جبل البرتات سے اندلس کے مغربی ساحل یعنی پرتگال واشبیلیہ تک عیسائیوں کا ڈنکا بجوادیا تھا ،اس سلسلہ میں کہیں کہیں کسی شہر کا کوئی مسلمان عامل موجود تھا تو وہ عیسائیوں کی ہمدردی کادم بھررہا تھا غرض سلطان منذر نے نہایت خطرناک زمانے میں تخت سلطنت پر قدم رکھا۔