انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عبدالرحمن بن مہدی حضرت عبدالرحمن بن مہدی بھی غلامانِ اسلام میں تھے؛ مگرزمرہ تبع تابعین میں ان کا شمار ان ممتاز محدثین میں ہوتا ہے جن کے ذریعہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوین وحفاظت ہوئی، حدیث ورجال میں ان کی رائے حضرت یحییٰ بن معین اور ابن قطان وغیرہ کے ہم پلہ سمجھی جاتی ہے۔ نام ونسب عبدالرحمن نام، ابوسعید کنیت تھی، والد کا نام مہدی تھا، یہ قبیلہ ازوبصری کے غلام تھے، اس لیے ان کوبھی اہلِ تذکرہ بصری لکھتے ہیں۔ (تاریخ بغداد اور تہذیب وغیرہ) ان کی ایک اور نسبت لولوی بھی ہے، اس نسبت کے بارے میں سمعانی نے لکھا ہے کہ ان کے بیہاں موتیوں (لولو) کی تجارت ہوتی تھی، اس پیشہ کی نسبت سے ان کولوولی بھی کہا جاتا ہے۔ (کتاب الانساب) ولادت، ماحول اوت علیم وتربیت خلافتِ عباسیہ کے آغاز سنہ۱۲۵ھ میں یہ بصرہ میں پیدا ہوئے، عراق میں اس وقت دومقام کوفہ وبصرہ خاص طور سے گہوارہ علم وفضل بنے ہوئے تھے، بصرہ میں جہاں دینی علوم کے متعدد چشمے ابل رہے تھے، وہیں دوسری قوموں کے اختلاط سے غیردینی رحجانات اور غلط افکار بھی دین کے چشمہ صافی میں مختلفط ہورہے تھے، اس اختلاط سے جہاں بہت سے برے نتائج پیدا ہوئے، ان میں ایک مذہبی قصہ گوئی بھی ہے، اس قصہ گوئی کورواج دینے میں عام مجالس پندونصائح کا بھی بڑا ہاتھ تھا، اس وقت بصرہ میں امام حسن بصری کی مجالس پندونصائح کا بڑا چرچا تھا؛ مگروہ اس بارے میں انتہائی محتاط تھے، ان کے بعد یہ احتیاط باقی نہیں رہی اور اہل لوگوں کے ساتھ بہت سے نااہل بھی اس بزم کے مسند نشین بن گئے؛ چونکہ یہی دور دینی علوم اور خاص طور پرحدیث کی تدوین وتربیت کا بھی تھا؛ اس لیے بڑی آسانی سے یہ روایتیں ذخیرۂ تفسیر وحدیث میں داخل ہوگئیں، ابن مہدی نے آنکھ کھولی توبصرہ میں قصہ گوئی کا عام رواج ہوچکا تھا، چنانچہ ان کے علمی نشوونما کا آغاز قصہ گویوں کی صحبت ہی سے ہوا، ابوعامر عقدی کہتے ہیں کہ وہ قصاص کے پاس جایا کرتے تھے، ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ ان قصہ گویوں کی صحبت سے تمہارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا، چنانچہ میری یہی نصیحت ان کوعلم حدیث کی طرف مائل کرنے کا سبب بن گئی؛ پھریہ طلب اتنی بڑھی کہ بصرہ سے سینکڑوں میل دور دیارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی مدینہ منورہ پہنچے اور امام مالک رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں شریک ہوکر طلب علم کی پیاس بجھائی۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۰) شیوخ انہوں نے کبارِ تابعین کا زمانہ تونہیں پایا تھا؛ مگرپھربھی ان کے زمانہ میں تابعین کی ایک معتد بہ تعداد موجود تھی؛ انہوں نے ان سے اور ممتاز اتباع تابعین سے استفادہ کیا تھا، ان کے اساتذہ کے چند نام یہ ہیں: ایمن بن نابل، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، امام مالک، امام شعبہ، مالک بن معول، خالد بن دینار، مہدی بن میمون وغیرہ۔ درس وتدریس ذہانت وذکاوت اور قوتِ حافظہ میں ابتدا ہی سے ممتاز تھے؛ چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے استاذ بن گئے تھے، خود ان کا بیان ہے کہ جس ززانے میں، میں امام مالک کے حلقہ درست میں داخل ہوکر استفادہ کررہا تھا، اس ززانے میں بہت سے طالبانِ حدیث مجھ سے نقل روایت کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۶۴/۲۸۰) امام مالک کی مجلس درس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نہایت باوقار اور سنجیدہ ہوتی تھی، جب تک درس کا سلسلہ جاری ہوتا تھا کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا تھا اور نہ خود امام پہلو بدلتے تھے؛ یہی حال ابنِ مہدی کی مجلسِ درس کا بھی تھا، احمد بن سنان اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں: جب تک درس ہوتا رہتا تھا کوئی مجلس میں بات چیت نہیں کرسکتا تھا، نہ کوئی قلم بناتا تھا اور نہ مجلس سے اُٹھ کرجاسکتا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حاضرین نماز میں شریک ہیں یااُن کے سروں پرپرندے بیٹھے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۳) بہت سے ممتاز ائمہ نے اُن سے استفادہ کیا تھا، چند استفادہ کرنے والوں کے نام یہ ہیں: عبداللہ بن مبارک، استحاق بن راہویہ، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، امام زہلی استاذ امام بخاری وغیرہ۔ ان کے فضل وکمال کے بارے میں معاصرین کی رائے علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں اگرکعبہ میں کھڑے ہوکر یہ قسم کھاؤں کہ میں نے ان کے جیسا عالم نہیں دیکھا تومیں اپنی قسم میں سچا ہوں گا۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۵) امام احمد فرماتے ہیں کہ سنہ۱۸۰ھ میں ابنِ مہدی بغداد آئے، ان کومیں برابر دیکھا کرتا تھامگران سے کبھی استفادہ نہیں کیا، اس کے بعد یہ پھردوبارہ بغداد آئے توہم لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھرجم کران سے استفادہ کیا، تنہا میں نے ان کے سماع سے تقریباً چھ سات سو روایتیں نقل کیں۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۱) یحییٰ بن سعید سے کسی نے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا، بولے کہ ابن مہدی کے پاس جاؤ اور خود ان کی چند مرویات میرے سامنے بیان کیں۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۱) ابن سعید کہتے تھے کہ میں نے براہِ راست جوحدیثیں اعمش سے سماع کی ہیں وہ روایتیں جب ابن مہدی اعمش سے بواسطہ سفیان بیان کرتے ہیں تومجھے ان کا بالواسطہ سماع سے زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۴) امام ذہبی رحمہ اللہ ان کوالحافظ الکبیر اور العالم الشہیر لکھتے ہیں، ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں حافظ اور امام علم لکھا ہے، امام نووی نے لکھا ہے کہ ان کے اوپر علوم حدیث میں اعتماد کیا جاتا ہے اور اس علم کے معارف کا ان کے اوپر دارومدار ہے۔ قوتِ حافظہ قوتِ حافظہ بھی غیرمعمولی پایا تھا، تمام ائمہ حدیث نے ان کی قوتِ حافظہ کا اعتراف کیا ہے، اس کااندازہ عبداللہ کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار ابن مہدی نے بیس ہزار حدیثیں مجھے اپنے حافظہ سے املا کرائیں تھیں۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۲) علم حدیث میں ان کا مرتبہ علم حدیث میں ان کا شمار ان اساطین امت میں ہوتا ہے جن کے ذریعہ یہ فن اہلِ ہوس کی دست برد سے محفوظ ومامون رہا، تمام ائمہ حدیث نے ان کی خدمت حدیث اور اس میں ان کی امامت وجلالت کا اعتراف کیا ہے، امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ یہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہی کے لیئے پیدا کئے گئے تھے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۰۵) ابن مہدی جس شخص کی روایت قبول کرلیں، سمجھو کہ وہ حجت ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۳) ابن مدینی جوخود فنِ رجال کے امام ہیں کہتے تھے کہ ابن مہدی اور ابن قطان جس راوی سے روایت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، میں بھی اسے ترک کردیتا ہوں اور جب کسی راوی کی روایت قبول کرنے میں یہ دونوں امام مختلف الرائے ہوجاتے ہیں تومیں ابن مہدی کی رائے کوترجیح دیتا ہوں، اس لیے کہ یہ رائے دینے میں زیادہ معتدل اور محتاط ہیں اور ابن قطان میں تشدد زیادہ ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۳) ابن معین فرماتے تھے، میں نے فنِ حدیث میں ابن مہدی سے زیادہ پختہ کار نہیں دیکھا۔ (تہذیب الاسماء:۳۰۵) ابوحاتم کا قول ہے کہ وہ ثقہ تھے، فکرونظر کی پختگی میں ان کا درجہ وکیع سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ (تاریخ بغداد:۲۴۲) ابوربیع زہرانی بیان کرتے تھے کہ ان کی خصوصیت بصیرت فی الحدیث تھی، ابن عمار کہتے تھے کہ وکیع اور ابن مہدی دونوں قابل وثوق ہیں؛ مگرابن مہدی کی بصیرت فی الحدیث بڑھی ہوئی تھی، انہی کا قول ہے کہ حدیث کے الفاظ کے اختلاف سے خوب واقف تھے، امام احمد فرماتے تھے کہ ابن مہدی وکیع بن جراح سے اس لیے زیادہ قابل وثوق ہیں کہ یہ عہد تدوین وتحریر سے زیادہ قریب تھے۔ (تاریخ بغداد:۲۴۲/۲۴۳) یعنی ان کے زمانہ میں حدیث کی تدوین وترتیب کا کام عام طور پرشروع ہوگیا تھا اور وکیع بن جراح کے زمانہ میں ائمہ زیادہ ترزبانی ہی روایت کرتے تھے۔ حدیث کی صحت کا معیار درایت بھی ہے حدیث کی صحت اور عدم صحت کا فیصلہ دوچیزوں پرہے، ایک روایت یعنی سلسلہ سند اور دوسرے درایت، یعنی کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ وہ ثقہ اور قابلِ وثوق لوگوں کے ذریعہ بیان ہوئی ہے؛ بلکہ اس میں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ روایت اسلامی تعلیم کی کسی روح کے خلاف تونہیں ہے، وہ کسی حدیث صحیح سے متصادم تونہیں ہوتی ہے، اس میں مقامِ نبوت سے گری ہوئی کوئی بات توبیان نہیں ہوئی ہے، وہ قرآن کے کسی بیان سے ٹکراتی تونہیں ہے، درایت کا استعمال عہدِ نبوت ہی سے شروع ہوگیا تھا، عہد صحابہ میں بھی ہمیشہ یہ اُصول برتا جاتا تھا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ خصوصیت سے اس میں سب سے زیادہ ممتاز تھے، تابعین اور اتباع تابعین کے ززانہ میں بھی حدیث کے ردوقبول میں صرف روایت کا نہیں؛ بلکہ درایت کا بھی لحاظ کیا جاتا تھا؛ مگردرایت کے مقابلہ میں روایتِ حدیث کا کام آسان ہے، اس لیے حاملینِ روایت کی تعداد توکثرت سے نظر آتی ہے، اس کے مقابلہ میں صاحب درایت خال خال نظر آتے ہیں، اس کی وجہ ظاہر ہے، روایت حدیث کا دارومدار زیادہ ترقوتِ حافظہ پر ہے، جوشخص اس نعمت سے بہرہ ور ہے وہ تھوڑی سی ذہانت وذکاوت کے ساتھ اس فرض کوانجام دے سکتا ہے؛ مگرصاحب درایت کے لیے محض قوتِ حافظہ ہی کی نہیں بلکہ غیرمعمولی ذہانت وذکاوت کے ساتھ وسعت نظر اور دقتِ فکر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اس کے حاملین کی تعداد توکم ہونی ہی چاہیے۔ اتباعِ تابعین میں جن بزرگوں کویہ خصوصیت حاصل تھی ان میں ابنِ مہدی بھی تھے اوپر جواقوال نقل ہوئے ہیں، ان سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ علم حدیث میں ان کی بصیرت اور دقیقہ سنجی کے تمام اکابر معترف ہیں، خود فرماتے تھے کہ کسی شخص کا امام (جس کا اتباع کیا جائے) بننا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک اس کو روایت کی صحت اور غلطی کا علم نہ ہو جائے؛ تاکہ وہ ہرروایت سے استدلال نہ کرنے لگے اس کے ساتھ اس کوعلم کے اصل ماخذ ومنبع کا بھی علم ہونا چاہیے یعنی کتاب وسنت کی روح سے پورے طور پرواقف ہونا چاہیے، درایت کے پورے مفہوم کواردو میں کسی ایک لفظ سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا؛ البتہ اس کے مفہوم کوذہن سے قریب ترکرنے کے لیے مہارت فن اور ذوق علم کے الفاظ استعمال کئے جاسکتے ہیں، یعنی کسی علم کی ممارست اور انہماک سے جوایک ذوق حاصل ہوجاتا ہے اور اس ذوق سلیم کی روشنی میں اس فن کے بارے میں جوفیصلہ کیا جاتا ہے، اس کودرایت کہتے ہیں، خود ابن مہدی نے درایت کے مفہوم کوایک بڑی عمدہ مثال کے ذریعہ واضح کیا ہے، ابن مہدی بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ اے ابوسعید! آپ کسی روایت کوضعیف اور کسی کے غَط ہونے کا حکم لگادیتے ہیں تویہ رائے اتنی جلد آپ کس طرح قائم کرتے ہیں (یعنی وہ کونسا معیار ہے جس پرجانچ کرآپ صحیح وغیرہ صحیح ہونے کا حکم لگاتے ہیں) فرمایاکہ تم کسی صراف یاروپئے کے پارکھ کے پاس روپیئے وریزگاری لے جاتے تووہ فوراً دیکھتے ہی کہتا ہے کہ یہ سکہ کھرا ہے اور یہ کھوٹا یہ اچھا ہے اور یہ ردی توکیا تم اس سے پوچھتے ہو کہ یہ حکم تم نے کیوں اور کیسے لگایا؟ یااس کی بات تسلیم کرلیتے ہو، اس نے کہا کہ ہاں اس بارے میں تواس کی رائے بے چون وچرا تسلیم ہی کرلینی پڑتی ہے، فرمایا کہ روایات کا حال بھی بالکل ایسا ہی ہے، مگریہ منصب ہرشخص کوحاصل نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کے لیے بڑی ممارست، اہلِ علم کی صحبت تبادلۂ خیال اور وفور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ (تہذیب الاسماء:۳۰۵) معرفتِ حدیث کے بارے میں ان کا قول تھا کہ حدیث کی معرفت ایک طرح کا الہام ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۳) ان کا یہ جملہ درایت حدیث کی بہترین تفسیر ہے۔ روایت باللفظ حدیثِ نبوی کا جوذخیرہ ہمارے پاس روایات کے ذریعہ پہنچا ہے اس میں کچھ قولی ہیں اور کچھ فعلی، فعلی حدیثوں کوتمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے الفاظ میں بیان کی ہے، مثلاً آپ نے وضوفرمایا تووضو کی پوری حالت کومختلف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کی اہے؛ مگراحادیث کا وہ حصہ جوآپ کے ارشادات پرمشتمل ہے اس میں کچھ حصہ توصحابہ نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے یعنی روایت بالمعنی کی ہےاور کچھ حصہ ایسا ہے جس میں ارشادِ نبوی کولفظ بلفظ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحابہ کرام کے عہد سے عہد اتباع تابعین تک بیشمار ایسے اکابرگذرے ہیں جوغایتِ احتیاط میں ارشادِ نبوی کی معناً روایت کرنے کے بجائے لفظاً روایت کرنے کوپسند کرتے تھے، ان ہی بزرگوں میں عبدالرحمن بن مہدی بھی تھے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ ابن مہدی حافظ حدیث تھے؟ فرمایا کہ حافظ حدیث ہی نہیں تھے انتہائی محتاط محدث تھے اور ان کی ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ: كان يحب أن يحباللفظ (تهذيب التهذيب:۶/۲۵۱، شاملہ،المؤلف: ابن حجر العسقلاني، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۶/۲۸۰) ترجمہ:کلام نبوی کی لفظ بلفظ روایت کرنا پسند کرتے تھے۔ حدیث میں ان کی ایک اور خصوصیت کا ذکر خطیب بغدادی نے کیا ہے، وہ یہ ہے کہ: برع في معرفة الأثر وطرق الروايات وأحوال الشيوخ۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۴۰، شاملہ) ترجمہ: آثار نبوی.... روایات کے مختلف سلسلہ سنداور شیوخ حدیث کے احوال سے واقفیت میں ان کوپوری مہارت حاصل تھی۔ تفقہ جس شخص میں روایت ودرایت حدیث کے تمام اوصاف موجود ہوں، جودین کی روح اور اس کے ماخذ ومنبع سے وپری واقفیت رکھتا ہو، اس کے تفقہ فی الدین میں کیا شبہ ہوسکتا ہے، امام احمد فرماتے ہیں کہ بصرہ میں دوغیرمعمولی عالم پیدا ہوئے، ایک یحییٰ بن سعید اور دوسرے عبدالرحمن بن مہدی مگرتفقہ میں ابن مہدی کا پلہ بھاری تھاکمالِ تفقہ ہی کے بناء پرمعاذ بن معاذ کہتے تھے کہ بصرہ میں عہدۂ قضا کا اگرکوئی اہل ہے توصرف ابن مہدی ہیں؛ مگران میں کمی یہ ہے کہ ان کا خاندان یہاں نہیں ہے؛ اگروہ کسی بڑے آدمی کے خلاف کوئی فیصلہ کردیں تووہ بڑے ان کواس فیصلہ سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۷۲) (اور ان کا کوئی ہمنوا نہ ہوگا) اس واقعہ سے اندازۃ کیا جاسکتا ہے کہ عجمی اثرات کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں دوبارہ خاندانی عصبیت کس طرح گھس آئی تھی کہ اس وقت کا قاضی اگراپنی پشت پراپنے ہمنواؤں کی ایک جماع تنہیں رکھتا تھا تواس کے اپنے فیصلے بھی بے اثر ہوسکتے تھے اور حکومت اس میں کچھ نہ کرپاتی تھی۔ سیرت واخلاق اپنی سیرت واخلاق کے اعتبار سے بھی وہ ممتاز تھے، ابن جوزی رحمہ اللہ نے ان کوصاحب زہد وتقویٰ اتباع تابعین میں شمار کیا ہے، ایوب بن متوکل کا بیان ہے کہ جب ہم کوکسی ایسے شخص سے ملنے کی خواہش ہوتی جودین ودنیا کا جامع ہو توابن مہدی کی خدمت میں حاضرہوجاتے تھے، حسان ازرق لکھتے ہیں کہ ان کے دیکھنے سے آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی تھیں۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۷۲) ان کے ورع وتقویٰ کا حال یہ تھا کہ اگراُن کوکسی چیز میں حرام ہونے کا شبہ بھی ہوجاتا تھا تواس کواپنے استعمال میں نہیں لاتے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ جوچیز تم خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے چھوڑدو گے خدا تعالیٰ اس کوتمہارے پاس ضرور واپس کردے گایہ کہنے کے بعد انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ میں نے اور میرے بھائی نے مشترکہ تجارت کی جس میں کافی نفع ہوا مگرجب نفع تقسیم ہونے لگا تواس مال میں کچھ شبہ ہوا، میں اپنے حصہ سے دستبردار ہوگیا؛ مگرخدا کی قدرت دیکھئے کہ میری زندگی میں وہ تمام دولت پھرمیرے اور میرے لڑکوں کے پاس آگئی وہ اس طرح کہ میرے بھائی نے اپنی تین لڑکیوں کی شادی میرے تین لڑکوں سے کردی تھی اور میں نے اپنی لڑکی کی شادی ان کے لڑکے سے کردی، اتفاق سے کچھ دن بعد بھائی کا انتقال ہوگیا اور ان کے سارے مال کی وارث میرے والد اور مرحوم بھائی کی لڑکیاں جومیرے لڑکوں سے منسوب تھیں ہوئیں اس کے بعد والد کا بھی انتقال ہوگیا اور وہ کل دولت میرے گھر میں آگئی۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۳) ایک بار کسی زمین بیچنے کا ارادہ کیا ڈھائی سودینار فی جریب پرمعاملہ طے ہوگیا، وہاں جس کے ذریعہ غالبا یہ معاملہ طے ہوا تھا اس نے آپ سے کہا کہ خریدار نے اس زمین کوویران اور غیرآباد سمجھ کراتنی قیمت لگائی ہے؛ اگرمیں اور آپ کا غَام دونوں مل کر اس زمین میں کھاد وغیرہ ڈال کر اس کوآباد کردیں تواس زمین کی قیمت فی جریب پچاس دینار (پانچ، چھ سوروپیے) سے زیادہ ہوجائے گی، اس طرح پوری زمین میں آپ کوچار ہزار دینار مزید بل جائیں گے؛ گوایسا کرنا غلط نہیں تھا، اس لیے کہ اس نے ابھی قیمت نہیں ادا کی تھی؛ مگرپھربھی انہوں نے محض تھوڑے سے فائدےکے لیے وعدہ کرنے کے بعد اس کومایوس کرنا ایک طرح کی بدمعاملگی اور بوداخلاقی سمجھی؛ اس لیے دلال کی گفتگو سے بہت ناراض ہوئے اور بولے کہ تم چارہزار دینار کا لالچ دیتے ہو، میں اس چارہزار سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں؛ پھراس کے بعد یہ آیت تلاوت کی: قُل لاَّيَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْأَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ۔ (المائدۃ:۱۰۰) ترجمہ:(اے رسول! لوگوں سے) کہہ دوکہ ناپاک اورپاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں؛ چاہے تمھیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (توضیح القرآن:۱/۳۶۹، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی) پھرکہا کہ میں ہرگز اس معاملہ سے باز نہیں رہ سکتا؛ خواہ چار ہزار کے بجائے ایک لاکھ دینار کا فائدہ کیوں نہ ہو۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۳) حصولِ ثواب کا انہیں عشق تھا، فرماتے تھے کہ اگرمجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ خدا کی نافرمانی ہوگی تومیں یہ تمنا کرنا کہ اس شہر کا ہرہرشخص میری غیبت کرے، بھلااس نیکی سے عمدہ کون سی نیکی ہوسکتی ہے؟ جس کواس نے نہ توکیا ہو اور نہ اُسے اس کا علم ہو؛ مگرقیامت کے دن محاسبہ ہوتواس کے صحیفہ اعمال میں وہ نیکی موجود ہو، یہ اشارہ اس حدیث نبوی کی طرف ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب کسی بندہ کی ناحق برائی کی جاتی ہے توہربرائی کے بدلہ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ نصیحت اہلِ علم کووہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب آدمی اپنے سے زیادہ صاحب فضل وکمال سے ملے تواس کی صحبت کوغنیمت سمجھتے؛ اگراپنے برابر سے ملے تواس سے استفادہ اور مذاکرہ کی کوشش کرے اور اگراپنے سے کم ترآدمی سے ملے تواس کے ساتھ تواضع سے پیش آئے اور اس کواپنے علم وفضل سے فائدہ پہنچائے، جوشخص ہرسنی سنائی روایت کونقل کردیتا ہو اور جوہرکہ دمہ کی روایت قبول کرلیتا ہو وہ علم حدیث کا امام بننے کے لائق نہیں ہے۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۳) علم وفضل اور اخلاق وسیرت کے ساتھ عبادت وریاضت میں بھی وہ ممتاز تھے، ان کے صاحبزادے کا بیان ہے کہ وہ اکثر اوقات پوری رات نفل نماز تلاوت قرآن میں گزاردیتے تھے، ان کا عام معمول یہ تھا کہ ہرروز نصف قرآن تلاوت کرڈالتے تھے، یہ ایک بار پوری رات جاگتے رہے؛ مگرعین صبح کے وقت آنکھ لگ گئی اور نمازِ فجر قضا ہوگئی، ان کواس کا اتنا رنج ہوا کہ اس کی تلافی کے لیے بہت دنوں تک زمین پرپیٹھ نہیں لگائی۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۳) خلقِ قرآن کے مسئلہ میں ان کی رائے یونانی فلسفہ اور دوسری قوموں کے اختلاط سے اس زمانہ میں بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے تھے جن کا وجود عہدنبوی اور عہدِ صحابہ میں نہیں ملتا، ابتداءً علما محدثین ان مسائل کے جواب سے گریز کرتے تھے؛ مگرجب یہ مسائل بہت زیادہ عام ہوئے توان کوان کے بارے میں اپنی رائے دینی ہی پڑی، انہی مسائل میں ایک مسئلہ قرآن کے مخلوق ہونے کا بھی تھا، اس بارے میں قریب قریب اس عہد کے بیشتر علماء ومحدثین سے سوال کیا گیا تھا، ان سے پوچھا گیا توفرمایا کہ اگرمجھے اقتدار حاصل ہوتا توقرآن کومخلوق کہنے والے کی میں گردن اُڑادیتا اور پھرا س کی لاش دجلہ میں پھنکوادیتا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۳) فرماتے تھے، فرقہ جہمیہ چاہتا ہے کہ خدا کے لیے نہ توصفت کلام ثابت ہوسکے اور نہ قرآن اس کا کلام ثابت ہوسکے، حالانکہ یہ ثابت ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور پھربتاکید کہا کہ: وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا۔ (النساء:۱۶۴) ترجمہ:اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ وفات اس پیکر فضل وکمال نے ترسٹھ سال کی عمر میں سنہ۱۹۸ھ میں بصرہ میں وفات پائی رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ۔