انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فن درایت روایت کے علاوہ حدیث کے متعلق درایت کی ابتدا صحابیات رضی اللہ عنھن ہی سے ہوئی، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعض روایتوں پردرایۃً تنقید کی اور اس سے درایت کے خاص خاص اصول قائم ہوئے، مثلاً ان کے سامنے جب یہ روایت کی گئی (یہ روایتیں بہ ترتیب عن الاصابہ فیما استدرکتہ السیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا علی الصحابہ، صفحہ نمبر:۸،۱۷،۱۸،۲۰ میں موجود ہیں، اخیر روایت کے علاوہ اور روایتیں بخاری میں بھی ہیں) کہ مردے پراس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے توانہوں نے درایۃً اس روایت کے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ خود قرآن مجید میں ہے: وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى۔ (الأنعام:۱۶۴) ترجمہ:ایک کے گناہ کا بوجھ دوسرا نہیں اُٹھا سکتا۔ رونا اہل وعیال کا گناہ ہے اس کا عذاب مردے پرکیوں ہوگا؟ اس سے یہ اصول قائم ہوا کہ جوروایت نصوصِ قرآنیہ کے خلاف ہو وہ قبول نہیں کی جاسکتی؛ چنانچہ اس اصول کے رو سے انہوں نے متعدد روایتوں کی تنقید کی ہے، مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں یہ خیال پھیل گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں خدا کودیکھا تھا؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس کا ذکر آیا تو بولیں جوشخص یہ روایت کرے وہ دروغ گو ہے اس کے بعد یہ آیت پڑھی: لَاتُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَيُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَاللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔ (الأنعام:۱۰۳) ترجمہ:خدا کوکوئی نگاہ پانہیں سکتی اور وہ نگاہوں کوپالیتا ہے، وہ لطیف اور خبیر ہے۔ اُن کے سامنے جب یہ روایت کی گئی کہ نحوست عورت، گھوڑے اور گھر میں ہے توانہوں نے اس کا انکار کیا اور یہ آیت پڑھی: مَاأَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَافِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّافِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا۔ (الحدید:۲۲) ترجمہ:زمین میں یاتمہارے اندر تمھیں جومصیبتیں پہنچتی ہیں وہ پہلے سے لکھی ہوتی ہیں۔ غزوۂ بدر میں جوکفار مارے گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مدفن پرکھڑے ہوکر فرمایا تھا: هَلْ وَجَدْتُمْ مَاوَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا۔ ترجمہ:خدا نے جوتم سے وعدہ کیا تھا اس کوپالیا۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ،حدیث نمبر:۳۶۸۲، شاملہ، موقع الإسلام) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ! آپ مردوں کوپکارتے ہیں؟ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: مَاأَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَايَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۸۲، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ: تم ان سے زیادہ نہیں سنتے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب یہ روایت کی گئی توانہوں نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں بلکہ یہ ارشاد فرمایا تھا: إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الْآنَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ۔ (بخاری،كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ،حدیث نمبر:۱۲۸۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:وہ اس وقت یقینی طور پر یہ جانتے ہیں کہ میں ان سے جوکچھ کہتا تھا وہ سچ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: إِنَّكَ لَاتُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَاوَلَّوْا مُدْبِرِينَ۔ (النمل:۸۰) ترجمہ:یاد رکھو کہ تم مردوں کواپنی بات نہیں سناسکتے اور نہ تم بہروں کواپنی پکار سناسکتے ہو، جب وہ پیٹھ پھیر کرچل کھڑے ہوں۔ (توضیح القرآن:۲/۱۱۶۳، مفتی تقی عثمانی) مطلب یہ ہے کہ اس آیت کی رو سے کفار آپ کی بات سن ہی نہیں سکتے تھے۔ عام طور پرلوگ متعہ کی حرمت میں احادیث پیش کرتے ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک شاگرد نے جوازِ متعہ کی روایت کی نسبت ان سے پوچھا توانہوں نے اس کا جواب حدیث سے نہیں دیا؛ بلکہ فرمایا: میرے تمہارے درمیان خدا کی کتاب ہے؛ پھریہ آیت پڑھی: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَo إِلَّاعَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْمَامَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المؤمنون:۵،۶) ترجمہ:جولوگ کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں یالونڈیوں کے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اس لیے ان دوصورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت جائز نہیں۔ (اصابہ سیوطی رحمہ اللہ، بحوالہ حاکم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ حرامی لڑکا تینوں میں (ماں، باپ، بچہ) بدتر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنا توفرمایا یہ صحیح نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک منافق تھا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبرابھلا کہا کرتا تھا، لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کے علاوہ، وہ ولدالزنا بھی ہے، آپ نے فرمایا کہ وہ تینوں میں بدتر ہے، یعنی اپنے ماں باپ سے زیادہ برا ہے، یہ ایک خاص واقعہ تھا، عام نہ تھا، خداخود فرماتا ہے: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى۔ (الأنعام:۱۶۴) ترجمہ: کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھاتا۔ یعنی قصور توماں کا ہے بچہ کا کیا گنا ہے (اصابہ سیوطی رحمہ اللہ، بحوالہ حاکم) جس کی بناپروہ اُن سے برا قرار دیا جائے۔