انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عزالدولہ کی حکومت معزالدولہ نے مرتے وقت اپنے بیٹے بختیار کواپنا ولی عہد بنایا تھا، وہ معزالدولہ کے بعد عزالدولہ کا خطاب خلیفہ سے حاصل کرکے حکمرانی کرنے لگا، دیلمی لوگ اب اس قدر غالب ومسلط ہوگئے کہ اصل حکمران وہی سمجھے جاتے تھے، خلیفہ کی کوئی حقیقت وحیثیت باقی نہ تھی؛ چنانچہ وہ اپنے بعد اپنے ولی عہد بھی خود تجویز کرنے لگے، ایک طرف خلیفہ اپنا ولی عہد مقرر کرتے تھے، دوسری طرف یہ حکمران سلطان اپنے ولی عہد مقرر کرتے تھے، خلیفہ کے ہاتھ میں کوئی حکومت نہ تھی؛ بلکہ وہ خود محکوم تھا اور ان سلطانوں کے ہاتھ میں حکومت وطاقت تھی؛ اسی لیے بغداد میں ان کی ولی عہدی وجانشینی زیادہ اہم سمجھی جاتی تھی؛ کیونکہ اس کا تعلق حکومت وسلطنت سے تھا، یوں سمجھنا چاہیے کہ بغداد میں دیلمیوں کا پہلا بادشاہ معزالدولہ تھا، اب ان کا دوسرا بادشاہ عزالدولہ تخت نشین ہوا۔ عزالدولہ نے ابوالفضل عباس بن حسین شیرازی کواپنا وزیر بنایا، اسی سال جعتی بن معزالدولہ نے بصرہ میں اپنے بھائی عزالدولہ کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا، ابوالفضل عباس اس کی سرکوبی کوگیا اور مقید کرکے عزالدولہ کے پاس لایا، اس کوقید کردیا، سنہ۳۶۲ھ میں عزالدولہ نے ابوالفضل عباس کووزارت سے معزول کرکے محمد بن بقیہ کوعہدہ وزارت عطا کیا، محمد بن بقیہ ایک ادنیٰ درجہ کا آدمی تھا، عزالدولہ کے باورچی خانہ کا مہتمم تھا؛ اسی سال ابوتغلب بن ناصرالدولہ حمدان نے موصل میں اپنے باپ ناصرالدولہ کوقید کرلیا اور خود حکومت کرنے لگا، ابوتغلب کی شادی عزالدولہ کی لڑکی سے ہوئی تھی جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، ابوتغلب کے دوبھائی ابراہیم اور حمدان موصل سے بھاگ کر بغداد میں عزالدولہ کے پاس آئے اور ابوتغلب کی شکایت کرکے اس کے خلاف عزالدولہ سے امداد طلب کی، عزالدولہ نے اپنے وزیر محمد بن بقیہ اور سپہ سالار سبکتگین کوہمارہ لے کرموصل پرچڑھائی کی، ابوتغَب موصل سے مع دفاتر سنجار چلاگیا۔ عزالدولہ موصل میں داخل ہوا اور ابوتغلب نے سنجار سے بغداد کا قصد کیا، یہ سن کرعزالدولہ نے ابن بقیہ اور سبکتگین کوبغداد کے بچانے کے لیے بغداد کی طرف بھیجا اور خود موصل میں رہا، ابن بقیہ ابوتغلب کے پہنچنے سے پہلے بغداد میں پہنچ گیا اور سبکتگین نے بغداد کے باہر ابوتغلب کا مقابلہ کرکے اس کوروکنا چاہا، ادھر ابوتغلب اور سبکتگین کی لڑائیاں شروع ہوئیں، ادھر بغداد میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان فساد برپا ہوا، اس فساد کی خبر سن کرسبکتگین اور ابوتغلب نے آپس میں صلح کرلی اور یہ اراداہ کیا کہ عزالدولہ اور تمام شیعوں کوبے دخل کرکے نئے خلیفہ کوتخت نشین کرنا چاہیے؛ مگربعد میں کچھ سوچ کراس ارادے سے باز رہے اور ابن بقیہ کوبغداد سے بلاکر ابوتغلب سے سبکتگین نے شرائط صلح طے کرلیں، ان شرائط کے موافق عزالدولہ نے لکھا کہ آپ موصل سے بغداد آجائیں اور ابوتغلب کوموصل کی حکومت سپرد کردیں۔ ابوتغلب موصل پہنچا اور عزالدولہ اپنے خسر سے بغل گیر ہوکر ملا، عزالدولہ بغداد کی طرف آگیا، بغداد آکر عزالدولہ روپیہ وصول کرنے کے ارادے سے اہواز گیا، وہاں ترکوں اور دیلمیوں میں جوعزالدولہ کے ہمراہ تھے، فساد برپا ہوا، عزالدولہ نے ترکوں کوسخت سزائیں دیں، اس کا حال سن کرسبکتگین نے جوبغداد میں تھا عَلم بغاوت بلند کیا اور عزالدولہ کے مکان کولوٹ کراس کے خاندان والوں کوقید کرکے واسط بھیج دیا، یہ واقعہ ذیقعدی سنہ۳۶۳ھ میں ہوا، اب بغداد میں سبکتگین کی حکومت قائم ہوگئی، جوسنی حکومت تھی، شیعوں کوبغداد سے نکال دیا، اس کے بعد خلیفہ مطیع کواس امرپرمجبور کردیا کہ اپنے آپ کوخلافت سے معزول کرلو؛ کیونکہ فالج کے مرض سے بیکار اور ناقابل خلافت ہوگئے ہو؛ چنانچہ ماہ ذیقعدہ سنہ۳۶۳ھ میں خلیفہ مطیع نے اپنے آپ کومعزول کرلیا اور اس کے بیٹے عبدالکریم کوطائع اللہ کے لقب سے تختِ خلافت پربٹھایاگیا، خلیفہ مطیع نے ساڑھے چھبیس برس برائے نام خلافت کی، جب سے ناصرالدولہ بن حمدان نے صوبہ موصل کودبالیا تھا اس وقت سے رومیوں کے حملوں کی مدافعت اور رومیوں پرحملہ کرنا اسی سے متعلق ہوگیا تھا؛ پھرجب سنہ۳۶۳ھ میں جب کہ ناصرالدولہ کے بھائی سیف الدولہ بن حمدان نے حلب وحمص پرقبضہ کیا تورومیوں کی لڑائیوں کا تعلق سیف الدولہ سے ہوگیا سیف الدولہ نے بڑی قابلیت اور مستعدی سے رومیوں کے حملوں کوروکا اور ان کوترکی بہ ترکی جواب دیا۔ سنہ۳۶۳ھ میں عزالدولہ نے خلیفہ مطیع اللہ کا نام خطبہ سے نکال دیا، اس پرخلیفہ نے بہت رنج وملال کا اظہار کیا، عزالدولہ نے ناراض ہوکر خلیفہ کی تنخواہ بند کردی، خلیفہ کواپنا اثاث البیت فروخت کرکے اپنی گزر کرنی پڑی، خلع کے بعد مطیع اللہ کا خطاب شیخ الفاضل تھا، مطیع نے محرم الحرام سنہ۳۶۲ھ میں بمقام واسط وفات پائی، ابوبک رشبلی، ابونصرفارابی، متنبی شاعر نے اسی خلیفہ کے عہد میں وفات پائی تھی۔