انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو ذر غفاری راستہ میں ایک شخص پیچھے رہنے لگا تو لوگوں نے کہا … یا رسول اﷲ ! ایک آدمی پیچھے رہ گیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اگر اس میں کوئی بھلائی ہوگی تو اﷲ تعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملا دے گا اور اگر اس کے خلاف ہے تو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نجات دلادی، کسی نے کہا … یا رسول اﷲ! ابو ذرؓ پیچھے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اونٹ کی رفتار دھیمی کردی ہے، آپﷺ نے فرمایا! اسے جانے دو ، اگر اس میں کوئی خیر ہے تو اﷲتعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملادے گا ورنہ نجات دیدے گا، اب ابو ذرؓ اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے رک گئے، اونٹ تاخیر کرنے لگا تو انہوں نے اپنا سامان لیا اور پشت پر لاد کر حضور اکرم ﷺ کے نقشِ قدم پر پیدل چلنے لگے، جب آپﷺ نے ایک منزل پر قیام کیا تو کسی نے کہا … یا رسول اﷲ! وہ شخص تو اس راستہ پر تنہا چل رہا ہے ، آپﷺ نے فرمایا! ابو ذر نہ ہو؟ جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو کہا … یا رسول اﷲ ! وہ ابو ذر ہی ہیں، یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا! اﷲ تعالیٰ ابو ذر پر رحم فرمائے، ابو ذر تنہا چلے گا ، تنہا مرے گا اور تنہا حشر کے دن اٹھایاجائے گا۔ حضرت عبداﷲؓ بن مسعود کا بیا ن ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت ابو ذرؓ مقام ربدہ میں مقیم تھے اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی تو اس وقت ان کے پاس ان کی بیوی اور غلام کے سوا اور کوئی نہ تھا، انہوں نے بیوی اور غلام کو وصیت کی تھی کہ تم مجھے غسل دینا اور کفنانا اور عام راستہ پر رکھ دینا، پھر پہلی جماعت جو تمہارے پاس سے گذرے اس سے کہنا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں، آپ لوگ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں چنانچہ ان کی وفات کے بعد انھیں سرِ راہ رکھ دیاگیا، اہلِ عراق کے ایک گروہ کا گذر ہوا تو برسرِ راہ جنازہ دیکھا تو وہ رک گئے، اس وقت غلام نے کہا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں اس لئے آپ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں، راوی کا یہ بیان سن کر حضرت عبداﷲؓ بن مسعود رونے لگے اور بولے رسول اکرم ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ تم تنہا چلو گے، تنہا مروگے اور حشر میں تنہا اٹھائے جاؤگے، پھر قافلہ والے ابو ذرؓ کو دفن کئے ، بعد میں حضرت عبداﷲؓ بن مسعود نے اپنا یہ قصہ ان لوگوں کو بتایا اور یہ بھی کہا کہ رسول اﷲﷺ نے ان سے تبوک جاتے ہوئے یہ فرمایاتھا (ابن ہشام) جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا " کل انشااﷲ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤگے، لہذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے یہاں تک کہ میں آجاؤں" ، حضرت معاذؓ کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو وہاں دو آدمی پہلے پہنچ چکے تھے ، چشمہ سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہاتھا، حضور اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اس چشمہ کے پانی کو ہاتھ لگایاہے؟ انھوں نے کہا …ہاں، آپﷺ نے ان دونوں سے جو کچھ اﷲ نے چاہا فرمایا، پھر چشمے سے چلو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا یہاں تک کہ کچھ پانی جمع ہوگیا ، پھر حضور اکرم ﷺ نے اس میں اپنا چہرہ اور ہاتھ دھویا اور اسے چشمے میں انڈیل دیا، اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا، صحابہ کرامؓ نے سیر ہوکر پانی پیا، پھر حضور اکرم ﷺنے حضرت معاذؓ سے فرمایا " اے معاذ! اگر تم زندہ رہو تو اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے" ( صحیح مسلم بحوالہ الرحیق المختوم) راستہ میں تبوک کے قریب پہنچ کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا! " آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہذا کوئی نہ اٹھے، جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسّی مضبوطی سے باندھ دے" ، چنانچہ سخت آندھی آئی، ایک شخص کھڑا ہوگیاتو آندھی نے اسے اُڑا کر طے کے دو پہاڑوں کے پاس پھینک دیا،اس سفر میں حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپﷺ ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھا اور مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھا پڑھتے تھے۔