انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمد بن قاسم جس زمانے میں مسلمانوں نے ملک عرب سے باہر فاتحانہ قدم نکالا ہے توملک سندھ میں بودھ مذہب کے راجہ حکمران تھے، ایرانی شہنشاہی مسلمانوں کے ہاتھ سے پارہ پارہ ہوئی توایرانی سردار کچھ توفرار ہوکر سندھ، ترکستان، چین کی طرف بھاگ گئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوئے کچھ مسلمان ہوکر عزت وآرام کے ساتھ اپنے ملک میں زندگی بسرکرنے لگے، سوء اتفاق سے بنواُمیہ میں جب قومی وخاندانی رقابتوں نے ترقی کی توان ایرانیوں کوبھی قومی رقابت یاد آگئی اور انھوں نے عبداللہ بن سبا اور دوسرے منافقوں کی سازشوں میں بڑے ذوق وشوق سے حصہ لینا شروع کیا ان سازشوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگیوں سے ان ایرانیوں کے منصوبوں میں جوسندھ وکابل، چین وتبت وغیرہ میں جلاوطن ہوکر مقیم اور مخالف اسلام کوششوں میں مصروف تھے ازسرنوجان پڑگئی اور یہی وجہ تھی مسلمانوں کوایراینوں کی بدلوت کوفہ وبصرہ میں بھی اور ایران وخراسان کے علاقوں میں بھی بار بار مشکلات کا سامنا ہوا۔ سندھ کا ملک چونکہ بصرہ وکوفہ یعنی عراق سے نسبتاً قریب تھا اور ایرانی حکومت کی سرحد اس سے ملتی تھی؛ لہٰذا زیادہ ترشرارت پیشہ ایرانیوں کا مامن ملک سندھ ہی بنا ہوا تھا، اسلامی فتوحات کے سیلاب کودیکھ دیکھ کرسندھ کا راجہ خود بھی ایرانیوں کی بربادی سے متاسف اور اس امر کا کوشاں تھا کہ کسی طرح ایرانی اپنی سلطنت پھرقائم کرسکیں؛ چنانچہ ایران کے آخری بادشاہ نے معرکہ نہاوند کے بعد کئی مرتبہ فوجیں جمع کرکے مسلمانوں کا مقابلہ کیا توان مقابلوں اور معرکوں میں سندھ کی امدادی فوج شاہ ایران کے ساتھ ضرور ہوتی ایران کی سلطنت جب برباد ہوئی توسندھ کے راجہ نے اپنے سرحدی ایرانی صوبوں کواپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور مغلوب ومفتوح ایرانیوں نے کرمان وبلوچستان وغیرہ کے صوبوں کوبخوشی سندھ کے راجہ کوسپرد کردیا؛ تاکہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ جاسکیں او راس کے معاوضہ میں سندھ کے راجہ کی حمایت ان کوحاصل رہے۔ یہ باتیں محرک اس امر کی تھیں کہ مسلمان سندھ پرحملہ کرکے سندھ کے راجہ کودرست کریں؛ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ایران وخراسان پرمکمل قبضہ نہ ہونے پایا تھا کہ اندرونی فسادات شروع ہوگئے اور سندھ کی طرف کوئی توجہ نہ ہوسکی، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اندرونی خرخشوں سے نجات حاصل کرکے بیرونی ممالک کی طرف توجہ کی اور ان کے زمانے میں سندھ کے راجہ سے وہ صوبے جوایرانی سلطنت کا جزوتھے واپس لینے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں معمولی چھیڑ چھاڑ سندھی فوجوں سے ہوئی لیکن ان کے بعد یزید کی حکومت میں پھروہی اندرونی فسادات واپس آگئے اور مسلمان بیرونی علاقوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ عبدالملک کے زمانے میں پھرمسلمانوں کوبیرونی ممالک کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہ ملا اور حجاج نے جومشرقی ممالک کا وائسرائے تھا، سندھ کے مقابلے میں افغانستان وبدخشاں کے حاکم رتبیل کی سرکوبی کواس لیے مقدم سمجھا کہ وہ خراسان کے اسلامی صوبہ کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہوسکتا تھا، چنانچہ حجاج کی زیادہ ترتوجہ رتبیل اور اس کی وجہ سے بخارا وغیرہ کی طرف مبذول رہی، حجاج کے گورنرقتیبہ نے ملکِ چین تک کے سرکشوں کوسیدکھا کرنے میں کارہائے نمایاں دکھلائے، اس کے بعد سندھ کا ملک ہی ایک ایسا ملک تھا کہ مسلمان سندھیوں سے اپنے حقوق واپس لینے اور سندھ کے راجہ کوآئندہ کے لیے درست رکھنے کی غرض سے اپنی طاقت وسطوت کا نمونہ دکھاتے؛ لیکن ابھی مسلمان اس ضروری کام کواپنی طرف سے شروع نہ کرنے پائے تھے کہ خود سندھ کے راجہ نے مسلمانوں کواپنے ملک پرحملہ آور ہونے کی دعوت دے دی۔ تفصیل اساجمال کی یہ ہے کہ کچھ مسلمان سوداگر جزیرہ سراندیپ میں بہ حالت سفر فوت ہوگئے تھے ان کے یتیم بچے اور بیوہ عورتیں جواس جزیرہ میں رہ گئیں ان کوسراندیپ کے راجہ نے حجاج بن یوسف ثقفی اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی عنایت ومہربانی اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے بہترین ذریعہ سمجھا، سراندیپ کا راجہ مسلمانوں کی فتوحات کا حال سن سن کرپہلے سے مرعوب اور اپنی نیاز مندی کے اظہار کی غرض سے کسی ذریعہ اور حیلہ کا متلاشی تھا؛ چنانچہ اس نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کوبڑی تعظیم واکرام کے ساتھ اپنے متروں کے ساتھ اپنے خاص جہاز میں بٹھا کرحجاج کے پاس روانہ کیا، بہت سے قیمتی تحفے اور ہدئیے حجاج اور خلیفہ ولید کے لیے بھیجے اور ان یتیموں اور بیواؤں سے اُمید رکھی کہ یہ ضرور میری تعریف حجاج سے کریں گے، یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ہوکر ساحل کے قریب قریب سفر کرتی ہوئی خلیج فارس کی طرف روانہ ہوئیں کہ وہاں سے خشکی پراترکر یہ لوگ معہ تحفہ وہدایا حجاج کی خدمت میں کوفہ میں پہنچیں گے راستے میں بادِمخالفت کے طوفان نے ان کشتیوں کوسندھ کے بندرگاہ دیبل میں لاڈالا؛ یہاں سندھ کے راجہ مسمی داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کولوٹ لیا اور سواروں کوقید کرلیا، یہ حال جب حجاج کومعلوم ہوا تواس نے سندھ کے راجہ کولکھا کہ وہ کشتیاں ہمارے پاس آرہی تھیں تم لٹیروں کوقرار واقعی سزادو اور کشتیوں کے آدمیوں کومع سامان مسروقہ ہمارے پاس بھیج دو یہاں سے راجہ نے حجاج کونہایت مغرورانہ اور نامعقول جواب لکھا۔ حجاج نے اوّل عبداللہ اسلی کوچھ ہزار فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا، عبداللہ سندھ میں پہنچ کرراجہ داہر کی فوج کا مقابلہ کرتا ہوا مارا گیا اور یہ مہم ناکام رہی، دوسری مرتبہ حجاج نے بدیل نامی سردار کومامور کیا کہ وہ بھی چھ ہزار فوج لے کردبیل تک پہنچ گیا مگرراجہ جے سب کے مقابلہ میں لڑا ہوا گھوڑے سے گرکرشہید ہوا، اس خب رکوسن کرحجاج کواور بھی زیادہ ملال ہوا، تیسری مرتبہ اس نے محمد بن قاسم کوجواس کا داماد بھی تھا اور صرف سترہ سال کی عمر کا نوجوان تھا، چھ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا، محمد بن قاسم کے ساتھ اس مرتبہ شامی سپاہی اس لیے بھیجے گئے کہ حجاج کواس بات کا شبہ تھا کہ عراقی وایرینی سپاہی سندھیوں سے ساز باز رکھتے ہیں، محمد بن قاسم نے اوّل صوبہ مکران کوجس پرسندھیوں نے قبضہ کررکھا تھا، فتح کرکے سندھیوں کوبھگایا، دیبل پرآیا اس کوفتح کیا نیرون اور برہمن آباد کی طرف بڑھا راجہ داہر کے پاس نہ صرف ایرانی لوگ ہی پناہ گزین تھے؛ بلکہ بہت سے عرب لوگ بھی جوخلیفہ وقت یاعمالِ خلافت سے باغی ہوہوکر بھاگے تھے، سندھ میں راجہ داہر کے پاس پناہ گزین تھے، اس لی بھی سندھ پرحملہ کرنا ناگزیر تھا، راجہ داہر نے مقابلہ کیا اور مارا گیا اس کے بعد محمد بن قاسم نے یکے بعد دیگرے سندھ کے شہروں کوفتح کرنا شروع کیا؛ حتی کہ تمام ملک سندھ اور ملتان اس کے ہاتھ پرفتح ہوا۔ سندھ کی فتح میں حجاج کی توجہ پورے طور پرمحمد بن قاسم کی طرف مبذول رہی وہ روزانہ خبریں منگواتا اور روزانہ محمد بن قاسم کوہدایات بھیجتا تھا، محمد بن قاسم نے اپنے آپ کوسندھیوں کے لیے نہایت شفیق ورحم دل فاتح اور رعایا پرور حکمراں ثابت کیا، اس نوجوان فتح مند نے جس رواداری، بردباری، سیرچشمی اور لطف وعطا کا اظہار کیا، اس کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت کم دستیاب ہوسکتی ہیں، محمد بن قاسم کی فتوحاتِ سندھ کا مفصل حال تاریخ ہند میں لکھا جائے گا، محمد بن قاسم ملتان کوفتح کرچکا تھا کہ اس کے پاس حجاج کے فوت ہونے کی خبر پہنچی؛ مگراس نے اپنی فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور سنہ ۹۶ھ تک بندرسورت سے لے کرملکِ کشمیر تک تمام مغربی ہندوستان کومفتوح ومحکوم کرلیا۔