انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** انسانوں،جنوں اورفرشتوں کو جہنم سےخوف دلانے کا بیان انسان اور جنات دوزخ سے ڈریں اللہ تعالی نے جہنم کو نافرمان جن وانس کے لئے پیدا فرمایا ہے اورانہیں سے جہنم کو بھرا جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشادہے وَلَقَدْذَرَأْنَالِجَهَنَّمَ کَثِيرًامِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَايَفْقَهُونَ بِهَاوَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَايُبْصِرُونَ بِهَا (الاعراف:۱۷۹) (ترجمہ):ہم نے ایسے بہت سے جن اورانسان دوزخ (ہی میں رہنے) کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے (نام کو تو) دل( ہیں مگر)ایسے ہیں جن سے(حق بات کو) نہیں سمجھتے (چونکہ اس کا ارادہ ہی نہیں کرتے) اورجن کے (نام کو تو) آنکھیں (ہیں مگر) ایسی ہیں جن سے ( نظر استدلال کے طور پر کسی چیز کو) نہیں دیکھتے، اورجن کے (نام کو تو) کان (ہیں مگر) ایسے ہیں جن سے (متوجہ ہوکر حق بات کو) نہیں سنتے: وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (ھود:۱۱۹) (ترجمہ)اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو جنات سے اورانسانوں سے دونوں سے بھردوں گا۔ وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (السجدۃ:۱۳) (ترجمہ)اورلیکن میری(تو)یہ(ازلی تقدیری)بات (بہت سی حکمتوں سے) محقق (پختہ)ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات وانسان دونوں (میں جو کافرہوں گے ان )سے ضرور بھروں گا۔ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ (الانعام:۱۲۸) قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا (الانعام:۱۲۸) (ترجمہ)اور(وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے)جس روز اللہ تعالی تمام خلائق کو جمع کریں گے(اوران میں سے بالخصوص کفار کو حاضر کرکے ان میں جو شیاطین الجن ہیں ان سے توبیخاً کہا جاوے گا کہ) اے جماعت جنات کی تم نے انسانوں (کے گمراہ کرنے) میں بڑا حصہ لیا(اوران کو خوب بہکایا،اسی طرح انسانوں سے پوچھا جاوے گا الم اعھدالیکم یا بنی ادم ان لا تعبد واالشیطانشیاطین بھی اقرار کریں گے) اور جو انسان ان (شیاطین جن)کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ(بھی اقراراً) کہیں گے اے ہمارے پروردگار (آپ صحیح فرماتے ہیں واقعی) ہم میں ایک نے دوسرے سے اس ضلال واضلال کے باب میں نفسانی فائدہ حاصل کیا تھا اورہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو آپ نے ہمارے لئے معین فرمائی (یعنی قیامت آگئی) اللہ تعالی (سب کفار جن وانس سے) فرمائیں گےکہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کور ہوگے (کوئی نکلنے کی سبیل و تدبیر نہیں) ہاں اگر خدا ہی کو(نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے۔ وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا،وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا (الجن:۱۴،۱۵) (ترجمہ)اورہم میں بعضے تو مسلمان(ہوگئے)ہیں اوربعضے ہم میں (بدستور سابق) بے راہ ہیں سوجو مسلمان ہوگیا انہوں نے تو بھلائی کا راستہ ڈھونڈھ لیا(جس پر ثواب مرتب ہوگا)اورجو بے راہ ہیں وہ دوزخ کے ایندھن ہیں۔ یہ جنات کا کلام تھا جس کو اللہ تعالی نے ان کی زبانی قرآن میں نقل فرمایا ہے (الرحمن:۳۱،۳۲) (ترجمہ)اے جن وانس ہم عنقریب تمہارے(حساب وکتاب کے) لئے خالی ہوئے جاتے ہیں،پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُکَذِّبَانِ فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُکَذِّبَانِ ،يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (الرحمن:۳۵،۴۱) (ترجمہ)تم(جن وانس)پر آگ کے صاف شعلے اوردھواں ملے ہوئے شعلے چھوڑے جائیں گے پھر تم بدلہ بھی نہیں لے سکو گے،پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور رنگے ہوئے چمڑے کی طرح گلابی ہوجائے گا پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،پھر اس دن کسی آدمی سے اورنہ جن سے اس کے گناہ کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا، پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،مجرم اپنے چہرے سے پہچانے جائیں گے، پھر ان کو پیشانی کے بالوں اورپاؤں سے پکڑا جائے گا (اورجہنم میں پھینک دیا جائے گا) (فائدہ)حدیث میں ہے کہ اس سورۃ کو نبی کریم ﷺ نے جنات کے سامنے پڑھا اور اس کی تبلیغ کی کیونکہ یہ ان کی پیدائش ، موت،جی اٹھنے اوران کی جزاء وسزا پر بھی مشتمل ہے۔ فرشتوں کو ڈرانے کا بیان تمام مخلوقات میں فرشتوں کی مخلوق ایسی ہے جو معصیت کی مرتکب نہیں تو گویا اس اعتبار سے یہ باقی تمام مخلوقات سے اشرف ہیں مگر اللہ تعالی نے ان کو بھی معصیت پر جہنم سے ڈرایا ہے جس سے انسان کو بھی تنبیہ کرنا مقصود ہے ذیل میں اس مضمون کی ایک آیت ذکر کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِکَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ کَذَلِکَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (الانبیاء:۲۶،۲۹) (ترجمہ)ان میں سے جو(فرشتہ بالفرض)یوں کہے کہ(نعوذ باللہ)خدا کے علاوہ میں معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم میں سزادیں گے اور ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ ہاروت وماروت کو عذاب صحابہ تابعین اوربعد کے اسلاف کی ایک جماعت سے یہ خبر مشہور ہے کہ ہاروت وماروت دونوں فرشتے تھے ان کو گناہ میں واقع ہونے کے بعد دنیا کے آخرت کے عذاب سہنے کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اس لئے اختیار کیا کہ یہ بالآخر ختم ہوجائے گا اورآخرت کا عذاب ختم ہونے والا نہیں یہ حدیث مسند احمد اورصحیح ابن حبان میں مرفوع مروی ہے ؛لیکن کہا گیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ کعب کی موقوف حدیث ہے۔ (فائدہ)اس واقعہ کی مکمل تفصیل وتحقیق احقر مترجم کی کتاب فرشتوں کے عجیب حالات ۱۳۴تا ۱۴۳ میں ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت میکائیل علیہ السلام کا خوف (حدیث)حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے حضرت جبرئیل سے پوچھا : مَالِیْ لَا اَرَی مِیْکَائِیل عَلَیْہِ السَّلَامُ یَضْحَکُ فَقَالَ جِبْرِیْلُ مَاضَحِکَ مِیْکَائِیل مُنْذ خُلِقَتِ النَّارُ (احمد) (ترجمہ)کیا بات ہے میں نے میکائیل علیہ السلام کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؟توحضرت جبریلؑ نے عرض کیا جب سے جہنم پیدا کی گئی ہے میکائیل کبھی نہیں ہنسے۔ حضرت جبریل ؑ کا خوف (حدیث)ابو عمران الجونی نے مرسلاً حضورﷺ سے روایت کیا ہے کہ حضرت جبریل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے جبریل ؑ تجھے کس چیز نے رلایا ہے؟ عرض کیا اے محمد کیا آپ نہیں روتے؟ جب سے اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے میری آنکھیں اس خوف سے خشک نہیں ہوئیں کہ مبادا میں اس کی نافرمانی کر بیٹھوں اور وہ مجھے اس میں ڈال دے (کتاب الزھد امام احمد وغیرہ) (حدیث)حضرت عمرانؓ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریلؑ نبی کریم ﷺ کے پاس سرجھکائے غمگین حالت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ان کو فرمایا اے جبریل کیا بات ہے میں تمہیں غمگین دیکھتا ہوں؟ عرض کیا میں نے جہنم کی ہوا کا ایک تیزجھونکا دیکھا ہے اس کے بعد سے میری طرف میری رونق نہیں لوٹی۔ (طبرانی) رسول کریمﷺ اورجبریل علیہ السلام کا خوف حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل ایسے وقت میں آئے جس میں پہلے نہیں آتے تھے تو ان کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: يا جبريل ما لي أراك متغير اللون ؟ فقال : ما جئتك حتى أمر الله عز وجل بمفاتيح النار فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا جبريل ، صف لي النار ، وانعت لي جهنم فذکر الحدیث،وسنذکر ان شاء اللہ تعالی مفرقا فی الکتاب فی مواضع ،ثم قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حسبي، يا جبريل لا ينصدع قلبي ، فأموت قال : فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جبريل وهو يبكي ، فقال : تبكي يا جبريل وأنت من الله بالمكان الذي أنت به ؟ قال : وما لي لا أبكي ؟ أنا أحق بالبكاء لعلي أن أكون في علم الله على غير الحال التي أنا عليها ، وما أدري لعلي أبتلى بمثل ما ابتلي به إبليس ، فقد كان من الملائكة ، وما يدريني لعلي أبتلى بمثل ما ابتلي به هاروت وماروت قال : فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وبكى جبريل عليه السلام ، فما زالا يبكيان حتى نوديا : أن يا جبريل ويا محمد ، إن الله عز وجل قد أمنكما أن تعصياه ، فارتفع جبريل عليه السلام ، وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فمر بقوم من الأنصار يضحكون ويلعبون ، فقال : أتضحكون ووراءكم جهنم ؟ فلو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ، ولبكيتم كثيرا ، ولما أسغتم الطعام والشراب ، ولخرجتم إلى الصعدات ، تجأرون إلى الله عز وجل فنودي : يا محمد ، لا تقنط عبادي ، إنما بعثتك ميسرا ، ولم أبعثك معسرا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : سددوا وقاربوا (طبرانی) (ترجمہ)اے جبریل کیا بات ہے میں تمہیں اڑے ہوئے رنگ میں دیکھ رہا ہوں عرض کیا میں آپ کے پاس اس وقت تک نہیں آیا جب تک کہ اللہ تعالی نے آگ کے بھڑکانے والے پائپوں کو(جہنم کے بھڑکانے کا)حکم نہیں فرمایا۔ فرمایا اے جبریل مجھے جہنم کا حال بتاؤ (توانہوں نے بہت طویل حال بیان کیا جس کا ذکر فرمایا اے جبریل بس کافی ہے میرے دل کو ٹکڑے ٹکڑے مت کرو ورنہ میں مرجاؤں گا، حضرت عمر فرماتے ہیں پھر حضورﷺ نےفرمایا اے جبریل تم روتے ہو؟ حالانکہ تم اللہ کے نزدیک اپنے اس درجہ پر ہو جس پر اب ہو تو انہوں نے عرض کیا میرے لئے کیا ہے میں کیوں نہ روؤں میں تو آپ سے زیادہ رونے کا حقدار ہوں،شاید میں اللہ کے علم میں اس حال پر نہ ہوں جس پر اب ہوں میں نہیں جانتا شاید میں بھی اس میں مبتلا کیا جاؤں جس میں ابلیس کیا گیا جبکہ وہ(بھی) فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور میں نہیں جانتا شاید میں اس میں مبتلا کیا جاؤں جس میں ہاروت اورماروت مبتلا کئے گئے، حضرت عمر فرماتے ہیں، پس رسول اللہ ﷺ بھی روپڑے اور حضرت جبریل علیہ السلام بھی روپڑے اور بہت دیر تک روتے رہے حتی کہ انہیں پکارا گیا اے محمد، اے جبریل اللہ نے تم دونوں کو معصوم بنایا ہے کہ تم اس کی نافرمانی کرو،پھر حضرت جبریل،چلے گئےاورحضور ﷺ(بھی کسی طرف) چل پڑے یہاں تک کہ آپ انصاری قوم کے پاس سے گذرے جو ہنس رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ہنس رہے ہو؟ جبکہ جہنم تمہارے پیچھے ہے،اگر تم وہ جانتے ہو تے جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنستے اور روتے ،تم اچھے کھانے نہ کھاتے اور دشوار پہاڑیوں کی طرف نکل کر اللہ عزوجل سے پناہ طلب کرتے پس اس وقت آواز دی گئی کہ اے محمد ،میرے بندوں کو نا امید نہ کرو میں نے آپ کو آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے سختی کرنے والا بناکر نہیں بھیجا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نیک اعمال پر قائم رہو اور ایک دوسرے سے مل کر رہو۔ جب سے دوزخ پیدا ہوئی بہت سے فرشتے کبھی نہیں ہنسے حضرت ابو فضالہ اپنے بعض مشائخ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اِنَّ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَلَائِکَۃٌ لَمْ یَضْحَکُ اَحَدُھُمْ مُنْذُ خُلِقَتُ جَھَنَّمُ مَخَافَۃَ اَنْ یَغْضِبَ اللہُ عَلَیْھِمْ فَیُعَذِّبَھُمْ (ابن ابی الدنیا) (ترجمہ)اللہ عزوجل کے کچھ فرشتے ایسے ہیں کہ جب سے جہنم پیدا کی گئی وہ اس خوف سے کبھی نہیں ہنسے کہ اللہ تعالی ان پر ناراض ہوکر ان کو عذاب (جہنم ) میں نہ ڈال دے ۔ حضرت بکر العابد کہتے ہیں میں نے ابن ابی لیلی کے ایک شاگرد ابو الحسن سے پوچھا کیا فرشتے بھی ہنستے ہیں تو کہا جب سے جہنم پیدا کی گئی تب سے عرش کے نیچے والے فرشتے نہیں ہنسے۔ (ابن ابی الدنیا) مفسر محمد بن المنکدر ؒ فرماتے ہیں جب جہنم پیدا کی گئی تو فرشتوں کی روحیں ان کے بدن سے نکل گئیں جب انسانوں کو پیدا کیا گیا تب واپس ہوئیں۔ امام طاؤس ؒ فرماتے ہیں جب جہنم کو پیدا کیا گیا ہے تو فرشتوں کے دل پرواز کرنے لگے پھر جب انسانوں کو پیدا کیا گیا تب جاکر سکون میں آئے۔ (ابو نعیم) () پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں روایات ضعیف ہیں اگر ان کو صحیح تسلیم کیا جائے تو فرشتوں کی روحوں کا اڑنا یا بدن سے نکلنا اس وجہ سے ہوگا کہ جب دوزخ پیدا کی گئی تو اس وقت ان کے علاوہ کوئی ایسی مخلوق نہ ہوگی جس کے جہنم میں داخل ہونے کا اندیشہ ہوتا تو انہوں نے سمجھا ہوگا کہ جہنم شاید ہمارے لئے بنائی گئی ہے اورہماری نافرمانی پر ہمیں اس میں ڈالا جائے گا تو جب اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا فرمایا تب انہیں اطمینان ہوا کہ اس مخلوق میں سے جو خدا تعالی کے نافرمان ہوں گے وہی اس کے مستحق ہوں گے اسی اطمینان پر ان کی ارواح کو اطمینان ہوا اوراپنے اپنے اجسام میں واپس لوٹیں ۔ (أ) (واللہ اعلم)