انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ناصرلدین اللہ ناصرلدین اللہ بن مستضی بامراللہ ۱۰/رجب سنہ۵۵۳ھ کوایک ترکی اُم ولد موسومہ زمرد کے بطن سے پیدا ہوا اور ذیقعدہ سنہ۵۷۵ھ میں اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا، بہت ذی ہوش، دوراندیش اور چوکس رہنے والا خلیفہ تھا، تخت نشین ہوتے ہی ممالک محروسہ اسلامیہ میں قاصد روانہ کیے گئے کہ خلیفہ کی بیعت امراء سے لیں، اس زمانہ میں ہمدان، اصفہان اور رَے میں بہلوان نے اوّل بیعت کرنے سے انکار کیا؛ مگرجب خود اسی کے سرداروں نے دھمکی دی کہ اگرآپ خلیفہ کی بیعت نہ کریں گے توہم منحرف ہوجائیں گے توبہلوان نے بیعت کرلی، ایلدکزا تابک سنہ۵۶۸ھ میں مقام ہمدان میں فوت ہوگیا تھا، ایلدکز جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے، ارسلان شاہ بن سلطان طغرل کا اتالیق ونگران تھا، ایلدکز کی وفات کے بعد ارسلان شاہ کا اتالیق ایلدکز کا بیٹا بہلوان ہوا، سنہ۵۷۳ھ میں ارسلان شاہ بھی فوت ہوا توبہلوان نے ارسلان کے بیٹے طغرل بن ارسلان بن طغرل کواس کا جانشین کیا اور خود بلادمذکورہ کی حکومت کرتا رہا۔ سنہ۵۸۲ھ میں جب بہلوان بن ایلدکز نے وفات پائی توہمدان، رَے، اصفہان، آذربائیجان اور ارانیہ کے علاقے اس کے زیرِحکومت تھے اور طغرل بن ارسلان اس کی کفالت میں تھا، بہلوان کے مرنے پراس کا بھائی عثمان معروف بہ قزل ارسلان بن ایلدکز اس کا قائم مقام ہوا، طغرل بن ارسلان چند روز توقزل ارسلان کی کفالت ونگرانی میں رہا؛ پھراس سے علیحدہ ہوکر امراء کواپنے ساتھ ملاکر بعض شہروں پرقابض ہوگیا؛ چنانچہ قزل ارسلان اور طغرفل میں متعدد لڑائیاں ہوئیں، رفتہ رفتہ طغرل کی قوت بڑھتی گئی اور قزل ارسلان کمزور ہوتا گیا، قزل ارسلان نے دربارِ خلافت میں عرضی بھیجی اور اطاعت وفرماں برداری کا اقرار کرکے طغرل کی طاقت کے بڑھتے جانے سے دربارِ خلافت کے لیے بھی اندیشہ پیدا ہوجانے کے امکان کا اظہار کیا، خلیفہ ناصرلدین اللہ نے سلاطینِ سلجوقیہ کے محلوں کوجوبغداد میں بنے ہوئے تھے، مسمار ومنہدم کرادیا اور ابوالمظفر عبیداللہ بن یونس کوقزل ارسلان کی مدد کے لیے مع لشکر روانہ کیا، عبیداللہ ابھی قزل ارسلان تک نہیں پہنچنے پایا تھا کہ ۱۸/ربیع الاوّل سنہ۵۸۴ھ کوبہ مقام ہمدان میں طغرل سے مقابلہ ہوگیا، سخت لڑائی ہوئی، طغرل نے فتح پائی اور عبیداللہ گرفتار ہوگیا، بقیہ لشکر نے بغداد آکر دم لیا؛ مگراس کے بعد قزل ارسلان، ہمدان، رَے، اصفہان وغیرہ کل صوبوں پراستقلال کے ساتھ حکومت کرنے لگا اور اپنے نام کا سکہ وخطبہ جاری کیا، سنہ۵۸۷ھ میں طغرل بہ حالت قید قتل کردیا گیا اور دولت سلجوقیہ کا خاتمہ ہوگیا، اس حکومت وسلطنت کوطغرل بیگ نے قائم کیا تھا، اس کا خاتمہ بھی اسی نام کے سلطان یعنی طغرل بیگ پرہوا۔ سنہ۵۸۵ھ میں امیرعیسیٰ والی تکریت فوت ہوا تواس کے بھائیوں نے تکریت پرقبضہ کیا، خلیفہ ناصر نے ایک فوج بھیج کرتکریت پراپنا قبضہ کیا اور امیرعیسیٰ کے بھائیوں کوجاگیریں دے دیں، سنہ۵۸۶ھ میں اسی طرح شرعانہ پرقبضہ کیا اور وہاں سے امیروں کوجاگیریں دیں، اس کے بعد سنہ۵۹۱ھ میں خلیفہ ناصر نے خوزستان کی طرف فوجیں بھیج کراس ملک پربھی قبضہ کیا اور اپنی طرف سے طاش تگین مجیرالدین کوخوزستان کی حکومت پرمامور کیا، ان ایام میں رَے پرقتلغ بن بہلوان بن ایلدکز حکومت کررہا تھا، خوارزم شاہ نے قتلغ کوشکست دے کربھگادیا اور اس علاقہ پرقبضہ کرلیا تھا، مویدالدین ابوعبداللہ محمد بن علی جس نے خوزستان کوخلیفہ کے حکم کے موافق فتح کرکے طاش تگین کے سپرد کردیا تھا، اپنی فوج لیے ہوئے روانہ ہونے کوتھا کہ قتلغ بن بہلوان اس کے پاس پہنچا اور رَے کی طرف فوج کشی کرنے کی ترغیب دی، موید الدین، قتلغ کے ہمراہ ہمدان کی طرف گیا، جہاں خوارزم شاہ کا بیٹا لشکر لیے ہوئے پڑا تھا، وہ مویدالدین کی خبر سن کررَے کی طرف چلا گیا اور موید الدین نے ہمدان پربہ آسانی قبضہ کرلیا، ہمدان سے رَے کی طرف روانہ ہوا، ابن خوارزم رَے کوچھوڑ کرچل دیا، مویدالدین نے رَے پربھی قبضہ کرلیا اور رفتہ رفتہ اس تمام علاقے پرقابض ہوگیا جوقتلغ کے قبضہ میں پہلے تھا، خوارزم شاہ نے اوّل ایک ایلچی مویدالدین کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس ملک سے اپنا قبضہ اُٹھالو؛ مگرمویدالدین نے کہا کہ یہ ملک خلیفہ ناصرلدین اللہ کی فوج نے فتح کیا ہے؛ ہرگز واپس نہ ہوگا، خوارزم شاہ نے ایک زبردست فوج لے کرہمدان پرحملہ کیا؛ اسی اثاء میں ماہ شعبان سنہ۵۹۶ھ میں مویدالدین کا انتقال ہوگیا؛ مگراس کی فوج نے خوارزم شاہ کا خوب ڈٹ کرمقابلہ کیا، آخربغداد میں فوج کوافسر کے نہ ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی اور خوارزم شاہ نے ہمدان پرقبضہ کرلیا، اس کے بعد خوارزم شاہ اصفہان پہنچا، اس کوبھی اپنے قبضہ میں لاکر اپنے بیٹے کی نگرانی میں دیا اور ایک زبردست فوج حفاظت کے لیے وہاں چھوڑی، اس کے بعد خلیفہ ناصرلدین اللہ نے سیف الدین طغرل نامی ایک سردار کوفوج دے کراصفہان کی طرف روانہ کیا، سیف الدین نے ابن خوارزم شاہ کوبھگاکر اصفہان پرقبضہ کیا؛ پھرہمدان، زنجان اور قزوین پربھی قبضہ کرلیا اور یہ علاقے خلیفہ ناصرلدین اللہ کے قبضہ وتصرف میں آگئے۔ سنہ ۶۰۲ھ میں طاش تگین امیرخوزستان نے وفات پائی، خلیفہ ناصرنے اس کی جگہ اس کے داماد سنجر کومامور کیا، سنہ۶۰۶ھ میں خلیفہ کے دل میں سنجر کی طرف سے ناراضی پیدا ہوئی، اس زمانہ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ فارس کی حکومت اتابک سعد زنگی بن وکلا کے ہاتھ میں تھی، خلیفہ نے سنجر کی سرکوبی کے لیے اپنے نائب وزیرکوفوج دے کرروانہ کیا کہ خوزستان پہنچ کرسنجر کوسزادو، جس وقت نائب وزیر خوزستان کے قریب پہنچا، سنجر خوزستان چھوڑ کرسعد زنگی کے پاس فارس چلاگیا، سعد نے سنجر کی خوب خاطر مدارات کی، ماہ ربیع الاوّل سنہ۶۰۶ھ میں خلیفہ کی فوج نے خوزستان پرقبضہ کرلیا اور سنجر کوطلب کیا، سنجر نے انکار کیا؛ لہٰذا لشکر بغداد فارس کے دارالسلطنت شیراز کی طرف برھا، اتابک سعد زنگی نے سنجر کی سفارش کے خطوط نائب وزیرکولکھے، آخرسنجر نائب وزیر کے پاس چلاگیا اور وہ ماہِ محرم سنہ۶۰۸ھ میں سنجر کوہمراہ لیے ہوئے بغداد واپس آیا اور پابہ زنجیر دربارِ خلافت میں پیش کیا گیا، خلیفہ نے اپنے خادم یاقوت نامی کوخوزستان کی حکومت پرمامور کرکے بھیج دیا اور سنجر کوآزاد کرکے خلعت دیا۔ محرم سنہ۶۱۳ھ میں خلیفہ نے اپنے پوتے موید بن علی بن ناصرلدین اللہ کوتستر (من مضافات خوزستان) کی امارت پرروانہ کیا، اس کا باپ علی ذیقعدہ سنہ۶۱۲ھ میں فوت ہوچکا تھا، اغلمش بہلوان بن ایلدکز کے سرداروں میں سے تھا، اس نے اپنی بہادری اور دانائی کے ذریعہ سے بلادجبل پرقبضہ کرلیا تھا اور اس کی حکومت استقلال کے ساتھ قائم ہوچکی تھی، سنہ۶۱۴ھ میں اس کوفرقہ باطنیہ (قرامطہ) نے قتل کرڈالا، اغلمش کے قتل ہونے پراس کے مقبوضہ ملک پرایک طرف اتابک سعد بن وکلا حاکم فارس نے قبضہ کرنا چاہا، دوسری طرف خوارزم شاہ حاکم خراسان وماوراءالنہر نے قابض ہونا چاہا، اتابک بن زنگی نے فوج لے کراصفہان کوفتح کیا، ادھر سے خوارزم شاہ مع فوج آرہا تھا، مقام رَے میں دونوں کا مقابلہ ہوا، سخت خون ریز جنگ کے بعد اتابک سعد کوشکست ہوئی، خوارزم شاہ نے اس کوگرفتار کیا اور اغلمش کے تمام مقبوضہ ملک پرقابض ہوکر دارالخلافہ بغداد میں خلیفہ کے پاس اپنا خطبہ بطورِ نائب السلطنت پڑھے جانے کی درخواست بھیجی، وہاں سے انکاری جواب آیا، خوارزم شاہ نے بغداد کی طرف فوج روانہ کی؛ مگرراستے میں اس قدر برف باری ہوئی کہ اس فوج کا اکثرحصہ ہلاک ہوگیا، باقی کوترکوں اور کردوں نے لوٹ لیا، بقیہ لوگ بہ حالت زارخوارزم شاہ کے پاس واپس آگئے، خوارزم شاہ نے اس کوبدفالی سمجھ کرخراسان کی جانب حملہ کیا تومفتوحہ ملک پراپنے بیٹے رکن الدین کومامور کرکے عمادالملک سادی کواس کا مدارالمہام بنایا اور اپنے مقبوضہ ممالک سے خلیفہ ناصر کے نام کا خطبہ موقوف کردیا، یہ سنہ۶۱۵ھ کا واقعہ ہے۔ سنہ۶۱۶ھ میں قبیلہ تاتار نے جوطمغاچ علاقہ چین کے پہاڑوں میں رہتا تھا، خروج کیا، ان لوگوں کا وطن ترکستان سے چھ مہینے کی مسافت پرتھا، اس قبیلہ کے سردار کا نام چنگیز خان تھا، جوترکوں کے قبیلہ تمرجی سے تعلق رکھتا تھا، چنگیز خان نے ترکستان وماوراءالنہر پرفوج کشی کی اور ترکان خطا سے ان ملکوں کوچھین کرخود قابض ہوگیا، اس کے بعد خوارزم شاہ پرحملہ آور ہوا اور خراسان وبلاد جبل کواس کے قبضے سے نکال لیا، اس کے بعد ارانیہ اور شروان پرقابض ہوا، انہیں تاتاریوں کا ایک گروہ غزنی، سجستان، کرمان وغیرہ کی طرف گیا، خوارزم شاہ ان تاتاریوں سے شکست کھاکر طبرستان کے کسی مقام میں جاکر سنہ۶۱۷ھ میں اکیس سالہ حکومت کے بعد فوت ہوگیا، خوارزم شاہ کوشکست دینے کے بعد تاتاریوں نے اس کے بیٹے جلال الدین بن خوارزم شاہ کوغزنی میں شکست دی اور چنگیز خان دریائے سندھ تک اس کا تعاقب کرتا ہوا چلاگیا، جلال الدین دریائے سندھ کوعبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوگیا، چند روز ہندوستان میں رہ کرسنہ۶۲۲ھ میں خوزستان وعراق کی جانب چلاگیا اور آذربائیجان وآرمینیا پرقابض ہوگیا؛ یہاں تک کہ مظفر کے ہاتھ سے قتل ہوا، چنگیز خان اور اس کی ملک گیریوں کے حالات بعد میں مفصل بیان کیے جائیں گے، آخرماہِ رمضان سنہ۶۲۲ھ میں ۴۷/سال کی خلافت کے بعد خلیفہ ناصرلدین اللہ نے وفات پائی، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ خوارزم شاہ نے چونکہ خلیفہ سے منازعت کی تھی اور خلیفہ کا خطبہ اپنے ممالک مقبوضہ میں موقوف کردیا اس لیے خلیفہ ناصرلدین اللہ ہی نے چنگیز خان کوخراسان پرحملہ آور ہونے کی ترغیب دی تھی؛ کیونکہ خوارزم شاہ کوخود سزادینا اور اس سے انتقام لینا خلیفہ کے لیے آسان نہ تھا۔ ناصر لدین اللہ نے اپنے جاسوس تمام ملکوں اور شہروں میں پھیلا رکھے تھے، وہ لوگوں کے معمولی کاموں اور باتوں سے بھی واقف رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا، اکثرلوگوں کواس کی نسبت شبہ تھا کہ جن اس کے تابع ہیں اور وہی اس کوخبریں دیتے ہیں، سیاسی چالیں چلنا خوب جانتا تھا، ملکوں میں اس کا رُعب خوب قائم ہوگیا تھا؛ مگررِعایا اس سے خوش نہ تھی اور اس کی سخت گیریوں اور سخت سزاؤں سے نالاں تھی، اسی خلیفہ کے زمانہ میں سنہ۵۸۳ھ میں سلطان صلاح الدین نے رومیوں سے بہت سے شہر فتح کیے، بیت المقدس بھی ۹۱/سال کے بعد مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، سنہ۵۸۹ھ میں سلطان صلاح الدین یوسف فاتح بیت المقدس نے وفات پائی، اسی خلیفہ کے عہد میں ابوالفرح ابن جوزی، امام فحرالدین رازی، نجم الدین کبریٰ، قاضی خان صاحب الفتاویٰ، صاحب الہدایہ وغیرہ نے وفات پائی، خلیفہ ناصرلدین اللہ کے بعد اس کا بیٹا ابونصر محمد تخت نشین ہوا اور اس نے اپنا لقب ظاہر بامراللہ اختیار کیا۔