انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت رفاعہ ؓبن زید نام ونسب رفاعہ نام،باپ کا نام زید تھا ،نسباقبیلۂ جذام سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام خیبر سے کچھ دنوں پہلے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ آکر مشرف با سلام ہوئےاور آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک غلام مدعم پیش کیا ،خیبر کے موقع پر شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ:۲/۱۸۱) وطن کی واپسی اور تبلیغ اسلام قبول اسلام کے بعد کچھ دنوں تک قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے (ابن سعد،جلد۷ق۲:۱۴۸)حصول تعلیم کے بعد آنحضرتﷺ نے ایک نامۂ مبارک دیکر انہیں ان کے قبیلہ میں تبلیغ کے لیے بھیجا نامۂ مبارک کا مضمون یہ تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط محمد رسول اللہ کی جانب سے رفاعہ بن زید کو دیا جاتا ہے، میں ان کو ان کے قبیلہ میں اور جو اس میں داخل ہوں ان کی طرف بھیجتا ہوں تاکہ وہ انہیں خدا اوررسول کی طرف بلائیں، جو پیش قدمی کریگا وہ حزب اللہ کا ایک فرد ہوگا، اورجو لوگ پیچھے ہٹینگے ان کے لیے دو مہینہ کی مہلت ہے، رفاعہ یہ خط لیکر وطن پہنچے اور چند دنوں میں ان کی کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ مشرف باسلام ہوگیا۔ (اسد الغابہ:۲/۱۸۱) ابھی ان کا قبیلہ مسلمان ہوا تھا کہ دوسری طرف سے زید ؓبن حارثہ نے جو دوسری مہم پر بھیجے گئے تھےپہنچ کر اس پر غلطی سے حملہ کردیا، کچھ لوگ قتل ہوئے اورکچھ گرفتار ،رفاعہ اپنے قبیلہ کے وفد کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں فریاد لے کرآئے اوروہ خط پیش کیا آپ نے فرمایا جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب مقتولین کے بارہ میں کیا کیا جائے؟ اس وفد کے ایک رکن ابو زید نے کہا قیدیوں کو رہائی کا حکم صادر فرمایا جائے،باقی جو لوگ قتل ہوئے، ان کا خون معاف کرتے ہیں، اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا، ابو زید کی رائے صائب ہے اورحضرت علیؓ کو زید ؓبن حارثہ کے پاس بھیجا کہ وہ سب قیدیوں کو رہا کردیں ؛چنانچہ تمام قیدی رہا کردیئے گئے اورجس قدر مال لوٹا گیا تھا سب واپس کردیا گیا۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،۱۴۸)