انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۴۶۔عطاء بن ابی رباحؒ نام ونسب عطا نام، والد کا نام اسلم اور ابو رباح کنیت،عطاء کی کنیت ابو محمد تھی،یمن کے مردم خیز قصبہ چند میں حضرت عثمان کے آغازِ خلافت میں پیدا ہوئے اورمکہ میں نشوونما پائی آل میسرہ بن خثیم فہری کے غلام تھے۔ فضل وکمال فضل وکمال اورزہد وورع کے لحاض سے عطا بڑے جلیل القدرتابعی تھے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عطاءفقہ،علم وورع اورفضل وکما ل کے لحاظ سے ساداتِ تابعین میں تھے،حجت امام اورکبیر الشان (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۳) علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ مکہ کے مفتی اورمشہور آئمہ میں تھے، بڑے بڑے آئمہ ان کے علمی کمالات کے معترف تھے ،امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ علم کا خزانہ خدا اسی کو دیتا ہے جسے محبوب رکھتا ہے، اگر علم کسی کے ساتھ مخصوص ہوتا تو عالی نسب اس کے زیادہ حقدار تھے،لیکن عطاء حبشی غلام تھے،یزید بن جیب نولی تھے، حسن بصری اورابن سیرین غلام تھے۔ (تہذیب الاسماء نووی :۱/۱۳۳۳) امام اوزاعی کہتے تھے کہ عطاء نے جس وقت انتقال کیا، اس وقت وہ لوگوں میں روئے زمین کے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے۔ (مختصر صفوہ الصفوہ:۱۵۸) قرآن ان کو قرآن،حدیث،فقہ جملہ مذہبی علوم میں پوری دستگاہ حاصل تھی: کان ثقۃ فقیھا عالما کثیر الحدیث کان یعلم القرآن قرآن کا مستقل درس دیتے تھے۔ حدیث حدیث کے مشہور حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی نے ان کے حالات طبقہ اول کے حفاظ میں لکھے ہیں،علامہ ابن سعد کثیر الحدیث لکھتے ہیں، حدیث میں انہوں نے صحابہ میں عبداللہ بن عباسؓ،ابن عمرؓ، ابن عمروبن العاصؓ،ابن زبیرؓ،معاویہؓ،اسامہ بن زیدؓ،جابر بن عبداللہؓ،زید بن ارقمؓ، عبداللہ بن سائبؓ مخزومی،عقیل بن ابی طالب ؓ، عمرو بن ابی سلمہؓ، رافع بن خدیجؓ،ابودرداءؓ، ابو سعید خدریؓ،ابوہریرہؓ،ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اورام ہانی ؓ کے خرمن کمال سے خوشہ چینی کی تھی۔ عام علماء میں ابو صالح السمان ،سالم بن شوال،صفوان بن یعلی بن امیہ،عبید بن عمیر، عروہ بن زبیر،ابن ابی ملیکہ،عماد بن ابی عمار،ابو الزبیر،موسیٰ بن انس،جیب بن ابی ثابت وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا۔ (ابن سعد:۵/۳۴۴) تلامذہ حدیث میں ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض کے نام یہ ہیں، ابو اسحٰق سبیعی،زہری،مجاہدہ، ایوب سختیانی ،اعمش ،اوزاعی،ابن جریج ،ابوالزبیر حکم بن عتبہ،ابو حنیفہ وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:۷/۱۵۹) آداب سماع حدیث حدیثِ رسول کا اتنا احترام تھا کہ تذکرہ حدیث کے درمیان میں بولنا سخت ناپسند کرتے تھے اور اس پر برہم ہوتے تھے،معاذ بن سعید الاعورکابیان ہےکہ ایک مرتبہ ہم لوگ عطاء کےپاس تھے،ایک شخص نے حدیث بیان کی،ایک دوسرا شخص درمیان میں کچھ بولا،عطاء سخت برہم ہوئے اور کہا یہ کون سا اخلاق اورکون سی طبیعت ہے، خدا کی قسم آدمی اس لیے حدیث بیان کرتا ہے کہ اس سے ہم کو علم حاصل ہو اگر کوئی حدیث سناتا ہے،تو خواہ وہ حدیث مجھی سے سنی ہوئی ہو میں اس کو خاموشی سے سنتا ہوں کہ بیان کرنے والے کو یہ معلوم ہوکہ میں نے اس سے پہلے نہیں سنی تھی، عمروبن عاصم کہتے ہیں کہ میں نے عطاء کی یہ باتیں عبداللہ بن مبارک سے نقل کیں تو انہوں نے سن کر کہا کہ میں اس وقت تک جوتا نہ اتاروں گا جب تک خود جاکر اس مہدی سے نہ سنوں گا۔ (ابن سعد:۵/۳۴۵) ان کی روایات کے بارہ میں آئمہ کی رائے امام باقر لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے عطاء سے حدیث لیا کرو۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۳۴) فقہ آپ کا خاص امتیازی فن فقہ تھا آپ کے تفقہ پر تمام فقہا ءمحدثین اورآئمہ فن کا اتفاق ہے،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ فقہ میں سادات تابعین میں تھے (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۳) ربیعہ جو خود بہت بڑے فقیہ تھے کہتے تھے کہ عطاء فتاویٰ میں تمام اہل مکہ پر فایق تھے، محمد بن عبداللہ الدیباج کہتے تھے کہ میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں پایا (ایضاً:۲۰۱)اکابر صحابہ تک ان کے تفقہ کے معترف تھے، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اورابن عمرؓ جب مکہ تشریف لاتے اور سائلین ان کی خدمت میں پہنچتے تو عبداللہ بن عباس ان سے کہتے کہ عطا تمہارے یہاں موجود ہیں اور تم لوگ میرے پاس آتے ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۶)حضرت ابن عمرؓ فرماتے کہ تم میں ابن ابی رباح موجود ہیں اور تم لوگ مجھ سے پوچھنے کے لیے مسائل اٹھا رکھتے ہو۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۱) ان کے زمانہ میں صرف دوشخص مکہ کی مسندِ افتاء کی زینت تھے، ایک یہ اور دوسرے مجاہد لیکن ان دونوں میں امتیاز انہیں کو حاصل تھا۔ (ابن سعد:۵/۳۴۶) احتیاط فی الفتویٰ لیکن اس کمال کے باوجود وہ اتنے محتاط تھے کہ مسائل میں کبھی اپنی رائے نہ دیتےتھے،اگر اس کے متعلق کوئی سند نہ ہوتی تو صاف کہہ دیتے کہ مجھے نہیں معلوم،عبدالعزیز ابن رفیع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عطاء سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا،انہوں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم لوگوں نے کہا اپنی رائے سے کیوں نہیں جواب دیتے،فرمایا مجھے خدا سے شرم معلوم ہوتی ہے کہ اس کی زمین میں میری رائے کی اطاعت کی جائے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۳) لیکن ایک فقیہ اورمفتی کے لیے رائے سے کام لینا ناگزیر ہے، اس لیے عطاء جب کبھی رائے سے کام لیتے تھے تو اس کو ظاہر کردیتے تھے، ابن جریج کا بیان ہے کہ عطاء جب کوئی بات بیان کرتے تھے،تو میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ علم ہے یا رائے، اگر انہوں نے اثر کی سند پر کہا ہوتا تو کہہ دیتے اثر ہے اور اگر رائے ہوتی توکہہ دیتے رائے ہے۔ (ابن سعد:۵/۳۴۵) مناسک حج کا علم مناسکِ حج کے بڑے عالم تھے،امام باقر فرماتے تھے کہ عطاء سے زیادہ مناسک حج کا جاننے والا کوئی باقی نہیں ہے (ایضاً) اموی فرمان روا،ان سے مناسک حج کی تعلیم حاصل کرتے تھے،علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کو مناسکِ حج بتائے (مختصر صفوۃ الصفوۃ:۱۵۶) امویوں کے زمانہ میں حج کے موقع پر منادی کردی جاتی تھی کہ حج کے مسائل میں عطاء کے علاوہ دوسرا شخص فتویٰ نہ دے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۳۴) معمولی معمولی درجہ کے لوگ جنہیں حج کے ایام میں انہیں دیکھنے کا،ان کے ساتھ رہنے کا یا ان کی خدمت کرنے کا موقع ملتا تھا، مسائل حج کے واقف کار بن جاتے تھے،اس سلسلہ میں یہ حکایت مشہور ہے کہ امام ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ حج کے موقعہ پر ایک حجام نے جس نے عطا کو دیکھا تھا، پانچ موقعوں پر مناسک حج کی تعلیم دی، بال ترشوانے سے پہلے میں نے اس سے حجامت کی بنوائی طے کرنی چاہی اس نے کہا عبادت میں شرط نہیں کی جاتی،بیٹھ جاؤ حجامت بن جائے گی ، میں قبلہ رُخ سے ذرا ہٹ کر بیٹھا تھا،اس نے قبلہ رخ بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں نےبائیں جانب سے سر منڈانا چاہا اس نے کہا داہنی سمت پھیرو میں نے پھیر دیا وسرمونڈنے لگا میں بالکل خاموش تھا، اس نے کہا داہنی سمت پھیرو میں نے پھیر دیا وہ سرمونڈنے لگا،میں بالکل خاموش تھا، اس نے کہا تکبیر کہتے جاؤ، حجامت بنوانے کے بعد جب میں جانے لگا تو اس نے پوچھا کہاں جاتے ہو میں نے کہا اپنے قیام گاہ پر،اس نے کہا پہلے دورکعتیں پڑھ لو،اس کے بعد جاؤ،میں نے خیال کیا کہ حجام خود اس قسم کے مسائل نہیں جان سکتا جب تک اس نے کسی سے معلوم نہ کیا ہو، میں نے اس سے پوچھا تم نے جن باتوں کی مجھ کو تعلیم دی ہے، وہ تمہیں کہاں سے معلوم ہوئیں اس نے کہا میں نے عطاء بن ابی رباح کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ (ابن خلکان :۱/۳۱۹) علم میں للہیت عطاء اپنے علم سے کوئی دنیاوی فائدہ نہ حاصل کرتے تھے؛بلکہ ان کا علم خالصۃً لوجہ اللہ تھا،سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے عطاء طاؤس اورمجاہد کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ،جس کا مقصد علم سے خالص لوجہ اللہ ہو۔ (ابن سعد:۵/۳۴۵) زہد وتقویٰ علم کے ساتھ ان میں اسی درجہ کا عمل بھی تھا، زہد وورع کے لحاظ سے وہ جماعت تابعین میں ممتاز تھے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ علم اورورع میں سادات تابعین میں تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ عطاء کے علم،زہد اور خدا پرستی کے مناقب بہت ہیں۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/) قوت ایمانی عطاء ایمان کے جس درجہ پر تھے اس کے متعلق عبدالرحمٰن کا بیان ہے کہ سارے اہل مکہ کا ایمان مل کر بھی عطاء کے ایمان کے برابر نہ تھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۳) عبادت وریاضت عبادت کا یہ حال تھا کہ کامل بیس سال تک مسجد کا فرش ان کا بستر رہا (تہذیب التہذیب:۷/۲۰۳) تہجد میں روزانہ دوسویا اس سے زیادہ آیتیں پڑھتے تھے (مختصر صفوہ الصفوہ:۷/۱۵۸) کثرت عبادت سے پیشانی پر نشان سجدہ تاباں تھا (ابن سعد: /۳۳۳) ان کا کوئی وقت ذکر الہی سے خالی نہ ہوتا تھا، عبداللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء سے بہتر مفتی نہیں دیکھا،ان کی مجلس میں ہر وقت خدا کا ذکر ہوتا رہتا تھا اورلوگ علمی مباحثہ کرتے تھے،عطاء جب کچھ بولتے،یا جب کوئی سوال کیا جاتا تو نہایت خوبی سے اس کا جواب دیتے۔ (ایضاً:۳۴۵) حج آپ کا قیام مکہ ہی میں تھا اس لیے کسی سال حج ناغہ نہ ہوتا تھا؛چنانچہ آپ نے ستر حج کیے۔ (مختصر صفوۃ الصفوہ:۱۵۸) اتباع حدیث اتباعِ حدیث میں بڑا اہتمام تھا امام شافعیؒ کا بیان ہے کہ تابعین میں عطاء سے زیادہ کوئی متبع حدیث نہ تھا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۳۳) عزلت گزینی طبیعت میں عزلت پسندی تھی،لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہ تھا،دروازہ بند کیے گھر میں بیٹھے رہتے تھے،جب کوئی اندر آنے کی اجازت چاہتا تو پوچھتے کس نیت سے آئے ہو، اگر آنے والا کہتا کہ آپ کی زیارت کے لیے تو جواب دیتے کہ میرے جیسے شخص کی زیارت نہیں کی جاتی،پھر فرماتے وہ زمانہ کیسا خبیث ہے،جس میں میرے جیسے شخص کی زیارت کی جائے (مختصر صفوۃ الصفوۃ:۱۵۸) لیکن اچھی مجلسوں کو جن میں خدا کا ذکر ہوتا پسند کرتے تھے،فرماتے تھے کہ جو شخص اس مجلس میں بیٹھتا ہے،جس میں خدا کا ذکر ہوتا ہے تو خدا اس مجلس کو دس باطل مجلسوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔ (مختصر الصفوہ الصفوۃ :۱۸۵) خاموشی جب مجمع میں بیٹھنے کا بھی اتفاق ہوتا تو زیادہ تر خاموش ہی رہتے اسمعیل بن امیہ کا بیان ہے کہ عطاء عموماً خاموش رہتے تھے،جب کچھ بولتے تھے تو ہم لوگوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان پر الہام ہورہا ہے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۸۶) وفات بروایت صحیح ۱۱۴ھ میں وفات پائی۔ (ایضاً)