انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کا قتل تفصیل اس اجمال کی یہ ہےکہیوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کو لوگوں نے ابھارا وہ قرطبہ سے چھپ کر بھاگ نکلا مگر اس کے دونوں بیٹےابو زمید عبدالرحمن اور ابوالاسودقرطبہ سے نہ نکل سکے وہ قرطبہ ہی میں رہےگئے ،ضمیل بن حاتم ،یوسف بن عبدالرحمن فہری کاوزیر بھی قرطبہ سے نہ نکل سکا یہ تینوں نظر بند اور قید کرلیے گئے ،یوسف فہری قرطبہ سے بھاگ کر طلیطلہ پہنچا ،قرارداد کے موافق ہر طرف سے لوگ آآکر اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور بہت جلد بیس ہزار آدمیوں کا لشکر اس کے جھنڈے کے نیچے طلیطلہ میں مرتب ہوگیا ،یوسف بن عبدالرحمن اس لشکرکو لےکر اشبیلیہ پر حملہ آور ہوا اور عبدالملک بن عمر کا محاصرہ کرلیا عبدالملک مدافعت پر آمادہ ہوگیا یوسف نے اشبیلیہ کی فتح میں زیادہ وقت صرف کرنا مناسب نہ سمجھ کر محاصرہ اٹھالیا اور قرطبہ کی جانب روانہ ہوا ادھر عبدالملک کا بیٹا عمر اپنے باپ کے محصور ہونے کی خبر سن کر اشبیلیہ کی جانب روانہ ہوگیا تھا دونوں باپ بیٹوں نے مل کر یوسف بن عبدالرحمن کی فوج کا تعاقب کیا ادھر امیر عبدالرحمن کو جب معلوم ہوا کہ یوسف بیس ہزار فوک لیے ہوئے قرطبہ کی جانب آرہا ہے تو وہ قرطبہ سے نکل کر خود یوسف کی طرف بڑھا راستے میں مقابلہ ہوا سامنے سے عبدالرحمن نے حملہ کیا پیچھے سے عبدالملک اورعمر آگئے یوسف کی فوج کے بہت سے آدمی مارےگئے اور یوسف شکست کھاکر بے سروسامانی کے ساتھ طلیطلہ کی جانب بھاگا،طلیطلہ کے قریب پہنچا تھا کہ اس ککی فوج کے یمنی لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر یوسف کو ہم قتل کردیں او راس کاسر امیر عبدالرحمن کے پاس لے جائیں تو وہ اس خدمت کے صلے میں ہم سے خوش ہوجائےگا اور ہماری اس خطا کو کہ ہم نے بغاوت میں شرکت کی ہے معاف کردےگا چنانچہ یمنیوں نے یوسف کو طلیطلہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی قتل کردیا اور اس کا سر لےکر عبدالرحمن کیخذمت میں پہنچ گئے ۔ یوسف فہری بڑا بہادر اور نامور سپہ سالار تھا اندلس کا امیر رہ چکا تھا اس میں سخاوت ومروت کا مادہ بھی بہت تھا مگر لوگوں کے دھوکے دینے سے دھوکہ کھاجاتا تھا اس مرتبہ بھی یوسف نے فریب کھایا اور لوگوں کی باتوں میں آکر اس طرح اپنی جان کو گنوادیا استلخ تجربہ کے بعد امیر عبدالرحمن کے لیے یہ جائز ہوگیا تھا کہ وہ ضمیل بن حاتم اور یوسف کے بیٹوں کو قتل کرادے چنانچہ ابن حاتم اور ابوزید بن یوسف تو قتل کے گئے مگر ابوالاسود کو بوجہ اس کے کہ اس کی عمر تھوڑی تھی قرطبہ کے متصل ایک پہاڑی میں قلعہ میں نظر بند کردیاگیا،فتنۂ یوسف کے فرو ہوجانے کے بعد باغیوں اور سرکشوں کی ہمتیں پست ہوگئیں اور بظاہر امیر عبدالرحمن کا تسلط پورے طور پر قائم ہوگیا امیر عبدالرحمن نے فہری خاندان کے سرکشوں کی لاشوں کو جو اس بغاوت میں مقتول ہوئے تھے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے قرطبہ کے باہر صلیب پر لٹکوادیا تھا بظاہر لوگوں پر ہیبت طاری ہوئی لیکن اندر ہی اندر فہریوں کی ہمدردی کا جذبہ بھی ترقی کرتا رہا۔ ابوالاسود بن یوسف فہری جوقرطبہ کے باہر ایک قلعہ میں قیدتھا اس نے ایک عرصہ کے بعد اپنے آپ کونابینا ظاہر کیا اور کہا کہ میری بصارت جاتی رہی ہے محافظوں نے اس ک واندھا سمجھ کر نگرانی میں احتیاط برتنی شروع کردی وہ صبح کو قلعہ سہ باہر ندی کے کنارے پیشاب پاخانے کے لیے لاٹھی ٹیکتا ہوا چلا جاتا اور وہاں سے فارغ ہوکر کہتا کہ کوئی خدا کا بندہ اندھے کو راستہ بتادے اور قلعہ تک پہنچادے اسی وقت اس طرف بہت سے فوج کے سپاہی بھی حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے جایا کرتے تھے ان میں سے کوئی شخص اس مصنوعی اندھے کا ہاتھ پکڑ کر قلعہ کے دروازے تک پہنچایاکرتے تھے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی نگرانی کرنے والے بالکل بے فکر اور مطمئن ہوگئے کہ یہ کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتا ابوالاسود کے پاس اس کا ایک غلام ندی کے کنارے سے آنے لگا اس کی معرفت ابوالاسود نے ہمدردوں کو سلام وپیم بھیجنے شروع کردیے اور ایک روز گھوڑوں کی ڈاک بٹھاکر ۱۶۴ھ میں اس قید سے آزاد ہوکر نکل بھاگا اس کاذکر آگے انشاءاللہ آئےگا۔