انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** چھٹی شہادت "إِنَّمَاالْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ"۔ (النور:۶۲) ترجمہ: ایمان والے وہ ہیں جو یقین لائے اللہ پر اوراس کے رسول پر اور جب ہوں اس کے ساتھ کسی جمع ہونے کے کام میں تو چلے نہیں جاتے،اس کی اجازت کے بغیر،بے شک جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں سو وہی ہیں جو مانتے ہیں اللہ اوراس کے رسول کو، پھر جب وہ آپ سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لیے تو آپ اجازت دے دیا کریں، ان میں سے جس کو چاہیں اور استغفار چاہیں اللہ سے ان کے لیے بے شک وہ ہے بخشنے والا بہت رحم کرنے والا۔ حافظ ابنِ قیم "اعلام الموقعین" میں رقم طراز ہیں: جب اللہ تعالی اسے بھی ایمان کے لیے لازم قرار دیتے ہیں کہ مومن جب آپ کے ساتھ (کسی مجلس میں) جمع ہوں تو آپ سے اجازت لیےبغیر کہیں نہ جائیں تو یہ بات ایمان کے لیے بدرجہ اولی لازم ہوگی،کہ مومنین کوئی بھی قول اورکوئی علمی مسلک آپ کی اجازت کے بغیر اختیار نہ کریں اور (ظاہر ہے کہ) آپ کی اجازت کا علم انہی احادیث سے ملے گا جو آپ سے مروی ہیں کہ آپ نے کسی بات کی اجازت دی ہے یا نہ؟۔ قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب آپ کے حکم کے بغیر کسی امر جامع سے جانا بھی درست نہیں تو آپ کی اجازت کے بغیر محض اپنی رائے سے کوئی شرعی حکم اختیار کرنا کیسے درست ہوسکے گا،آپ کی اطاعت کو لازم جاننے کا اقرار ایمان کے لوازم میں سے ہے،حافظ ابن قیمؒ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو شخص سیرت اورروایات صحیحہ میں اہل کتاب اور مشرکین کے آپ کی رسالت کی شہادت دینے اورآپ کو سچا کہنے اوراس شہادت کے انہیں داخل اسلام نہ کرنے کے واقعات پر غور کرے گا، وہ جان لے گا کہ اسلام صرف آپ کےپہچان لینے یا صرف اقرار کرنے کا نام نہیں؛ بلکہ اسلام اس سے ماوراء پہچان اقرار،انقیاد وفرما نبرداری کے لیے جھکنا اورآپ کی اطاعت اورآپ کے دین کو ظاہراً وباطنا ًلازم پکڑنے کا نام ہے۔ (زادالمعاد:۳/۵۵) معلوم ہوا کہ ایمان میں تصدیق واقرار کے ساتھ انقیاد اورالتزام طاعت ہی اس کی حقیقت ہے جو ایمان و کفر کے مابین ایک حد فاصل ہے، جسے عبور کیئے بغیر خدا کی بادشاہی میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا، یہ انقیاد اورالتزام طاعت کسی شرط سے مشروط نہیں،رسول بھیجے ہی اسی لیے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ "وَمَاأَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّالِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ"۔ (النساء:۶۴) ترجمہ: اورنہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اسی لیے کہ اس کی حکم الہٰی کے تحت تابعداری کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول معصوم ہوتے ہیں، پیغمبر معصیت کرے تو وہ معصیت امت کے لیے شریعت بنے گی،یہ بات منظورباری تعالی نہیں کہ معصیت شریعت بنے؛ اسی لیے حکمت باری متوجہ ہوئی کہ پیغمبروں سے معصیت صادر نہ ہو اورنہ کوئی لغزش باقی رہے،پس اس نے ان برگزیدہ ہستیوں کو شان عصمت بخشی اورمقام رسالت سے بعید ٹھہرایا کہ اس سے کوئی خیانت سرزد ہو۔ "ماكَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ"۔ (اٰل عمران:۱۶۱) ترجمہ:کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ کسی قسم کی خیانت کرے ۔ یہ آیت مقام نبوت کو ہر قسم کی خیانت سے، نیت کی ہو یا عمل کی، پاک قرار دے رہی ہے۔ عصمت رسالت تقاضا کرتی ہے کہ رسول جس بات کا حکم دے وہ یقینا ًبھلی ہو اور جس کام سے روکے وہ یقیناً بری ہو، جس چیز کی اجازت دے وہ طیب ہو اور جس چیز کو حرام بتلائے وہ خبیث ہو،قرآن کریم اس نہج کو حضور اکرمﷺ کی صفات میں ذکر کرتا ہے: "يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ"۔ (الاعراف:۱۵۷) ترجمہ: وہ حکم کرتا ہے ان کو اچھی باتوں کا اور روکتا ہے ان کو برے کاموں سے اورحلال ٹھہراتا ہے ان کے لیے سب پاک چیزیں اورحرام ٹھہراتا ہے ان پر سب ناپاک چیزیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل ہے، کسی شرط سے مشروط اور کسی قید سے مقید نہیں،ہاں یہ نیت ضرور ہے کہ آپ کی ہربات اللہ کی طرف سے ہے؛ پھر آپ کی ہر بات امت کے لیے حجت اورسند ہے،خواہ اس کی اصل قرآن کریم میں ملے یا نہ ملے،امت اس بات کی مکلف نہیں کہ امر رسول کی اصل قرآن کریم میں تلاش کرے، آپ کی ہربات کے لیے کسی اور دلیل کی تلاش اورضرورت نہیں ہے۔ مجتہدین اوراولی الامر کی اطاعت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی اصل کتاب و سنت میں موجود ہو،کیوں کہ وہ حضرات بذات خود حجت اورسند نہیں ہوتے اوران سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا، اس کی گرانی بھی دل میں رکھنا انسان کو خدا کی بادشاہی سے باہر کردیتا ہے،قرآن پاک میں اولی الامر کی اطاعت اطاعت رسول کے تابع ہے ؛کیوں کہ اولی الامر معصوم نہیں؛ مگر اطاعت رسول اطاعت خداوندی سے مشروط نہیں، رسول خود معصوم ہیں،اللہ تعالی نے انہیں بذات خود حجت اورسند بنایا ہے اوران کی اطاعت مستقل ٹھہرائی ہے۔