انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آخرت یومِ آخرت انسانی فطرت بلکہ ہرجاندار کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ اس کو جہاں سے نفع ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتی ہے اور جو نقصان دہ چیز ہوتی ہے اس سے دور ہوجاتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس فطرت کےپیش نظر اگر عام اجازت ہوکہ جس کو جواچھا لگے وہ کرلے اور جسے جو برالگے وہ چھوڑ دے تو دنیا بہت بڑے فسادات اورفتنوں کا مجموعہ بن کررہ جائے گی، لوٹ مار، چوری وغیرہ ہر برائی کا وجود ہر جگہ صبح و شام ہوجائے گا،اب اس بربادی وہلاکت سے بچنے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بہت سارے قوانین اورضابطے بنانے پڑتے ہیں پھر ان قوانین وغیرہ کے ساتھ رغبت دلانے اوراس پر عمل پیرا ہونے کے لیے سزا وجزا کو متعین کرنا پڑتا ہے کہ اگر اس قانون پر عمل کریں گے تو یہ انعام ہوگا اگر اس کی خلاف ورزی کروگے تو یہ سزا دیجائے گی، اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ انسان دنیا میں اپنے فائدے کی چیز کرتا ہے کہ جس عمل میں اسے اس دنیا میں اچھا نتیجہ مرتب ہو تو وہ وہی کام کرے گا، کسی ایسے نیک کام پر ہر گز آمادہ نہیں ہوگا، جس کا نتیجہ اورفائدہ اس دنیا میں حاصل نہ ہو اور کسی ایسے برے کام سے ہرگز نہیں بچےگا جس سے کوئی جانی یا مالی یا پھر عزت واقتدار کا نقصان اس دنیا میں پہنچنے کا خطرہ نہ ہو؛ ایسے شخص کےظاہری اخلاق بھی ٹھیک نہیں رہتے ہیں اس لیے کہ وہ اسی وقت تک بااخلاق بنارہتا ہے،جب تک کہ اس میں اس کا کوئی مفاد اورغرض ہو اوراس کے مال وجاہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو اوراگر مال وجاہ کے نقصان کا ذرا سا بھی خطرہ ہو تو اس سے بدتربداخلاق کوئی نہیں نکلتا؛ اسی خطرہ وفساد کے پیش نظر اللہ تعالی نے ہر نیک عمل پر جزا بدلہ اورہر برے عمل پر سزا تجویز کررکھی ہے،جس کے لیے اس نے ایک عالم بنایا ہے جسے عالم آخرت کہتے ہیں۔